کسی لمبی دوڑ کے آغاز میں ہی اگر کوئی قافلہ اپنے سرکردگان کے دستِ شفقت سے
محروم ہو جائے تو پسماندگان کے حوصلے یقیناً پست ہو جایا کرتے ہیں۔
پاکستانی مڈل آرڈر بھی لاہور کے اس فیصلہ کن معرکے میں ’ہمیں منزل نہیں،
رہنما چاہیے‘ کی تصویر بن کر رہ گیا۔
چونکہ اس سیریز کا مقصد محض فتوحات سمیٹنا نہیں، بلکہ ورلڈ کپ کی تیاری
کرنا تھا سو اس تناظر میں یہ دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اپنے پیس
اٹیک کے اولین انتخاب سے محروم تھا مگر بعینہٖ یہی دلیل معین علی بھی لا
سکتے ہیں کہ وہ بھی یہاں کرس جارڈن اور مارک ووڈ کی خدمات سے محروم تھے۔
اگرچہ یہ طے ہے کہ جب ورلڈ کپ کی الیون میں شاہین شاہ، حارث رؤف، نسیم شاہ
اور محمد حسنین ایک ساتھ کھیلیں گے تو یقیناً کوئی بھی ٹیم ویسے ہنستے
کھیلتے پارٹنرشپس نہیں لگا پائے گی جیسے یہاں ڈیوڈ میلان اور ہیری بروک نے
ساجھے داری جمائی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور کی اس اداس شام، شون ٹیٹ کے
بولرز کے پاس کوئی پلان نہیں تھا۔
اور اگر میدان میں اترنے سے پہلے شون ٹیٹ نے انھیں کوئی پلان دیا بھی تھا
تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے سے قاصر رہے۔ یہ کیسی اچنبھے کی بات ہے کہ 20
اوورز اور چھ بولرز پر محیط اس بولنگ اٹیک میں صرف محمد حسنین ہی وہ اکلوتے
بولر تھے جو ایک وکٹ حاصل کر پائے۔
دیگر دو وکٹیں جو انگلینڈ نے گنوائیں، وہ پاکستانی بولنگ سے کہیں زیادہ
شاداب خان اور محمد رضوان کی حاضر دماغی کا ثبوت تھیں۔ مگر پاور پلے کے بعد
پاکستانی فیلڈنگ کا مورال بھی پاکستانی بولنگ ہی کی طرح گرتا چلا گیا اور
ہزیمت نوشتۂ دیوار ہوتی گئی۔
ٹاس جیت کر بابر اعظم نے جب معین علی کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو بنیادی
طور پر ان کے ذہن پر دوسری اننگز کی بولنگ کا دباؤ تھا۔ اوس میں بولنگ نہ
کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے انھوں نے پہلے بولنگ کرنے کا سوچا اور ان کا گمان
تھا کہ وہ انگلش بیٹنگ کو 170 تک محدود رکھ پائیں گے۔
مگر سپنرز کی ناکامی نے پیسرز پر بھی دباؤ بڑھا دیا اور ناتجربہ کار محمد
وسیم اپنے سبھی اسباق بھول بیٹھے۔ کسی دانا نے کہا تھا کہ جب بلے باز بازو
کھول کر دو چار باؤنڈریاں جڑ دے تو بولرز لائن لینتھ کی بھول بھلیوں میں ہی
کھو کر رہ جاتے ہیں۔ یہی کچھ محمد وسیم کے ساتھ بھی ہوا۔
میلان اس سیریز میں ابھی تک ویسی کارکردگی نہیں دکھا پائے تھے جس کی بنیاد
پر وہ کبھی نمبر ون ٹی ٹونٹی بلے باز قرار پائے تھے۔ حالیہ سیریز میں شاید
سالٹ، معین، ہیلز اور ہیری بروک کی پرفارمنسز ایسی تابناک رہی ہیں کہ ان کی
چکا چوند میں میلان کی سٹریٹ سمارٹ کرکٹ کچھ زیادہ نمایاں نہ ہو پائی تھی۔
مگر قذافی کی پچ پر اس فیصلہ کن میچ میں میلان نے سیریز کی سب سے فیصلہ کن
اننگز کھیل ڈالی اور بابر اعظم کو آؤٹ کلاس کر دیا۔
قذافی کی پچ پر عموماً ایسے تگڑے مجموعے دیکھنے کو نہیں ملتے اور نہ ہی اس
پچ کو بلے بازی کے لیے بہت آسان قرار دیا جا سکتا تھا۔ ہیری بروک گھنٹہ بھر
کریز پر رہنے کے باوجود پوری طرح ہاتھ نہ کھول پائے۔ صرف میلان ہی کا بلا
یہاں کھل کر چلا کیونکہ وہ اننگز کے اوائل سے آخر تک وکٹ کی چال سے ہم آہنگ
ہوتے آ رہے تھے۔
جب بات معین علی کے بولرز پر آئی تو درستی، مہارت اور پلاننگ کا ایک حسین
امتزاج دیکھنے کو ملا۔
کرس ووکس نے پہلے اوور کی آخری گیند ڈرائیونگ لینتھ پر بابر اعظم کے سامنے
ایسی پیس سے پھینکی کہ ان کے لیے اپنے فیورٹ کور ڈرائیو کو ٹائم کرنا
ناممکن ہو گیا اور گیند شارٹ کور پر ہیری بروک کے ہاتھوں میں محفوظ ہو گئی۔
بعینہٖ ریس ٹوپلی نے جس گیند پر محمد رضوان کو شکار کیا، وہاں کوئی بھی بلے
باز ہوتا یہی نتیجہ برآمد ہوتا۔ یہ گیند برق رفتاری سے آتے ہوئے عین آخری
لمحے پر ہلکی سی ان سوئنگ ہوئی اور محمد رضوان کے بلے کو غچہ دے کر سٹمپس
سے جا ٹکرائی۔
محمد رضوان جیسی مہارت کے بلے باز کا اس قدر جلد آؤٹ ہو جانا بھی اتنا ہی
غیر متوقع تھا جتنا اس گیند کا عین آخری لمحے پر ہلکا سا سوئنگ ہو جانا۔
یہی دو وکٹیں تھیں جن کے گرد پاکستانی اننگز کی ساری کہانی طے ہونا تھی۔ جب
یہ دونوں وکٹیں گر گئیں تو اس کے بعد محض بقا کی جنگ تھی جہاں ہر کوئی اپنی
نیک نامی بچانے کی تگ و دو میں نظر آیا اور ہدف کا تعاقب ترجیحات میں کہیں
بہت پیچھے چلا گیا۔
مگر اس کا بہت سا کریڈٹ معین علی کی قیادت اور ان کے بولرز کو بھی جاتا ہے
جہاں انھوں نے نہ صرف پاکستانی مڈل آرڈر کو جلد ایکسپوز کیا بلکہ اپنی
پلاننگ سے اسے ایک بار پھر ناکام بھی بنا ڈالا۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |