قُرآنی حرُوف کی صُورت و صَوت کیا ہے !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشُورٰی ، اٰیت 30 تا 43 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وما
اصابکم من
مصیبة فبما کسبت
ایدیکم ویعفوا عن کثیر 30
وماانتم بمعجزین فی الارض ومالکم
من دون اللہ من ولی ولا نصیر 31 ومن اٰیٰته
الجوار فی البحر کالاعلام 32 ان یشا یسکن الریح
فیظللن رواکد علٰی ظھرهٖ ان فی ذٰلک لاٰیٰت لکل صبار شکور
33 او یوبقھن بما کسبوا ویعفوا عن کثیر 34 ویعلم الذین یجادلون
فی اٰیٰتنا مالھم من محیص 35 فما اوتیتم من شئی فمتاع الحیٰوة الدنیا وما
عند اللہ خیر وابقٰی للذین اٰمنوا وعلٰی ربھم یتوکلون 36 والذین یجتنبون کبٰٓرالاثم
والفواحش واذا غضبوا ھم یغفرون 37 والذین استجابوا لرب ھم واقاموا الصلٰوة وامرھم
شورٰی بینھم ومما رزقنٰھم ینفقون 38 والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون 39 وجزاء سیئة
سیئة مثلھا فمن عفا واصلح فاجرهٗ علی اللہ ان اللہ لایحب الظٰلمین 40 ولمن انتصر بعدظلمهٖ فاو
لٰئک ما علیھم من سبیل 41 انما السبیل علی الذین یظلمون الناس ویبغون فی الارض بغیر الحق اولٰئک
لھم عذاب الیم 41 ولمن صبر وغفر ان ذٰلک لمن عزم الامور 43
مُشکلاتِ جہان سے تُمہاری جان پر جو مُشکل آتی ہے وہ تُمہاری اپنی ہی قُوتِ جان کے کسی مَنفی عمل کا ایک مَنفی رَدِ عمل ہوتی ہے حالانکہ تُمہارے بہت سے مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج سے اللہ تُم کو بچا بھی لیتا ہے لیکن تُم اپنے اِن اعمال سے اللہ کے نظامِ عمل کو معطل نہیں کر سکتے اور نہ ہی تُم اللہ کے سوا جہان میں اپنا کوئی حامی و مددگار تلاش کر سکتے ہو ، اللہ کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی پہاڑوں کی طرح اُٹھتی ہوئی موجوں کے درمیان تُمہارے تیرتے ہوۓ وہ جہاز بھی ہیں کہ اگر اللہ تُم کو تُمہاری کسی سرکشی کی سزا دینے کے لیۓ تُمہارے اُس سفر کے دوران ہی سمندری ہوا کو روک دے یا تُمہارے اُن جہازوں کے چند مسافروں کو اُس سمندر میں ڈبودے تو تُمہارے وہ جہاز اُسی سمندر میں کھڑے کے کھڑے رہ جائیں اور تُمہارے وہ ہم سفر بھی اُسی سمندر کی کسی مخلوق کی خوراک بن جائیں تو پھر تُم جان لو گے کہ جو لوگ اللہ کے سَر کش ہوتے ہیں وہ اللہ کے سامنے کتنے بے بس ہوتے ہیں لیکن اللہ کی اِن نشانیوں سے تو اللہ کے وہی صابر و شاکر بندے مُستفید ہوتے ہیں جو دُنیا میں اللہ کے دیۓ ہوۓ اِس بے بضاعت سے سامانِ زیست کے بجاۓ اُس خاص سامانِ زیست کی اُمید رکھتے ہیں جو خاص سامانِ زیست اِس دُنیا کے بعد ملنے والی زندگی میں اللہ اپنے اُن خاص بندوں کو د ے گا جو اللہ کی اِس کتابِ ہدایت پر ایمان و یقین رکھتے ہیں اور جو اپنے اِس ایمان و یقین کے باعث اُن تمام بڑی گم راہیوں سے بچتے ہیں جن گم راہیوں سے بچانے کے لیۓ اللہ نے یہ کتاب نازل کی ہے اور اللہ کے وہ خاص بندے زمین پر رہ کر جو خاص کام کرتے ہیں وہ کام اللہ کے اَحکام کو ماننا اور اُن اَحکام کو اپنے جسم و جان پر نافذ کرنا ہے اور اُن کے اُس کام و اَحکام کا پہلا مرحلہ قُرآن کی اُس لفظی تعلیم کا مرحلہ ہے جس لفظی تعلیم کی تفہیم کے لیۓ وہ ایک دُوسرے کے ساتھ وہ لفظی مُشاورت کرتے ہیں جس لفظی مُشاورت کے ذریعے وہ ایک دُوسرے سے قُرآن سیکھتے ہیں اور ایک دُوسرے کو قُرآن سکھاتے ہیں ، اُن بَھلے لوگوں پر جب کوئی زور زبردستی کرتا ہے تو وہ اُس زور زبردستی کے جواب میں اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی کے مَنفی عمل کا رَدِ عمل بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا اُس کا وہ مَنفی عمل ہوتا ہے لیکن معاف کردینا اُن کے نزدیک ایک اعلٰی تر عمل ہوتا ہے اِس لیۓ کہ اللہ ظالم کے ظلم کو پسند نہیں کرتا مگر ظلم کا بدلہ قابلِ ملامت عمل نہیں ہوتا بلکہ قابل ملامت عمل ظالم کا وہ ظلم ہوتا ہے جس کو وہ ظالم شروع کرکے اللہ کی سزا کا مُستحق ہوتا ہے تاہم جس انسان کے پاس ظلم کا بدلہ لینے کا حق ہوتا ہے اور وہ اپنے اُس حق کے باوجُود بھی در گزر سے کام لیتا ہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نزدیک ایک قابلِ تحسین و ستائش عمل ہوتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا آغاز { حٰمٓ عسق } کے جن 5 حروفِ مقطعات سے کیا گیا ہے اُن 5 حروف مقطعات کی پہلی دو حرفی اٰیت { حٰمٓ } اور دُوسری سہ حرفی اٰیت { عسق } کے بعد اِس سُورت کی اٰیت 3 میں اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام سے یہ خطاب فرمایا ہے کہ علمی مقصد کے اعتبار سے تو ہم نے آپ پر اپنی وہی وحی نازل کی ہے جو وحی ہم اپنے پہلے نبیوں پر پہلے سے نازل کرتے چلے آۓ ہیں لیکن اِس علمی مقصد کی اِس عملی صورت کو اِس سُورت کی اٰیت 7 میں اِس طرح واضح کیا گیا ہے کہ جو علمی کلام ہم نے آپ پر نازل کیا ہے وہ عملی اعتبار سے پڑھا جانے والا وہ کلام ہے جو عربوں میں رائجِ وقت عربی زبان سے ایک مُختلف عربی کلام ہے کیونکہ آپ پر نازل کیا گیا یہ کلام ایک کلام بالاعراب ہے جو آپ پر اِس غرض سے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ اِس کلام بالاعراب کے ذریعے مرکزِ جہان مکہ اور اِس مرکزِ جہان کے اطرافِ جہان کے تمام لوگوں کو اِس کلام بالاعراب کی سماعت و تلاوت اور کتابت کی تعلیم دیں تاکہ وہ قُرآنِ کریم کو قُرآنِ کریم کی اِس اعراب بالحروف والی عربی کے حروف و الفاظ کو اُن کے درست لفظ و تلفظ اور اُن کی بامعنی حرکات و سکنات کے ساتھ اِس کے پڑھنے کے بعد اِس کے درست تلفظ کے ساتھ اِس کے سُننے سُنانے اور درست الفاظ کے ساتھ اِس کے لکھنے اور لکھانے کے قابل ہو سکیں ، اُن پہلی اٰیات کی اُس تفصیل کے بعد اَب اِس سُورت کی اٰیت 38 میں اُن حروفِ مقطعات کو اہلِ ایمان کے اُمورِ مُشاوت میں شامل کر کے یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰٰی نے اپنے اِس عالَمِ خلق میں اپنی موجُود ہونے اور موجُود رہنے والی جن نشانیوں کا ذکر کیا ہے اُن نشانیوں سے اللہ تعالٰی کے وہی خاص بندے فیض یاب ہوتے ہیں جن کا مقصدِ حیات اللہ کے اَحکام کو ماننا اور اُن اَحکام کو اپنے جسم و جان پر نافذ کرنا ہے ، جو اہلِ ایمان اِس وقت یہ علمی کام کر رہے ہیں یا آئندہ کسی وقت یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے اُس کام کا پہلا تعلیمی مرحلہ قُرآن کی اُس لفظی تعلیم کا وہ مرحلہ ہے جس مرحلے میں وہ اِس لفظی تعلیم کی ذہنی تفہیم کے لیۓ ایک دُوسرے کے ساتھ علمی مُشاورت کرتے ہیں اور اُس علمی مُشاورت کے ذریعے ایک دُوسرے سے قُرآنِ کریم سیکھتے ہیں اور ایک دُوسرے کو قُرآنِ کریم سکھاتے ہیں ، اِس سُورت کے آغاز میں ہم یہ اَمر بھی واضح کر چکے ہیں کہ قُرآنِ کریم کے جن 82 مقامات پر حرفِ مُفرد { امر } اور جن 13 مقامات پر حروفِ جمع { امور } کے عنوان سے اللہ تعالٰی کے جو اَحکام وارد ہوۓ ہیں اُن اَحکام میں سُورَہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 159 جو پہلا اور آخری مقام ہے جہاں پر اُمورِ جہاں بانی چلانے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول علیہ السلام کو اپنے اصحاب و احباب کے ساتھ مُشاورت کا وہ حُکم دیا ہے وہی حُکم اُمورِ جہاں بانی تب سے لے کر اَب تک اور اَب سے لے کر قیامت تک ایک دائمی حُکم ہے جو ایک بار ہی نازل کر دیا گیا ہے اور ہمیشہ کے لیۓ جاری کردیا گیا ہے ، اُس قانونی حُکم کے بعد اِس سُورت کی اِس اٰیت میں مُشاورت کا جو حُکم نازل ہوا ہے وہ مُشاورت بالاَحکام کا حُکم نہیں ہے بلکہ مُشاورت بالکلام کا وہ حُکم ہے جو قُرآن کے الفاظ کو اُس کے حروف سے بننے والی اُن اَصوات کے لیۓ ہے جن اَصوات کو درست لفظ و تلفظ کے ساتھ ادا کرنے سے قُرآن کے وہ اعراب بالحروف پڑھے جاتے ہیں جن اعراب بالحروف کا قُرآنِ کریم نے اپنے حروفِ مقطعات کو مرکزِ معیار بنایا ہے ، مثال کے طور { ا ، ل ، م ، ج ، د ، ذ } وغیرہ عام حالات میں محض ایک صورت ہوتے ہیں لیکن جب اِن کی اِس صورت کو حروفِ مقطعات کے مطابق { الف ، لام ، میم ، جیم ، دال ، ذال } کی صوت کے ساتھ پڑھا یا لکھا جاتا ہے تو اِن میں سے ہر ایک حرف صورت سے بڑھ کر ایک بامعنی صوت بن جاتا ہے ، اِس کی پہلی علمی دلیل یہ ہے کہ حروفِ مقطعات کی حامل تمام سُورتوں کے جُملہ مقامات پر براہِ راست ، تنزیل اور کتابِ تنزیل کا ذکر آیا ہے اور جن مقامات پر بلا واسطہ کتابِ تنزیل کا ذکر نہیں آیا ہے تو اُن مقامات پر بالواسطہ اِس کتاب کا ذکر آیا ہے جس سے ہمیں یقین کے ساتھ یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ حروفِ مقطعات کی اصل علم الکتاب اور اُس کی سماعت و تلاوت اور کتابت کی تعلیم ہے اور اِس علمی دلیل کے بعد اِس کی عملی دلیل و تمثیل اِس سُورت کی اٰیت 52 میں آرہی ہے ، اِن اٰیات میں آنے والے اِن ہی اُمور سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس حد تک حروفِ مقطعات کی دُوسری انسانی توضیحات قابلِ ذکر ہیں اسی حد تک حروفِ مقطعات کی یہ توضیح بھی قابلِ توجہ ہے جو حروفِ مقطعات کا ایک نیا قُرآنی اُفق ہے ، تحریر کیۓ گۓ اِس کلام کا نتیجہِ کلام یہ ہے کہ جس طرح اہلِ روایت کی یہ روایت باطل ہے کہ عہدِ نبوی میں قُرآن کتابی صورت میں موجُود نہیں تھا بلکہ درختوں کے پتوں ، پتھر کی سلوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا ہوا مٹی کے مٹکوں میں کہیں پڑا ہوا تھا اسی طرح اہلِ روایت کی یہ روایت بھی باطل ہے کہ قُرآن کو پہلی بار خلیفہ ابو بکر صدیق نے عمر بن خطاب کے مشورے پر جمع کیا تھا اور دُوسری بار عثمان بن عفان نے جمع کیا تھا اور جس طرح یہ دونوں باتیں غلط ہیں اسی طرح یہ تیسری بات بھی غلط ہے کہ قُرآنِ کریم کی اٰیات اور اِس کے حروف و الفاظ پر حرکات و سکنات لگانے کا کام حجاج ابن یوسف نے کیا تھا ، سچ یہ ہے قُرآنِ کریم عہدِ نبوت میں بھی اسی طرح اسی کتابی صورت میں موجُود تھا جس طرح اِس وقت موجُود ہے اور انہی حرکات و سکانات کے ساتھ موجُود تھا جن حرکات و سکانات کے ساتھ آج موجُود ہے کیونکہ اِس کی اٰیات کی جمع و تدوین ، اِس کی اٰیات کی کتابت اور اِس کی اٰیات کی حرکات و سکنات کا سارا کام سیدنا محمد علیہ السلام نے اپنی حیاتِ طیبہ میں بذاتِ خود کیا تھا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559245 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More