ماہِ قدر کی شبِ قدر اور شبِ قدر کی کتابِ قدر !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالقدر ، اٰیت 1 تا 5 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
انا
انزلنٰه فی
لیلة القدر 1
وما ادرٰک مالیلة
القد 2 لیلة القدر خیر
من الف شھر 3 تنزل الملٰئکة
والروح فیھا باذن ربھم من کل امر
4 سلٰم ھی حتٰی مطلع الفجر 5
اے ہمارے رسولِ عالی شان ! زمان و مکان کی ہر ایک تحقیق سے ہمارے اِس اَمرِ خاص کی تصدیق ہو چکی ہے کہ ہم نے قُرآن کو اُس عالی شان شب میں آپ پر نازل کیا ہے جس عالی شان شب کے بارے میں اِس سے پہلے ہم نے آپ وہ آگاہی نہیں دی تھی جو آگاہی آپ کو ہم ابھی دے رہے ہیں اور وہ آگاہی یہ ہے کہ وہ عالی شان شب ہماری وحی جمع کرنے والے ایک ہزار عالی شان شَہر سے بھی زیادہ اِس لیئے ایک عالی شان شب ہے کہ اُس شب میں اللہ کی اجازت سے اللہ کے وہ آسمانی قاصد اللہ کی اُس کتابِ وحی کے وہ اَحکامِ سلامتی لے کر زمین پر آتے رہے ہیں جو اَحکامِ سلامتی صُبحِ قیامت تک زمین میں قائم رکھے جائیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
پانچ اٰیات کی اِس سُورت میں جو دس الفاظ قابلِ غور ہیں اُن میں پہلا لفظ وہ اسمِ شب { لیل } ہے جس اسمِ شب لیل کو قُرآن نے اِس کے اِس تین حرفی اسمِ لیل کے ساتھ سُورَةُالنازعات کی اٰیت 29 میں صرف ایک بار استعمال کیا ہے جب کہ اِس لیل کو حرفِ تعریف { الف لام } قُرآن نے 74 بار استعمال کیا ہے اور قُرآن نے اِس لیل کو اُن خاص معنوں میں آٹھ بار استعمال کیا ہے جو خاص معنی اِس سُورت کی اِن اٰیات میں مطلوب ہیں اور جن آٹھ مقامات پر اِس اسمِ لیل کو قُرآن نے خاص معنوں استعمال کیا ہے اُن آٹھ مقامات پر اِس اسمِ لیل کو اسمِ { لیلة } کے اسمِ خاص سے موسوم کیا ہے اور جن آٹھ مقامات پر قُرآن نے اسمِ لیل کو اسمِ لیلة کے ساتھ موسُوم کیا ہے اُن میں سے پہلا مقام سُورَةُالبقرة کی اٰیت 51 ، دُوسرا مقام ہے سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 142 اور تیسرا مقام بھی اسی سُورت کی اسی اٰیت کا یہی مقام ہے جہاں پر مُوسٰی علیہ السلام کی تیس اور بعد ازاں دس اضافی راتوں کے ساتھ اُن چالیس راتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مُوسٰی علیہ السلام نے اَحکامِ تورات کی حصولی اور وصولی کے لیۓ دامنِ طُور میں گزاری تھیں ، اِس لیلة کا چوتھا ، پانچواں اور چھٹا مقام اِس سُورت کا یہی مقام ہے جہاں پر اِس اسمِ لیلة کا تین بار تکرار کیا گیا ہے ، پھر اِس اسمِ لیلة کا ساتواں استعمال سُورَةُالبقرة کی اٰیت 187 میں ماہِ صیام کی ایک شبِ صیام کے ذکر میں ہوا ہے اور یہ تفصیل اِس اَمر کی دلیل ہے کہ قُرآن میں اِس اسمِ لیلة کا استعمال صرف اُمورِ وحی کے لیئے ہوا ہے کسی اور خارج عن الوحی اَمر کے لیئے نہیں ہوا ہے ، اِس سُورت میں دُوسرا قابلِ غور لفظ { قدر } ہے جس کا عام مُتداول معنٰی کسی چیز کی تجسیم و تخلیق ، اہلیت و اہمیت اور اُس کی مُدتِ حیات کا اندازہ لگانا ہے اور اِس سُورت کے اِس خاص مضمون کی مناسبت سے اِس کا معنٰی عالَم و اہلِ عالَم اور اُن کی اِس کتابِ وحی کے بارے میں وہ خُدائی اندازہ ہے جو ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے اُس کا ایک درست اندازہ ہے ، اِس سُورت کا تیسرا قابلِ غور لفظ { الف } ہے جس کا عام معنٰی مُختلف جگہوں پر موجُود مُختلف چیزوں کو ایک جگہ پر جمع کرنا ہوتا ہے اور اسی حوالے سے اُس کتاب کو بھی تالیف کہا جاتا ہے جس میں مُختلف النوع مضامین جمع کیئے جاتے ہیں اور اِس سُورت میں کہی گئی یہ بات قُرآن کی اُس پہلی بات کا اعادہ ہے جو اِس سے پہلے سُورَةُالبقرة کے آغاز میں آنے والے اُن حروفِ مقطعات { الف لام میم } میں کہی گئی ہے جو { الف اللہ لمحمد } کا اختصاریہ ہے اور جس کا معنٰی یہ ہے کہ یہ وہ کتابِ وحی ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنے جس جس زمان و مکان میں نازل کی تھی اَب اُس نے وہ وحی اپنے ہر زمان و مکان سے جمع کر کے اُس کتاب میں ڈال دی جو اُس نے محمد علیہ السلام پر نازل کی ہے تاہم اِس { الف } کا ایک معنٰی ایک ہزار بھی ہے لیکن اِس کی وضاحت ہم کُچھ دیر بعد کریں گے ، اِس سُورت کا چوتھا قابلِ غور لفظ { شَھر ہے جس کا مُجرد معنٰی تو شُہرت ہے اور مزید معنٰی شُہرتِ ماہ و موسم بھی ہے اور اِس شھر میں ماضی کے وہ تمام مشہور ماہ و موسم شامل ہیں جن میں اللہ تعالٰی کی وہ وحی نازل ہوتی رہی ہے جو اَب اِس کتابِ زمانہ کی صورت میں جمع ہوچکی ہے ، اِس سُورت کا پانچواں قابلِ غور لفظ { خیر } ہے جو بلا تخصیص ہر بَھلائی کے لیئے آتا ہے لیکن اِس سُورت میں ایک تخصیص کے ساتھ اُس خاص بَھلائی کے لیۓ آیا ہے جس بَھلائی کا نام وحی ہے ، اِس سُورت کا چھٹا قابلِ غور لفظ فعل { تنزل } ہے جس کا معنٰی وہ چیز ہوتا ہے جو چیز اُوپر سے نیچے کی طرف لائی جاتی ہے اور اِس سے بھی مُراد اللہ تعالٰی کی وہی آسمانی وحی ہے جو انسانی ہدایت کے لیئے اللہ تعالٰی نے محمد علیہ السلام پر نازل کی ہے ، اِس سُورت کا ساتواں قابلِ غور لفظ { ملائکة } ہے جس کا اطلاق اللہ کی اُس نادیدہ مخلوق پر ہوتا ہے جو اللہ کے اِس نظامِ عالَم میں مُختلف اُمور اَنجام دیتی ہے اور اِس مقام پر ایک خاص زمانے میں اُس مخلوق کا اللہ کے کُچھ خاص اَحکام کی بجا آوری کے لیۓ اِس زمین پر آنا مُراد ہے ، اِس سُورت کا آٹھواں قابلِ غور لفظ { الرُوح } ہے جس سے مُراد اللہ کا وہ خاص حُکم ہے جو اُس زمانے میں اِس زمین کے اہلِ زمین کے لیئے آیا ہے اور وہ صرف اور صرف قُرآن ہے ، اِس سُورت کا نواں قابلِ غور لفظ { سلام } ہے جس کا معنٰی سلامتی ہے اور اِس جگہ پر اِس سے مُراد اللہ کا وہ پیغامِ سلامتی ہے جو قُرآن کی صورت میں اہل زمین کے پاس آیا ہے اور اِس سُورت کا دسواں قابلِ غور لفظ { الفجر } ہے جس کا مُطلق معنٰی تو طلوعِ آفتاب لیکن اِس کا مُقید معنٰی صُبحِ قیامت ہے اور اِس سے مُراد یہ ہے کہ جو کتاب محمد علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے اَب صُبحِ قیامت تک زمین پر اہلِ زمین کے سارے فیصلے اسی کتاب کے مطابق ہوں گے اور صُبحِ قیامت کے بعد جو فیصلے ہوں گے وہ بھی اسی کتاب کے اَحکام کے مطابق ہوں گے ، جہاں تک { الف } کے ایک ہزار عدد کے ایک ہزار عددی معنی کا تعلق ہے تو اٰیتِ ہٰذا کے ظاہر معنی میں اِس کی بھی پُوری گنجائش موجود ہے اور جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ شبِ شھر جس شھرِ رمضان میں ہوئی ہے اُس شھرِ رمضان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ شھرِ رمضان جو سال میں ایک بار آتا ہے وہ اِس کے ہزار ماہ ایک ہزار سال میں مُکمل ہوتے ہیں اور یہ ہزار سال کا عرصہ جو لیلة کے مقابلے میں ہے اور اُس میں اُس لیلة کا تین بار تکرار بھی کیا گیا ہے اِس لیئے بادی النظر میں اِس کا معنٰی یہ ہے کہ قُرآن کی جو وحی اپنی تکمیل کے لیئے تین ہزار سال کی مُتقاضی تھی اُس کو قلبِ محمد نے ایک ہی شب میں جذب کر لیا ہے اور تین ہزار سال کی برکتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر لانے والی یہی خُدائی وحی ہے جس خُدائی وحی کو سُورةُ الدخان کی اٰیت کی اٰیت 3 میں آنے والے اسمِ { لیلة } کے آٹھویں اور آخری مقام پر وہ با برکت وحی کہا گیا ہے جس کے پھیلاؤ کا دائرہ اپنے لَمحہِ نزول سے لے کر صُبحِ قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور یہی وہ با برکت شب ہے جس میں ہم نے اپنی وحی کو مکمل کیا ہے اور اسی شب میں ہم نے اپنے اُن تمام پیغام بروں کا بھی انتخاب کیا ہے جن کو ہم نے اپنی اِس وحی کا حامل بنایا ہے اور زمان و مکان میں ہمارے جتنے بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ اسی وحی کے مطابق ہوتے ہیں ، اَب اگر اِس مقام پر ہم رُک کر سُورَةُالبقرة کی اٰیت 185 اور پھر سُورَةُالقدر کی اٰیت ایک تا تین پر غور کریں تو ہمیں پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس لیلة کے سیاہ دور کا ذکر کیا گیا ہے وہ اُس عہد ۔یں عالَمِ انسانیت پر چھایا ہوا ایک تاریک دور تھا جس دور میں اللہ نے وحی کی اِس روشنی کا انتظام کیا تھا اور دُوسری یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اِس عالَم پر یومِ ازل سے یومِ اَبد تک ایک تاریکی ہی تاریکی ہے جس میں واحد روشنی اِس وحی کی روشنی ہے لہٰذا جو لوگ وحی کی اِس روشنی میں چلیں گے وہی لوگ اپنی منزلِ مُراد تک پُہنچ سکیں گے اور جو لوگ اِس روشنی سے انحراف کریں گے وہ لوگ ہمیشہ ہی اِس زمانے کی اُن تارکیوں میں بہٹکتے رہیں گے جو تاریکیاں اِس زمانے میں ہمیشہ سے موجُود ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461818 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More