افغان کمشنریٹ اتھلیکٹس مقابلے ، افغان طالبات کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا حربہ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
سب سے مزے کی صورتحال اس وقت سامنے آئی جب اختتامی تقریب میں مقامی کالج کی طالبات نے جنہوں نے پیدل کے مقابلے میں شوز پہن کر ریس میں حصہ لیا تھا اور ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی اور ان مقابلوں کے پوزیشن ہولڈر بچوں میں دس ہزار ، آٹھ ہزار اور پانچ ہزار روپے کے کیش انعامات سمیت ٹرافیاں بھی دی گئی ایسے میں ان افغان طالبات کی حالت دیدنی تھی اداسی ان طالبات کے چہروں سے جھلک رہی تھی ساتھ میں وہ بڑے عجیب نظروں سے پاکستانی طالبات کو دیکھ رہی تھی . اور یوں یہ تقریب اختتام پذیر ہوگئی |
|
|
خیبر پختونخواہ میں افغان مہاجرین کی آبادکاری کیلئے کام کرنے والے افغان کمشنریٹ خیبر پختونخواہ نے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں اتھلیٹکس کے مقابلوں کا انعقاد کیا ، جس کا بنیادی مقصد افغان اور لوکل کمیونٹی کے مابین روابط بنانا تھا ، یہ ایک پراجیکٹ کا حصہ تھا جسے بین الاقوامی امدادی ادارے جی آئی زی نے فنڈ کیا تھا .اتھلیٹکس کے آدھ گھنٹے مقابلوں میں بیس کے قریب افغان طالبات نے حصہ لیا جبکہ بیس کے قریب پاکستانی طالبات نے حصہ لیا. ظاہر یہی کیا گیا کہ یہ مقابلے افغان طالبات کیلئے کرائے جارہے ہیں لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ ا ن مقابلوں میں حصہ لینے والے افغان طالبات کو یہ کہہ کر لایا گیاتھا کہ وہاں پر آپ نے مقابلہ دیکھنا ہے جس کی تصدیق بھی کسی بھی طالبہ سے کی جاسکتی ہیں. اتھلیٹکس کے ان مقابلوں کے دوران ایک مقامی کالج کی طالبات نے حصہ لیا جنہوں نے باقاعدہ کٹس اور شوز پہنے ہوئے تھے اور ان مقابلوں میں ٹیبل ٹینس کی کھلاڑی اور ٹیگ بال کی خاتون جنرل سیکرٹری نے بھی حصہ لیا جنہوں نے پروفیشنل انداز میں اتھلیٹکس کا مقابلہ کیا ، جبکہ اس کے مقابلے میں افغان طالبات جنہوں نے پہلی مرتبہ ٹارٹن ٹریک دیکھا تھا اور پہلی مرتبہ انہوں نے اتھلیٹکس کے مقابلوں میں حصہ لیا ، افسوسناک بات یہی رہی کہ زیادہ تر بچیاں بغیر شوز کی اور کٹس کی تھی اور انہوں نے ٹارٹن ٹریک پر ریس میں حصہ لیا ، ابتدائی مقابلوں کے بعد ان بچیوں نے بعدازاں جرابیں پہن کر ریس میں حصہ لیا کیونکہ انہیں ٹارٹن ٹریک پر پاﺅں میں درد محسوس ہوا تھا. بتایا جاتا ہے کہ ان مقابلوں کیلئے تین ماہ قبل ہی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تھا اگر افغان کمشنریٹ جو وفاق کا ایک ادارہ ہے نے تین ماہ قبل کھیلوں کے اس مقابلے کیلئے رابطہ کیا تھا تو کیا افغان کمشنریٹ کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جاسکتا کہ صرف بیس کے قریب طالبات اس ریس میں شامل ہوئی جنہیں نہ تو کوئی کٹس دی گئی اور نہ ہی شوز ، حالانکہ افغان کمشنریٹ پورے صوبے کا ہے اور اس وقت بھی افغان طالبات کی بڑی تعداد مختلف جگہوں پر پڑھ رہی ہیں. اگر یہ پورے صوبے کی سطح پر تھا تو افسوسناک تھا اور اگر پشاور کی سطح پر بھی تھا تو اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات کوئی نہیں کہ صرف بیس طالبات کیلئے جو کہ افغان طالبات تھی کیلئے کوئی کٹس اور شوز نہیں تھی .اوران بچیوں کو پروفیشنل طور پر اتھلیٹکس کی تربیت حاصل کرنے والے طالبات کے مقابلے میں لایا گیا جو قابل افسوس اور قابل مذمت ہے.پروگرام کے بارے میں متعلقہ اہلکاروں کا موقف تھا کہ یہ افغان طالبات اور میزبان کمیونٹی کو ایک ساتھ لانے کیلئے ارینج کیا گیا تھا ، اب سوال یہ ہے کہ پیدل اور شوز میں حصہ لینے والے کس طرح ایک ساتھ ہوسکتے ہیں کیا یہ ان بچیوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا باعث نہیں بنتا. افغان کمشنریٹ کے مانیٹرنگ اینڈ ایوالوشن آفیسر کے مطابق افغان ہر سکول سے ایک ایک بچی کو لیا گیاتھا اور تعداد اسی بناءپر کم تھی ان کے مطابق افغان طالبات ثقافت ایسی ہے کہ طالبات کم نکلتی ہے اور سکول والوں کی منظوری کے بعد ان طالبات کو لایا گیا. سب سے مزے کی صورتحال اس وقت سامنے آئی جب اختتامی تقریب میں مقامی کالج کی طالبات نے جنہوں نے پیدل کے مقابلے میں شوز پہن کر ریس میں حصہ لیا تھا اور ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی اور ان مقابلوں کے پوزیشن ہولڈر بچوں میں دس ہزار ، آٹھ ہزار اور پانچ ہزار روپے کے کیش انعامات سمیت ٹرافیاں بھی دی گئی ایسے میں ان افغان طالبات کی حالت دیدنی تھی اداسی ان طالبات کے چہروں سے جھلک رہی تھی ساتھ میں وہ بڑے عجیب نظروں سے پاکستانی طالبات کو دیکھ رہی تھی . اور یوں یہ تقریب اختتام پذیر ہوگئی. کہنے کو یہ مقابلے افغان طالبات اور میزبان کمیونٹی کو ایک ساتھ لانے کیلئے کرائے گئے ، سرکار کی بڑی بڑی گاڑیو ں میں بڑے بڑے افسران پہنچے ساتھ میں بین الاقوامی امدادی اداروں کے اہلکار بھی ، لیکن کیا افغان کمشنریٹ کے متعلقہ اہلکاروں نے اپنا رزق حلال کیا ، ان لوگوں کو تنخواہیں اور یہ بڑی گاڑیاں اسی مد میں ملتی ہیں کہ افغان خاندان جو پاکستان میں مقیم ہیں کی حالت کو معمول پر لایاجائے اور خصوصا طالبات کیلئے کیا جانیوالے اتھلیٹکس کے یہ مقابلے کیا ظلم نہیں. یہ وہ سوال ہیں جو افغان کمشنریٹ سمیت بین الاقوامی امدادی ادارے کی انتظامیہ کو خود سوچنے کی ضرورت ہے.
|