عورت اور پردَہِ عورت }}}} { 2 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 59 {{{{ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھاالنبی
قل لازواجک و بنٰتک
ونساء المؤمنین یدنین
علیھن من جلاببھن ذٰلک ادنٰی
ان یعرفن فلا یؤذین وکان اللہ غفورا
رحیما 59
اے ھمارے نبی ! آپ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں سمیت تمام اہلِ ایمان مردوں کی تمام اہلِ ایمان عورتوں کے لیۓ یہ فرمان جاری کردیں کہ جب وہ اپنے گھروں سے باہر ہوں تو اُن کے لیۓ مناسب ترین عمل یہ ھے کہ وہ اپنی جسم پوشی کے لیۓ اپنے جسموں پر اپنی چھوٹی چادریں ڈال لیا کریں تاکہ اُن کا یہ عمل اُن کی مومنانہ شان کی پہلی اور آخری پہچان بن جاۓ اور کبھی بھی کوئی انسان کسی مسلمان عورت کو ستانے کی جرات نہ کر سکے ، اللہ نے یہ حُکم اِس لیۓ دیا ھے کہ اُس کی ذات ایک خطاپوش اور رحم پرور ذات ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
نظریاتی لوگوں کے ساتھ غیر نظریاتی لوگوں کی بدزبانی کا عام طور پر صرف یہی ایک سبب ہوتا ھے کہ اُن کی اِس بد زبانی سے اُن کے جذبہِ بغض کو ایک گونہ تسکین مل جاتی ھے لیکن اہلِ روایت نے پہلے عام اہلِ ایمان کے لیۓ اللہ تعالٰی کے نازل کیۓ گۓ حُکمِ حجابِ علی الباب اور بعد ازاں اہلِ ایمان عورتوں کے لیۓ اللہ تعالٰی کے نازل کیۓ گۓ حُکمِ سینہ پوشی کے دونوں اَحکام کی آڑ میں نبی علیہ السلام کی ازواجِ مُطہرات کے خلاف جو بد زبانی کی ھے اُس سے اُن کا مقصد محض اپنے جذبہِ بغض کو تسکین دینا نہیں تھا بلکہ اُن کا اصل مقصد اللہ تعالٰی کی ذات اور اُس کی توحید ، رسُول علیہ السلام کی ذات اور اُن کی رسالت ، قُرآنِ کریم کے پڑھنے والے اَصحابِ محمد علیہ السلام کی تعلیم اور اُن کی تربیت کے خلاف وہ دُشمنانہ فضا تیار کرنا تھا جس دُشمنانہ فضا میں وہ سکون کا سانس نہ لے سکیں اور اُن کے اُس عدمِ سکون سے توحید و رسالت کا وہ سارا مشن ہی تلپٹ ہو جاۓ جس مشن کی تعلیم و تکمیل میں محمد علیہ السلام اور اَصحابِ محمد علیہ السلام شب و روز مصروف رہتے تھے کیونکہ جس لَمحے ایک بندہِ مومن اللہ تعالٰی کی توحید کا اقرار کرتا ھے تو اُسی لَمحے وہ سیدنا محمد علیہ السلام کی رسالت کا بھی اقرار کرلیتا ھے اور جس لَمحے وہ حق کے اِن دو مقاصد کا اقرار کرلیتا ھے تو اُسی لَمحے اُس کو دل سے اِس اَمر کا یقین ہو جاتا ھے کہ توحید کا وہی ایک تصور مُعتبر ھے جس کی محمد علیہ السلام کی رسالت نے شہادت دی ھے اور محمد علیہ السلام کی رسالت کا بھی وہی ایک تصور مُعتبر ھے جس کی اَصحابِ محمد علیہ السلام نے شہادت دی ھے ، توحید پر اللہ تعالٰی کی اپنی شہادت اُس کا وہ کلام ھے جس میں بتایا گیا ھے کہ اللہ وحدهٗ لا شریک ھے ، فرشتوں کی شہادت یہ ھے کہ اُن کی جماعت کے ایک قوی و امین فرشتے نے اُس کا یہ کلام اَنبیاء و رُسل تک پُہنچایا ھے ، اللہ تعالٰی کے اُن اہلِ علم اَنبیاء و رُسل کی شہادت یہ ھے کہ انہوں نے ہر زمین اور ہر زمانے کے اہلِ زمین کو اللہ تعالٰی کا یہ کلام سنایا ھے اور قُرآنِ کریم کی سُورَةُالبینة کی اٰیت 8 کے مطابق زمین پر اللہ تعالٰی کے جلوہ آرا ہونے والے آخری نبی اور رسُول کی شہادت یہ ھے کہ اُس نے توحید کا یہ پیغام اپنے رفقاء کو اِس طرح پڑھایا اور اِس طرح اَزبر کرایا ھے کہ اللہ وحدهٗ لاشریک کی طرف سے اُسی زمانے اور اُسی زمین پر اُن کے لیۓ ایک تو { رضی اللہ عنھم و رضوا عنه } کی صورت میں ایک خوشخبری یہ آئی ھے کہ اللہ تعالٰی رفقاۓ محمد سے راضی ہو چکا ھے اور رفقاۓ محمد بھی اللہ تعالٰی سے راضی ہو چکے ہیں اور سُورَةُالبقرة کی اٰیت 137 کے مطابق اُسی زمانے کی اُسی زمین پر اللہ تعالٰی کا دُوسرا یہ فرمان آیا ھے کہ { فان اٰمنوا بمثل ما انتم به فقد اھتدوا وان تولو فانماھم فی شقاق } یعنی اَب جو لوگ اَصحابِ محمد کی شہادت و صداقت پر ایمان لائیں گے وہی ھدایت یافتہ قرار پائیں گے اور جو لوگ اَصحابِ محمد سے رُرگردانی کریں گے وہ گُم راہ ہو جائیں گے ، مقصدِ کلام یہ ھے کہ ایمان کی بالائی کڑی توحید ، درمیانی کڑی رسالت اور تحتانی کڑی شہادتِ اَصحابِ محمد علیہ السلام ھے ، شہادتِ حق کی اِن تین مربوط کڑیوں سے مل کر ہی ایمان کی کی وہ مضبوط لڑی بنی ھے کہ اگر شہادتِ حق کی اِس لڑی کی اِن تین اعلٰی و اوسط یا اَسفل کڑیوں میں سے کوئی ایک کڑی بھی توڑ دی جاۓ تو ایمان کی یہ سنہری زنجیر کفر کی ایک سیاہ لکیر بن جاتی ھے ، یہی وجہ ھے کہ اہلِ روایت نے پہلے اپنی روایاتِ باطلہ کے لیۓ { السنة قاضیة علی الکتاب لیس الکتاب قاضیا علی السنة } کا یہ اعتقاد وضع کیا ھے کہ سُنت ، یعنی اِن کی وضع کی ہوئی ایک روایت تو اللہ کی کتاب پر حاکم ھے لیکن اللہ کی سَچی کتاب کی کوئی اٰیت اِن کی کسی بھی جُھوٹی روایت پر حاکم نہیں ھے ، اِس اعتقاد کا مقصد و مَنشا یہ ھے کہ اہلِ روایت کے کذاب راویوں کی روایت تو قُرآن کے کسی حُکم کو بدل سکتی ھے لیکن قُرآن کی کوئی اٰیت اِن کی کسی روایت کے سامنے پَر بھی نہیں مارسکتی ، اہلِ روایت کا یہی وہ مجوسی فلسفہِ فکر تھا جس کے تحت انہوں نے اٰیتِ حجاب اور اٰیتِ جلباب کے اَحکام آجانے کے فورا بعد اَزواجِ مُطہرات پر اُن اَحکام کی عملی طور پر مخالفت کرنے کے لیۓ جوان مردوں کو اپنا دوفھ پلانے اور اپنے گھر پر بلانے کی وہ روایات وضع کی ہیں جن کا کُچھ اَحوال اِن سطور سے پہلی سطور میں گزر چکا ھے اور اُن ہی وضعی روایات میں سے ایک روایت امام نسائی متوفٰی 303 ہجری کی سنن نسائی کے باب رضاع الکبیر میں درج کی گئی وہ حدیث 3314 ھے جس میں بیان کیا گیا ھے کہ { عن مسروق قال ، قالت عائشة دخل رسول اللہ وعندی رجل قاعد فاشتد ذٰلک علیه ورایت الغضب فی وجھه فقلت یا رسول اللہ انه اخی من الرضاعة ، فقال انظرن ما اخوانکن ، و مرة اخرٰی انظرن من اخوانکن من الرضاعة فان الرضاعة من المجاعة } یعنی مسروق نے عائشہ صدیقہ کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا ھے کہ ایک مرتبہ جب نبی اکرم میرے پاس تشریف لاۓ تو میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کا میرے پاس بٹھنا آپ کو ناگوار لگا اور جب میں نے آپ کے چہرے پر غیض و غضب کے آثار دیکھے تو عرض کیا کہ اے اللہ کے رسُول ! یہ تو میرا دودھ شریک بھائی ھے جس پر آپ نے فرمایا کہ تُم یہ بھی تو دیکھ لیا کرو کہ تُمہارے بھائی کون کون ہیں اور ایک دُوسرے موقعے پر آپ نے فرمایا کہ تُم یہ بھی تو دیکھ لیا کرو کہ تُمہاری دودھ شریک بہنیں کونسی ہیں کیونکہ دودھ کے رشتے کا اعتبار اسی صورت میں ہوتا ھے کہ اُس سے بُھوک ختم ہو جاۓ ، اہلِ روایت کو یہ بُھوک ختم کرنے والی حدیث اِس لیۓ وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ اِس سے قبل وہ یہ حدیث بھی وضع کر چکے تھے کہ { عن عائشة قالت لقد نزلت اٰیة الجم و رضاعة الکبیر عشرا ولقد کان فی صحیفة تحت سریری فلما مات رسول اللہ وتشاغلنا بموته دخل داجن فاکلھا } یعنی سیدہ عائشة نے کہا ھے کہ اِس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ھے کہ زانی کو رجم کرنے کی اٰیت اور بڑے آدمی کو دس گھونٹ دودھ پلانے کی اٰیت نازل ہوئی تھی اور وہ اُس پرچے پر تحریر تھی جو پرچہ میرے بچھونے کے نیچے رکھا ہوا تھا اور جب نبی اکرم کا وصال ہوا تو ھم سب لوگ اضطراب کا شکار ہو گۓ اور ھمارے اسی اضطراب کے دوران ایک بکری آئی اور وہ اس پرچے کو کھا گئی ، اِن روایات پر ہمیں اِس لیۓ تبصرے کی ضروت نہیں ھے کہ اِن کا مفہوم بھی بہت واضح ھے اور اِن کے وضع کرنے والوں کے مقاصد بھی بہت واضح ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 562327 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More