کرکٹ‘ پشاور نسوار اور ابے کی پھرتیاں و کاروبار
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
یہ مملکت اسلامیہ جم ہوریہ پاکستان ہے.یہاں پر مملکت ایک لڑکی کا نام ہے‘ اسلام صرف نام کی حد تک ہے اور جم ہورہے لیکن اس جمہور کو ریوڑ کی طرح باندھ کر کبھی ایک طرف بھگایا جاتا ہے اور کبھی دوسری طرف یہاں پر جم ہوریت اتنی ہے کہ غریب کیلئے الگ قانون ہے اور امیر کیلئے الگ قانون اور رہا پاکستان تو یہ پاکستان ہے. یہاں پر ہر چیز الٹی چل رہی ہیں.اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں. اگر ہمارے معاشرے میں اسلام اور قانون کے مطابق کچھ ہو تو پھر ٹھیک ہے لیکن یہاں پر اسلام اور قانون صرف نماز روزے اور حج تک ہے باقی خیر خیریت ہے بہنوں کا حق ہم لوگ کھاتے ہیں‘ سود پر ہمارا کاروبار چلتا ہے‘ کم عمر بچیوں کیساتھ ریپ اور انہیں قتل کرنا ہمارے معاشرے کا روزمرہ کا معمول ہے اور ہم ڈکار لیکر بڑے فخر سے بولتے ہیں کہ ہم جنت کے ٹھیکیدار مسلمان ہیں. یہ الگ بات کہ مسلمانوں والا کوئی کام ہم میں نہیں.خیر چھوڑیں دل کی پھپھولے ہم کہاں لیکر آگئے.
ہمار شعبہ کھیلوں کا ہے اس لئے کھیلوں کی میدان تک آتے ہیں‘چونکہ سپورٹس میں کرکٹ کو وہ مقام حاصل ہے جو پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمان کو‘ اس لئے ہر ایک کی نظریں کرکٹ کے شعبے پر زیادہ ہیں. انڈر 12سے لیکر انڈر 19 تک کھیلنے کیلئے اگر کوئی گھر سے نکلتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ میں نے کرکٹ کھیلنا ہے اور تو اور دو ہفتے قبل ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ انکی عمر پچیس سال ہے او وہ کرکٹ کھیلنے کیلئے آنا چاہتے ہیں. ہم نے سوال کیا کہ بیٹا اس عمر میں لوگ نوکری کیلئے نکلتے ہیں اور آپ کرکٹ کھیلنے کیلئے آئے ہو‘ تو اس کے پاس جواب تو کوئی نہیں تھا لیکن اسے کرکٹ کا کریز تھا. یہ کریز بھی میڈیا کا پیدا کردہ ہے ورنہ کھیل تو ہاکی بھی ہے‘ فٹ بال بھی ہے‘ بیڈمنٹن بھی ہے‘ ٹیبل ٹینس بھی ہے‘ اتھلیٹکس بھی ہے کم و بیش پینتیس کھیلوں کے فیڈریشن ہیں اتنے ہی کھیل ہیں لیکن ہمارافوکس صرف کرکٹ پر ہی کیوں ہے.
گذشتہ روز خیبر پختونخواہ پولیس نے اپنا برانڈ ایمبیسڈر ایک کرکٹر کو متعین کردیا اور اسے پولیس کی وردی پہنا دی پتہ نہیں اس کا پتہ پولیس کو کیا ہوگا یہ تو سمجھ میں نہیں آرہا لیکن میڈیا کو تصاویر اور خبریں مل گئی. ہم سمجھ رہے ہیں کہ پولیس ہر شعبہ زندگی میں کھیلتی ہیں اس لئے شائد کرکٹر کے برانڈ ایمبیسڈر بننے سے پولیس کاقبلہ کچھ بہتر ہو یہ اللہ ہی جانے‘ لیکن اس ایمبیسڈر سے عوام کو کیا فائدہ‘کوئی اس بارے میں بتانے کی زحمت بھی نہیں کرتا کہ اس سے پولیس کو کتنا فائدہ ہوگا اور اس سے کرکٹر کو کیا فائدہ ہوگا. فائدے میں تو کرکٹر ہی رہا لوگ امتحانات دیکر وردی پہنتے ہیں جبکہ یہاں مفت میں پہنائی جاتی ہیں - پی ایس ایل میں کچھ عرصہ قبل ایک بڑے سرمایہ کار نے پشاور نسوار کے نام سے ایک ٹیم بنائی اور پھر ایک گلوکارہ اور اداکارہ کو برانڈ ایمبیسڈر بنایا‘ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس میں پشاور سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ہوتے لیکن چونکہ سرمایہ کار نے اپنا پیسہ بچانا تھا اورنکالنا بھی تھا اس لئے دنیا بھر سے کرکٹر خرید لئے اب وہ پشاور نسوار بیرون ملک ٹیلنٹ ہنٹ کے نام پر اپنی دکانداری چمکا رہی ہیں کرکٹ کے فروغ کے دعویداروں کا کیا ہوگا لیکن ایک بات کنفرم ہوگئی کہ سرمایہ کار صرف اپنے سرمائے میں اضافے پر نظر رکھتے ہیں
اضافہ تو پشاور سپورٹس کمپلیکس میں واقع خیبر پختونخواہ کی پہلی کرکٹ اکیڈمی معاذ اللہ کرکٹ اکیڈمی کے میں کرکٹ سیکھنے والے کھلاڑیوں کی تعداد میں بھی ہورہا ہے‘ کم و بیش دو سو کے قریب کھلاڑی پریکٹس کیلئے آرہے ہیں اور یہ سب کچھ پشاور صدر میں ہی ہورہا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کوالیفائیڈ کوچز نہیں‘ بچے کرکٹ کے فیم کی وجہ سے اکیڈمی میں داخلہ تو لیتے ہیں مگر انہیں تربیت کون دے رہا ہے یہ سوال پشاور سپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ اور ڈائریکٹر جنرل سمیت نئے وزیر کھیل سے بھی ہے. کم و بیش دو سو کے قریب ان کھلاڑیوں سے میچز کے نام پر کون پیسے لے رہاہے کہ فلاں جگہ پر میچ ہے چار سو اور پانچ سو روپے جمع کروائیں اور پھر بیس بندوں سے پانچ سو روپے سے لیکر ایک ہزار روپے اور ساتھ میں کھانے پینے کی اشیاء کی ڈیمانڈ بھی کی جاتی ہیں کہ میچ کے دوران اخراجات بھی ہوتے ہیں اور معصوم بچے اخراجات کے نام پر گھروں سے خرچہ لیتے ہیں ٹھیک ہے کہ اخراجات بھی ہوتے ہیں لیکن پانچ ہزار روپے اخراجات کی مد میں چلے جائیں تو بقایا دس سے پندرہ ہزار روپے کہاں جاتے ہیں. یہ بڑا سوالیہ نشان ہے.اور ہاں کیا ایک ہفتہ کرکٹ اکیڈمی آنے والے کم عمر بچوں کے میچز کروائے جاسکتے ہیں یا نہیں. یہ سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے.کیا کوچز کی ذمہ داری نہیں کہ دیکھ لیں کہ چھ ماہ تک تربیت حاصل کرنے والے کھلاڑیوں ں کی تربیت مکمل ہو اور پھر ان کے مقابلے کروائے جائیں شائد سپورٹس کمپلیکس پشاور کی انتظامیہ کو " نوٹ" زیادہ اچھے لگتے ہیں اور وہ فیس کی شکل میں اس لئے انہوں نے بھی اس معاملے میں آنکھیں بند کرلی ہیں. لیکن انہیں اس معاملے میں آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے.
آنکھیں کھولنے کی ضرورت صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کونہیں بلکہ ایسے تمام اداروں سے وابستہ افراد کی کھولنے کی ضرورت ہے جن کے ذمے ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر کی جانیوالی کسی بھی سرگرمی کا پتہ لگائیں.مگر یہاں پر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘ جو کبھی کرکٹ کاکوچ بھی نہیں نہ پاکستان سطح کے کسی مقابلے میں حصہ لیا وہ بھی کوچ بننے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ اتنا مہربان ہے کہ " ابا جی " نے کوچز کے کھاتے میں ترکی اور دبئی کا چکر بھی لگوا دیا. کوئی تو یہ سوال کرے کہ کرکٹ کا کوچ کس لیول کا ہے اور اس کی کوالیفیکیشن کس طرح کی ہے‘ اور تو اور اس معاملے میں " اباجی" کا اتنا زور ہے کہ معذوروں کے کھاتے میں بچے بھرتی کرالئے. حالانکہ ا ن سے زیادہ معذور سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پھر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی " ابا " سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں اہم پوسٹ پر نہیں اسلئے پورا معذور کسی کو نظر نہیں آرہا لیکن صرف ایک انگلی سے محروم کو معذوروں کے کوٹے میں مستقل تعینات کروا دیااور اگر اس معاملے میں کوئی بات کرے تو بڑے دھڑلے سے جواب دیا جاتا ہے کہ " تبدیلی آئی ہے". سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں تعینات بیشتر افراد کی یہی سوچ ہے کہ ہم نے اس ڈائریکٹریٹ میں زندگیاں گزار دی ہیں اس لئے اب آنیوالے دور میں ہمارے بچوں کا حق ہے کہ وہ بھی پورے صوبے کے عوام پر مسلط ہوں.لوگ سیاستدانوں کو روتے ہیں ہمارے ہاں تو اب "ابے"بھی بچوں کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں مسلط کررہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں.
ویسے یہ بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کاایک چلتا پھرتا کاروبار ہے کہ ایک طرف تنخواہیں لگی ہوئی ہیں‘ دوسری طرف کرکٹ میچز کے نام پر کم عمر کھلاڑیوں سے رقمیں وصول کی جائیں اور اور ہر ماہ چار میچز کے نام پر الگ دکانداری ہوں اور تیسرا ہم شعبہ کرکٹر کو سامان دینے کے نام پر الگ دکانداری مچی ہوئی ہے‘ یعنی اگر کوئی بچہ کرکٹ کھیلنے کیلئے آتا ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ اتنی رقم لیکر آئیں اور مخصوص دکان سے آپ کو سامان ملے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ کو اکیڈمی میں آنے کی ضرورت نہیں اور مجبور بچے جو اپنے آپ کو کرکٹر بننا چاہتے ہیں ہزاروں کی رقم مخصوص لوگوں کو جمع کرواکرکے چند ہزار کا سامان لے آتے ہیں کیا یہ کاروبار کسی کے علم میں ہے یا نہیں..ویسے کم از کم تنخواہ‘ میچز اور سامان کی خریداری مخصوص لوگوں سے ایک ایسا منافع بخش کاروبار ہے کہ اس میں آرام سے ایک لاکھ روپے تک رقم نکل آتی ہے.اس لئے تو بہت سارے"ان کوالیفائیڈ" بھی کوچز بن گئے ہیں. شائد اس کاروبار میں بہت ساروں کا حصہ ہو یا پھر برابری کی بنیاد پر کاروبار ہو...
|