برطانیہ کے جنرل ڈیوک آف ولنگٹن سے کسی نے استفسار کیا کہ
آپ نے واٹرلو کے مقام پر نپولین بونا پارٹ جیسے عظیم اور کامیاب جنگجو کو
کیسے شکست دی؟ یہ جنگی حربے آپ نے کہاں سے سیکھے؟ تو ان کا جواب تھا کہ میں
نے یہ تمام حربے انگلستان کے سکول ایٹن کے کرکٹ گراؤنڈ سے سیکھے ہیں کہ
ایک مضبوط مخالف کا ڈٹ کر مقابلہ کیسے کرنا ہے اور مشکل ترین حالات میں بھی
کیسے ہمت نہیں ہارنی؟ دنیا بھر کے بہت سے ایسے اسٹار موجود ہیں جنہوں نے
کھیل کے حقیقی فلسفے کو سمجھتے ہوئے کامیابیاں سمیٹی ہیں۔دنیا بھر کے بہت
سے ایسے اسٹار موجود ہیں جنہوں نے کھیل کے حقیقی فلسفے کو سمجھتے ہوئے
کامیابیاں سمیٹی ہیں۔خود عمران خان صاحب بھی کرکٹ کی وجہ سے ہی وزیراعظم کے
اعلیٰ منصب تک پہنچے ہیں۔ثمینہ بیگ، علی سدپارہ، واجد اللہ نگری جیتی جاگتی
مثالیں ہیں۔یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب تعلیمی ادارے طلبہ کو تعلیم کے ساتھ
مختلف کھیلوں کے مواقع فراہم کریں۔
طلبہ کے لیے کھیلوں کی اہمیت کے پیش نظر ثانوی سطح پر باقاعدہ جسمانی صحت
کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مگر اسکول لیول میں ہمارے اکثر والدین اور خود اساتذہ
بھی امتحان میں بہترین نتائج کے لیے طلبہ کی نصابی سرگرمیوں پر زور دیتے
ہیں۔ انہیں محض نصاب ختم کرانے کی فکر لگی رہتی ہے اور کھیل کود کو وقت کا
ضیاع سمجھ کر یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔ افلاطون کا فرمانا ہے کہ بچے کھیل
پیدائشی طور پر ورثے میں لے کر آتے ہیں لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ
کھیل کے میدان اور کمرہ جماعت کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔
اگر طلبہ کو اسکول کی چار دیواری اور محض کلاس تک محدود رکھ کر ان کو نصاب
پڑھایا جائے تو وہ صرف کتابی کیڑے ہوں گے۔ باہر کی دنیا سے ان کا ربط ٹوٹ
جائے گا۔ مسلسل گھر میں رہنا بچوں کے ذہن کو محدود کرتا ہے اور وہ عملی
زندگی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ لہٰذا تعلیم کو
کتابوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔
آج دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے طلبہ کو
گھر سے باہر کھیل کود کے کم مواقع ملتے ہیں اور گلی کوچے میں کھیلنے کا
رواج بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اکثر والدین باہر کے ماحول کو بچوں
کے لیے غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے بچے اپنا بیشتر وقت موبائل فون، لیپ
ٹاپ، پب جی اور مختلف ویڈیو گیمز میں گزارتے ہیں یا ٹی وی سکرین پر کارٹونز
کی مصنوعی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ بدیں وجہ بچوں کا قدرتی ماحول سے وابستگی
کم ہوتی جا رہی ہے۔ انہیں فطرت کو قریب سے دیکھنے کے کم مواقع ملتے ہیں۔ ان
کی زندگی روبوٹ کی صورت اختیار کر چکی ہے اور وہ مشین کی طرح کام کرنے لگتے
ہیں۔ اسی لیے تو علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
طلبہ کی کردار سازی، قائدانہ صلاحیتیں پروان چڑھانے اور مخفی صلاحیتوں کو
اجاگر کرنے کے لیے تعلیم کے ساتھ مناسب اوقات میں کھیل کود ناگزیر ہے۔ عظیم
فلسفی روسو کا کہنا ہے کہ اگر آپ ذہانت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو طاقت پیدا
کیجیے۔ جسم کو کھیل کے ذریعے لگاتار ورزش دیجیے۔ شاگردوں کو طاقت ور
بنائیں۔ وہ جلد دانشور بن جائیں گے۔ طلبہ کے لیے کھیلوں کی اہمیت سے انکار
نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ کھیل انسان کو ہر قسم کے حالات سے نبردآزما
ہونے کے گر سکھاتا ہے۔ کھیل لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے۔ حکماء فرماتے ہیں
کہ ایک صحت مند جسم ہی میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ جب جسم لاغر اور
مختلف بیماریوں کا گھر ہو گا تو بہترین ذہانت کا سوچنا بھی رائیگاں ہے۔
ماہرین تعلیم ابتدائی جماعتوں کے بچوں کے لیے کھیلوں کی تاکید کرتے ہیں۔
چھوٹے بچے جلد ہی کتاب سے بوریت محسوس کرتے ہیں اور ان کی توجہ پڑھائی پر
مرکوز رکھنا قدرے پیچیدہ عمل ہے۔ مگر کھیل کے ذریعے اکتاہٹ دور کر کے
پڑھائی کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔ انھیں کھیل کھیل میں پڑھایا اور
سکھایا جا سکتا ہے۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ کھیل اور تعلیم لازم و ملزوم ہے۔
یہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں۔ لہٰذا تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً
مختلف کھیلوں کا انعقاد کرایا جائے اور والدین گھروں میں طلبہ کے لیے
کھیلوں کا اہتمام کریں تاکہ طلبہ کو ایک صحت مندانہ ماحول میسر آئے اور
انہیں اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع مل سکے۔ تاکہ وہ آگے چل کر بین الاقوامی
سطح پر ملک کا نام روشن کر سکیں۔
|