فیصل الرحمن
یہ تاریخ اسلام کے دو درخشاں ادوار بغداد اور اندلس کے سقوط سے پہلے کی بات
ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہر طرف محبت وسرور کی ہوائیں چلتی اور علم
وعرفان کی نہریں بہتی تھیں۔ جو کوئی بھی اس ماحول یا نہروں سے سیراب ہونا
چاہتا تھا اس کے لیے اجازت عامہ تھی۔ کتب خانوں میں کتابوں کی ریل پیل اپنی
جگہ۔ گھروں کی یہ حالت تھی کہ کوئی گھر بھی اعلیٰ کتب کی لائبریری سے خالی
نہ تھا۔ شنید ہے کہ گھروں کی لائبریری کو شادی کروانے میں بڑا عمل دخل ہوتا
تھا اور لڑکے کے رشتہ کے وقت باقاعدہ اس کی لائبریری کے بارے میں پوچھا
جاتا تھا۔
تعلیمی اداروں میں جہاں قرآن وحدیث اور فقہی بنیادی مضامین تھے وہاں طب،
فلسفہ، جراحت اور فن تعمیر کو بھی تعلیم کا لازمی عنصر خیال کیا جاتا تھا۔
ایک مدرسہ کا فارغ التحصیل جہاں قرآن وحدیث کے اسرار ورموز سے واقع ہوتا
وہیں طب، فلسفہ اور فن تعمیر کا بھی ماہر گردانا جاتا تھا۔ چنانچہ مسلم
درسگاہوں سے کسب فیض کرنے والے امام غزالی، بوعلی سینا، البیرونی اور
الجاحظ ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
یہ دور مسلمانوں کے ارتقاءاور اسلامی علوم وفنون کے فروغ کا دور تھا۔
مسلمانوں نے ایسے ایسے ہیرے پیدا کیے کہ تاریخ عالم ان کی خدمات کی قیمت
چکانے سے قاصر ہے۔ اس دور میں اسلامی علوم وفنون کی زیادہ تر ترویج
مسلمانوں میں ہی ہوئی۔ مغرب ابھی تک اس سے نابلد تھا۔ دنیا کی معیاری
درسگاہیں اور تعلیمی ادارے مسلمانوں کی خدمات سے روشن تھے۔
سقوط بغداد واندلس کے نتیجے میں جہاں کتب کا ایک بڑا ذخیرہ دریا برد کردیا
گیا وہاں بہت سی نایاب کتابیں عیسائیوں کے ہاتھ لگ گئیں اور وہ انہیں اپنے
مقاصد واہداف حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے لگے۔
علمی ترقی وکامرانی کا ایک دور برصغیر پر بھی گزرا ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کی
وفات کے بعد آنے والے مغلوں نے اس چمنستان کو سرسبز وشاداب رکھنے کیلئے بڑے
کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ اس دور میں جہاں قرآن وحدیث پر بڑا کام ہوا
وہاں فن تعمیر کے عظیم شاہکار تاج محل اور شاہی قلعے نے بھی گہرے نقوش
چھوڑے ہیں۔ اہل اس وقت بھی علم وعرفان سے کوسوں دور تھے۔ وہ مغل بادشاہوں
اور شہزاداوں کی تصویریں بنا کر لاتے اور مغلوں کی دہلیز پر قدم رکھنے کو
بڑی سعادت کی بات سمجھتے تھے اور امداد حاصل کیا کرتے تھے۔
یہ تاریخ عالم کے ان ابواب کی بات ہے جن سے انکار قطعی طور پر ناممکن اور
ان کا حق ہونا مسلّم ہے۔
موجودہ تعلیمی حالات اور خدمات کا اگر جائزہ لیں تو ماضی اور حال دو متضاد
رخ نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب اپنی بے پناہ ترقی کے باوجود
اس مرتبے تک نہیں پہنچ سکا جہاں عظیم مسلم فلاسفرز، جراح اور طبیب پہنچے
تھے لیکن اہل مغرب ان کی راہ پر چل نکلا ہے جہاں مغرب نے ایک طرف ایڈیسن
اور مارکونی جیسے عظیم سائنسدان پیدا کیے وہیں بلب، ٹی وی اور ریڈیو کی
ایجادات میں بھی سبقت لے گئے۔ اسلامی درسگاہوں اور یونیورسٹیز یہ حال ہے کہ
حال ہی میں ہونے والی Univirsity Ranking میں کوئی مسلم یونیورسٹی صف اول
کی یونیورسٹیوں میں شامل نہیں۔ پہلے نمبر پر امریکہ کی ہارورڈ، دوسرے نمبر
برطانیہ کی کیمرج اور تیسرے نمبر پر امریکہ کی ویل یونیورسٹیز ہیں۔ دنیا کی
صف اول کی دس یونیورسٹیوں میں چھ امریکہ اور چار برطانیہ کی ہیں۔ اسلامی
ممالک میں صرف ملائیشیا کی یونیورسٹی 18 ویں نمبر پر ہے۔
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی یہ بتلاتی ہے کہ کسی بھی مملکت اور درسگاہوں
کے عروج کا بنیادی سبب تعلیم کا مادری زبان میں ہونا تھا اور ہے۔ لہٰذا جو
درسگاہ بھی اس اصول پر عمل پیرا ہے وہ کامیاب ہے۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد
سے لے کر چین کے ماﺅزے تنگ تک اور جاپانی صدر سے لے برطانوی وزیراعظم تک
کسی بھی نے مادری زبان پر سمجھوتا نہیں کیا۔
اگر پاکستان کو بھی عالمی برادری کے ساتھ تعلیمی دوڑ میں شریک ہونا ہے تو
اپنے تعلیمی معیار اور طریقہ تعلیم کو بدلنا ہوگا۔ ٹیکنیکل، انجینئرنگ تک
کسی تعلیم کو اردو زبان میں ڈھالنا ہوگا تاکہ پاکستان میں بھی اچھے
انجینئرز اور سائنسدان پیدا ہوسکیں۔ |