قُرآن کے خُدا ساختہ عُقدے اور انسان کے خود ساختہ عقیدے !

#العلمAlilm سُورَةُالبینة ، اٰیت 1 تا 8 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیات !!
لم
یکن الذی
کفروا من اھل
الکتٰب والمشرکین
منفکین حتٰی تاتیھم
البینة 1 رسول من اللہ
صحفا مطھرة 2 فیھا کتب
قیمة 3 وما امروا الا لیعبدواللہ
مخلصین له الدین 4 حنفاء ویقیموا
الصلٰوة ویؤتوا الزکٰوة وذٰلک دین القیمة 5
ان الذین کفروا من اھل الکتٰب والمشرکین فی
نار جھنم خٰلدین فیھا اولٰئک شرالبریة 6 ان الذین
اٰمنوا وعملوا وعملوا الصٰلحٰت اولٰئک ھم خیرالبریة
7 جزاؤھم عند ربھم جنٰت تجری من تحتہا الانھٰر خٰلدین
فیھا ابدا رضی اللہ عنھم ورضوا عنه ذٰلک لمن خشی ربه 8
اہلِ کتاب میں سے جو اہلِ کتاب ترکِ دین کے بعد اپنے کافرانہ فرقے بنا چکے تھے اور مُشرکین میں سے جو اہلِ شرک ترکِ توحید کے بعد شرک کے آستانوں پر جَمے ہوۓ تھے ، اگر اُن کے درمیان ہمارے پاکیزہ قوانین کے پاکیزہ صحیفوں کی اتباع کرنے والا رسول نہ آیا ہوتا تو وہ کافر و مُشرک لوگ توحید کے اُس اعتقاد پر کبھی بھی ایمان نہ لاتے جس میں اُن کو یہ حُکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اپنے خُدا کے اُس خالص نظامِ دین کی اتباع کریں جو انسان کو تسویہِ ایمان اور تزکیہِ جان کی تعلیم دیتاہے اور اِس ضابطہِ قانون کی رُو سے جو اہلِ کتاب اپنی کتابِ نازلہ کے اَحکام سے مُنحرف ہو کر فرقوں میں بٹے ہیں اور ابراہیم کے دین کے جو ماننے والے بُت پرستی میں مُبتلا ہوۓ ہیں وہ بدترینِ خلائق ہیں اور اُن کی بدترین جگہ جہنم ہے اور جو لوگ اللہ کی توحید پر ایمان لاۓ ہیں اور جو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اعمالِ خیر بھی کرتے رہے ہیں ، وہ اللہ کی بہترین مخلوق ہیں اور اُن کی بہترین جگہ اللہ کی جنت ہے اور اُن لوگوں کا اُس جنت میں جانا اِس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اپنے اُن سارے بندوں سے راضی ہو چکا ہے اور اللہ کے وہ سارے بندے بھی اللہ سے راضی ہو چکے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوع آسمانی اَدیان کے دعوے دار انسان کی اپنے آسمانی دین سے وہ ذہنی دُوری اور انسانی فرقہ پرستی کے ساتھ وہ ذہنی قُربت ہے جس نے ہر دور میں آسمانی دین کی شکل مسخ کی ہے اور فرقہ پرستی کے فتنے کو پروان چڑھایا ہے ، قُرآن نے انسان پر اِس حقیقت کو واضح کرنے کے لیۓ پہلے دینِ مُوسٰی و عیسٰی کے اہلِ کتاب کی گُم راہی کی ایک مثال پیش کی ہے اور بعد ازاں نسلِ ابراہیم کے مُشرکینِ عرب کی بھی ایک مثال پیش کی ہے ، اِن میں سے اہلِ کتاب کے دو انسانی گروہ اپنے اصل دین کو فراموش کر کے اپنے مذہبی پیشواؤں کی اُس لادین مذہبی پیشوائیت کی اتباع کرتے تھے جو مذہبی پیشوائیت اُن مذہبی پیشواؤں نے اپنی پیٹ پُوجا کے لیئے قائم کی ہوئی تھی اور اُس مذہبی پیشوائیت کے پیرو کار اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کے بجاۓ اُن مذہبی پیشواؤں کے اَحکامِ ناقصہ کو ہی اپنا دینِ حق سمجھتے تھے ، اِس سُورت کی پہلی اٰیت کا پانچواں لفظ جو حرفِ { من } ہے وہ تبعیض کے لیئے آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اُن اہلِ کتاب کی وہ مُحوّلہ بالا جماعتیں بحثیت اُمت تو کبھی بھی اپنے دین سے مُنحرف نہیں ہوئی تھیں لیکن اُن اُمتوں کے کُچھ اَفراد اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے اپنے دین سے مُنحرف ہوتے رہے تھے اور ہو رہے تھے اِس لیۓ قُرآن نے اِس حرفِ تبعیض مِن کے ساتھ اُن کی اُس انفرادی و اجتماعی گُم راہی کے فرق کو واضح کیا ہے اور اس فرق سے یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی ہے کہ جب کسی اُمت میں ایک بار فرقہ پرستی کی راہ کُھل جاتی ہے تو پھر اُس فرقہ پرست اُمت میں دین کے نام پر لادینیت کی فرقہ پرست شیطانی تحریکیں مُسلسل بنتی چلی جاتی ہیں جن کی فرقہ پرستی کے باعث اُس اُمت سے دینِ حق کی شناخت اِس طرح مٹتی چلی جاتی ہے کہ ایک عام انسان کی نظر میں حق و باطل کی تمیز ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے جو اِن مذہبی فرقوں کے وجُود سے پہلے اُس انسان میں موجُود ہوتی ہے ، قُرآن نے اہلِ کتاب کے بعد دُوسری مثال میں اُن مُشرکینِ عرب کے عقائد کو پیش کیا ہے جو ابتدا میں دینِ ابراہیم کے پیرو کار ہوتے تھے لیکن رفتہ رفتہ وہ شرک و بُت پرستی میں مُبتلا ہو کر اَب اپنے اِن ہی اعمالِ شرک و بُت پرستی کو دینِ ابراہیم سمجھنے لگے تھے ، قُرآن نے اِن دو اَمثال کے بعد اِن اَمثال کے نتیجہِ کلام کے طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اگر محمد علیہ السلام دینِ حق لے کر اِن تین گُم راہ اَقوام کے درمیان میں تشریف نہ لاتے تو اِن تین گُم راہ اقوام کے یہ گُم راہ لوگ کبھی بھی ایمان نہ لاتے لیکن اِس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب محمد علیہ السلام دینِ حق لے کر اِن کے پاس تشریف لائے تھے تو یہ تین انسانی گروہ آپ پر ایمان لے آئے تھے بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ محمد علیہ السلام کی بعثت اور قُرآن کے نزول کے بعد اِن لوگوں پر یومِ قیامت تک رُشد و ہدایت کا وہ راستہ کُھل گیا ہے کہ وہ جب بھی چاہیں اِس دینِ حق پر ایمان لے آئیں اور نجاتِ دُنیا و عُقبٰی کے حق دار بن جائیں ، قُرآن نے اِس سُورت کہ اٰیت پانچ کے نصف اَوّل میں عبدیت و عبودیت کا یہ فرق بھی واضح کر دیا ہے کہ دینِ کا تصورِ عبدیت یہ ہے کہ دین ایک ہے ، اِس کی اطاعت بھی ایک ہے اور اِس اطاعت کا طریقِ اطاعت بھی یہی ایک ہے اُس کے اَحکامِ نازلہ پر ہُوبہُو اِس طرح عمل کیا جائے جس طرح وہ اَحکامِ نازلہ اللہ تعالٰی کی کتابِ نازلہ میں موجُود ہیں جب کہ اِس کے بر عکس فرقوں کا تصورِ عبودیت اُن کا ایک وضعی تصور ہے جس میں اُنہوں نے اپنی بندگی کے علامتی اظہار کے طور پر اختیار کیا ہے اسی لیئے ہر فرقے کا طریقِ بندگی اسی طرح ایک دُوسرے سے الگ ہے جس طرح اُن کا فرقہ ایک دُوسرے سے الگ ہے لیکن قُرآن نے اِس بارے میں انسان کو جو باور کرایا ہے اُس کے مطابق اللہ تعالٰی نے انسان کو ہمیشہ سے جو حُکم دیا ہے اور ہمیشہ کے لیئے جو حُکم دیا ہے وہ حُکم یہ ہے کہ انسان خالص اللہ کی چاکری کرے اور اللہ کے علاوہ کسی بھی ہستی کی غلامی ہر گز قبول نہ کرے کیونکہ قُرآن کی رُو سے انسان کا یہی ایمان و اعتقاد اُس کا دینِ خالص و عمل خالص ہے اور سیدنا محمد علیہ السلام بھی اللہ تعالٰی کی اسی پاکیزہ کتاب کے اِن ہی پاکیزہ اَحکام کی اتباع کی ہے اور اس پاکیزہ کتاب کے اِن ہی پاکیزہ اَحکام کی تعلیم دی ہے جن سے انسان کے ایمان کا وہ تسویہ اور انسان کی جان کا وہ تزکیہ ہوتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے اور اِس کلام کا نتجہِ کلام یہ ہے کہ جو لوگ اِس دُنیا میں قُرآن کے اِس تسویہِ ایمان و تزکیہِ جان سے محروم ہوتے ہیں وہ نجاتِ عُقبٰی سے بھی محروم ہوتے ہیں اور جو جو لوگ صبر و استقامت کے ساتھ تسویہِ ایمان و تزکیہِ جان کی اِس تربیت سے گزر جاتے ہیں وہ دُنیا کے بعد آخرت کی مُشکل گھاٹی سے بھی کسی مُشکل کے بغیر گزر جاتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558535 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More