فیڈریشن ' آڈٹ ' پی ایس بی اور کموڈ چور سائنسدان
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
بین الصوبائی وزارت نے پی ایس بی کی ری ہیبلٹیشن کے نام پر کتنے ارب روپے ملک کے مختلف سنٹرز میں لگانے شروع کئے ہیں حالانکہ وہا ں پر ہونیوالی والی مینٹیننس اور ری ہیبلٹیشن کم مالیت کی ہیں مگر صرف پشاور سنٹر میں آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے ری ہیبلٹیشن کا کام جاری ہے جہاں سے نکلنے والی بہت ساری چیزیں پشاور کے جمنازیم ہال کے ساتھ بننے والے نئے دروازے کے ذریعے کباڑ میں نکل گئی ' اور کباڑیوں کو فروخت ہوئی ' حیرت ' افسوس اور شرم کی بات تو ہے کہ زیر استعمال کموڈ بھی ری ہیبلٹیشن کے نام پر نکال لئے گئے .اسے چوری ' بے غیرتی ' بے ایمانی اور حرام خور ی سمیت کیا نام دیا جائے کہ اس پر آواز اٹھانے والوں کو خاموش کرنے کیلئے تبادلوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری ہے. |
|
پاکستان سپورٹس بورڈ نے کھیلوں کے مختلف فیڈریشنز کی آڈٹ کا عمل شروع کردیا ہے اور یہ آڈٹ بھی بین الصوبائی رابطے کی وزارت کی نگران وزیر کے کہنے پر کیا جارہا ہے کھیلوں کی کئی فیڈریشنز جنہیں فنڈز جاری کیا گیا تھا کی آڈٹ رپورٹ مکمل ہو چکی ہیں جبکہ بعض ایسے فیڈریشن جن کی رسائی اوپر تک ہیں اس عمل سے ابھی تک کوسوں دور ہیں پی ایس بی کی جانب سے کئے جانیوالا یہ آڈٹ گذشتہ پندرہ سالوں کا کیا جارہا ہے جس میں آڈیٹر اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ فنڈز کیسے استعمال کئے گئے ہیں اور کیا یہ قانون کے مطابق بھی ہوئے ہیں یا نہیں. قبل ازیں مختلف فیڈریشن اپنی آڈٹ بنا کر پاکستان سپورٹس بورڈ کو جمع کرواتے تھے کیونکہ وہ انہیں فنڈز فراہم کرتے تھے. گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک بیان میں بتایا کہ اٹھارھوں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں اور وفاق میں تقسیم ہوگئے ہیں حالانکہ وزارتیں تقسیم ہوگئی ہیں لیکن وفاق اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی فنڈز کی خاطر صوبوں کو اختیارات دینے کے حق میں نہیں جس کی بڑی مثال پاکستان سپورٹس بورڈ کا ناکارہ او سفید ہاتھی ہے اور جس کی سربراہ بھی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ہے. جنہوں نے ایک دور میں یہ کریڈٹ بھی لیا تھا کہ ان کی حکومت نے اٹھارھویں ترمیم کرکے بڑا کارنامہ انجام دیا . وہ حکومت چلی گئی ماشاء اللہ اب وہی سپیکر وفاقی وزیر بن کر اٹھارھویں ترمیم کے بعد بھی وفاق میں صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں. وجوہات بہت ساری ہے لیکن بین الصوبائی رابطے کی وزارت کو ملنے والے فنڈز اور اختیارات ہیں جس کی وجہ سے وفاق اب صوبوں کو اختیار دینے کے حق میں نہیں.
ان دونوں پیراگراف میں بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن اگر فیڈریشن غیر سرکاری ادارے ہیں تو کس قانون کے تحت سرکار کے آڈیٹر ان کی آڈٹ کررہے ہیں اگر سرکار آڈٹ کرنا بھی چاہے تو اس کیلئے مخصوص ادارے ہیں علیحدہ سے آڈیٹر کی خدما ت حاصل کرکے کیا یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں کہ تبدیلی والی سرکار بڑی تبدیلی لیکر آئی ہے اور سب لوگوں کا آڈٹ کردیا گیا ہے. جسے تبدیلی والی سرکار بھی اپنی حکومتی کارکرکردگی میں شامل کریگی . حکومتی کارکردگی اچھی ہے اس کا اندازہ گذشتہ دنوں جاری ہونیوالی ٹاپ کی وزیروں کو دئیے جانیوالے اعزازات ہے اتنی اچھی حکومت کی کارکردگی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کیلئے وزیراعظم کے مشیر بھی وزراء کی وزارتوں کے بہترین کارکردگی پر صحافی کو مطمئن نہ کرسکے.اب پی ایس بی آڈٹ کے حالیہ سلسلے کو بھی اپنے بہترین کارکردگی میں شامل کرنے کیلئے دعوے کریگی اور کہا جائیگا کہ آڈٹ انہوں نے کرلیا ہے لیکن کیا پاکستان سپورٹس بورڈ ااور وزارت بین الصوبائی رابطہ بھی اپنا آڈٹ اسی طرح کروائے گی جس طرح انہو ں شروع کیا ہے گذشتہ سال واپس کئے جانیوالے فنڈز کی وجوہات کیا تھی جو پی ایس بی نے واپس کی تھی .اور پی ایس بی کی کارکردگی کیا ہے ' یہ وہ سوال ہیں جو فیڈریشنز سے وابستہ افراد سمیت عام افراد بھی جاننا چاہتی ہیں اور جاننے کا حق بھی رکھتی ہیں.
پاکستان سپورٹس بورڈ کے زیر انتظام ملک کے بڑے شہروں میں واقع کوچنگ سنٹرز میں کتنے اہلکار ہیں ' کب سے ڈیوٹی پر کام کررہے ہیں ' ان میں رشتہ دار کتنے ہیں او ر کب سے قائم مقام عہدوں پر لوگ بیٹھ کر سرکارسے مفت کی تنخواہی لے رہے ہیں حالانکہ کاغذات میں ویٹر اور باورچی اپنی چنگ چی چلا رہے ہیں لیکن ٹھیکوں کے ملتے ہی وہ باورچی بن چکے ہیںکتنے سال سے مینٹیننس کے نام پر انہیں فنڈز جاری کیا جارہا ہے اور اب تک ان سنٹرز سے کتنے کھلاڑی کس کس کھیل میں نکلے ہیں ان سمیت کئی ایسے سوالات ہیں جس کی ذمہ دار براہ راست پاکستان سپورٹس بورڈ اور وزارت بین الصوبائی وزارت ہیںلیکن وہاں پر خاموشی ہیں اور وفاق سے پوچھنا بڑے دل گردے کی بات ہے.سابقہ حکمران چور تھے اور انہوں نے بڑا مال پیدا کیا لیکن موجودہ تو چور نہیں یہ چوروں والے کام کیوں کررہی ہیں یہ وہ سوال ہیں جو موجودہ مدینہ والی ریاست کے نام پر دکانداری چمکا کر اپنی دکانداری کرنے والے حکمرانوں کو خود سے کرنے کی ضرورت ہے .
بین الصوبائی وزارت نے پی ایس بی کی ری ہیبلٹیشن کے نام پر کتنے ارب روپے ملک کے مختلف سنٹرز میں لگانے شروع کئے ہیں حالانکہ وہا ں پر ہونیوالی والی مینٹیننس اور ری ہیبلٹیشن کم مالیت کی ہیں مگر صرف پشاور سنٹر میں آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے ری ہیبلٹیشن کا کام جاری ہے جہاں سے نکلنے والی بہت ساری چیزیں پشاور کے جمنازیم ہال کے ساتھ بننے والے نئے دروازے کے ذریعے کباڑ میں نکل گئی ' اور کباڑیوں کو فروخت ہوئی ' حیرت ' افسوس اور شرم کی بات تو ہے کہ زیر استعمال کموڈ بھی ری ہیبلٹیشن کے نام پر نکال لئے گئے .اسے چوری ' بے غیرتی ' بے ایمانی اور حرام خور ی سمیت کیا نام دیا جائے کہ اس پر آواز اٹھانے والوں کو خاموش کرنے کیلئے تبادلوں کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری ہے. یہ صرف پشاور کی بات ہے جہا ں پر ایک سابق ملازم سے بات ہوئی تو بڑے ہی افسردہ دل سے بات کرنے والے صاحب کا کہنا تھا کہ " اب تو نیچے سے لیکر اوپر تک سب ہی چور ہیں" . اس ادارے کے اسلام آباد میں تعینات ایک بڑے صاحب کی بیٹی کی شادی ہے اب وہ اپنی بیٹی کی شادی کا خرچہ بھی اسی طرح نکالنا چاہتے ہیں. پی ایس بی کے دیگر شہروں میں واقع سنٹرز میں کیا ہورہاہے اس کا اندازہ وہ پشاور بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹرکی کارکردگی سے ہی کرسکتے ہیں.ویسے سوال یہاں یہ بھی ہے کہ وزارت بین الصوبائی رابطہ اپنے وزارت سمیت سنٹرز کا اسی طرح بھی آڈٹ کروائیگی کہ نہیں.
وزارت کے واقفان حال کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی بین الصوبائی وزارت کے کہنے پر پی ایس بی انتظامیہ نے پشاور کے طرز پر اپنی سنٹرز میں کھیلوں کی سروس پرائیویٹ اداروں کو دینے پر غور شروع کیا ہے اور سوئمنگ پول سمیت جمنازیم اور دیگر سہولیات بھی پرائیویٹ اداروں کو دی جائینگی .تاکہ اخراجات پورے ہوسکیں . سہولیات پرائیویٹ اداروں کو دینے کے بجائے ان تمام افراد کو جو سرکاری مہینے میں لاکھوں روپے تنخواہیں ' مراعات لیتے ہیں مگر عوام کو کچھ نہیں دے رہے انہیں فارغ کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ انہیں اول تو کچھ آتا نہیں اور اگر کچھ آتا بھی ہے تو " پکوڑے ' سموسوں کی ڈیمانڈ کے علاوہ سرکاری مال کو غائب کرنے والی سائنس انہیں آتی ہے
|