نکولس پورن نے اس سے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ میں محض تین گیندیں پھینک رکھی
تھیں۔ یہ تین گیندیں یقیناً اس کوٹے میں سے ہوں گی جو عموماً کسی ریگولر
بولر کے بیچ اوور، ان فٹ ہو جانے پر پورن جیسے کسی ’بولر‘ کو پھینکنے کو
کہی جاتی ہیں۔
یا پھر یہ اس کوٹے میں سے ہوں گی کہ جب میچ مقررہ وقت سے کہیں پہلے اپنے
منطقی انجام کو پہنچ چکا ہوتا ہے اور کپتان اپنے تھکے ہارے ریگولر اٹیک کو
دن بھر کی ہزیمت کے بعد کم از کم الوداعی شاٹ کی خفت سے بچانا چاہتا ہے۔
مگر جب پورن نے یہاں خود کو اٹیک میں لانے کا فیصلہ کیا تو یہ تو شاید ان
کے اپنے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اپنا سپیل بھی پورا کریں گے، کجا یہ کہ
ڈیبیو وکٹ کے ساتھ ہی تین مزید وکٹیں بھی لے اڑیں۔
ون ڈے کرکٹ میں ایسے تجربے صرف پارٹنرشپ توڑنے کی کاوش تک ہی محدود رہتے
ہیں۔ فخر زمان کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی تھے جبھی انھوں نے زیادہ سوچنے کی
بجائے پورن کو بطور ’ڈنگ ٹپاؤ‘ بولر ہی کھیلنے کی کوشش کی اور یہی ان کی
غلطی ثابت ہوئی۔ کیونکہ پورن جس لائن پر دھیان مرتکز کیے ہوئے تھے، وہ فخر
کے لیے حیرت کا سامان بن گئی۔
اگرچہ حالیہ ملتان کے میچز میں ہمیں یہ دیکھنے کو ملا کہ شائقین کی اکثریت
شام کے بعد سٹیڈیم پہنچنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ دن کی حدت سے احتراز برتا
جا سکے مگر پاکستان کی بیٹنگ کا فیصلہ ہوتے ہی سٹیڈیم کے باہر قطاریں بندھ
گئیں اور پاکستانی شائقین بھاگم بھاگ اپنے کپتان بابر اعظم کی بیٹنگ دیکھنے
پہنچے۔
مگر ان کی اس تمام تر جہد کا اینٹی کلائمیکس یہ ہوا کہ بابر اچانک ہی والش
جونئر کے سامنے گڑبڑا گئے اور شائقین کے سب ارمان دل میں ہی رہ گئے اور جب
یکسر غیر متوقع طور پر نکولس پورن ہی پاکستانی مڈل آرڈر کا صفایا کر گئے تو
سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ پیچھے پڑے اتنے ڈھیر سارے اوورز کون کھیلے گا اور
کیونکر کھیلے گا کہ پاکستان کسی ڈرامائی شکست کے دائرۂ امکان بھی سے باہر
چلا جائے۔
کیونکہ اگر مطلوبہ ہدف ڈھائی سو سے کم رہتا تو یہ ویسٹ انڈین بیٹنگ لائن
یقیناً اس تک رسائی کی جسارت کر سکتی تھی اور تہی دامن لوٹنے کی بجائے جاتے
جاتے ایک جیت کی تلافی اپنے ساتھ لے جاتی۔
مگر شاداب خان بیچ میں حائل ہو گئے۔
شاداب کے پاس کھیلنے کو آخری دو تین اوورز نہیں بلکہ آدھی اننگز پڑی تھی
اور یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ آتے اور چار پانچ بڑے شاٹس کی مار دھاڑ کر کے
رخصت ہو جاتے۔
اہداف دو تھے، پہلا یہ کہ آخری گیند تک پاکستانی اننگز کو جاری رکھا جائے
اور دوسرا یہ کہ اس سفر میں ایک قابلِ قدر مجموعہ بھی حاصل کیا جائے جو
دوسری اننگز میں پاکستانی اٹیک کے لئے قابلِ دفاع ہو۔
شاداب کی اننگز میں ہمیں کرکٹ کے تینوں فارمیٹس کی جھلک نظر آئی۔ جب وہ
کریز پر آئے تو محض 117 رنز پر پانچ وکٹیں گر چکی تھیں۔ سو میچ کی نبض کے
مطابق انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کی طرح سے اپنا آغاز کیا، پھر دھیرے دھیرے ون ڈے
کے موڈ میں آئے اور آخر میں ٹی ٹونٹی کے گئیرز بھی لگائے۔
مگر ویسٹ انڈیز کے لیے شاداب کی یلغار صرف یہیں تک محدود نہیں رہی۔ جس وقت
اوائل کے جھٹکوں کے بعد کارٹی اننگز کی سمت درست کر رہے تھے اور ویسٹ انڈین
اننگز پٹڑی پر چڑھنے کو تھی، تب شاداب نے کارٹی کو سپن کے مخالف کھیلنے کے
لیے کریز سے باہر نکلنے پر مجبور کر ڈالا۔
یہی نہیں، جب امیدوں کے لگ بھگ سبھی محلات مسمار ہونے کے باوجود عقیل حسین
نے کشتیاں جلا ڈالیں اور اپنی دھواں دھار بیٹنگ سے میچ کا توازن یوں تیزی
سے بدلا کہ کچھ دیر کے لیے تو پاکستانی کیمپ پر بھی اضطراب طاری ہو گیا، تب
بھی یہ شاداب ہی تھے جنھوں نے اپنی فلائٹ سے عقیل کو رجھایا اور کریز سے
باہر نکلنے پہ مجبور کر کے ان کا قصہ بھی نمٹا ڈالا۔
دورے پر آئی ویسٹ انڈین ٹیم کا یہاں پہلا سابقہ ملتان کی گرمی سے پڑا اور
پھر کل شام مہمان ٹیم نے ملتان کی آندھی کا بھی براہِ راست تجربہ حاصل کیا
جس نے کافی دیر تک کھیل کو ہی معطل کیے رکھا مگر ملتان کی آندھی سے بھی
زیادہ شاداب ان کے لیے ’یادگار‘ ٹھہرے کہ آندھی نے تو محض کھیل کو ذرا دیر
کے لیے معطل ہی کیا تھا مگر شاداب خان نے تو ویسٹ انڈیز کے لیے سرے سے کھیل
ہی ختم کر دیا۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |