عشا ٕ کی نماز ادا کرنے کے بعد حسن مسجد میں بیٹھ
گیا۔تقریباًبیس پچیس منٹ کے بعد ایک ایک کر کے تمام نمازی اپنے اپنے گھروں
کو چلے گٸے ۔اور حسن مولوی صاحب کے مزید قریب جا بیٹھا جو کے ابھی تک امامت
کی جگہ پہ بیٹھے ہوۓ تھے۔
آٸییےحسن بھاٸی کیا حال ہے
مولوی صاحب کیا بتاٶں۔ آج دل بہت اداس ہے۔ یہ اداسی پہلی مرتبہ نہیں
ہے۔ایسا اکثر ہوتا ہے۔ اور کبھی کبھی یہ اداسی کٸی دنوں تک پیچھا نہیں
چھوڑتی۔خاموش ہو جاتا ہوں۔دوستوں عزیزوں سے میل جول اتنا کم ہو جاتا ہےکے
پاس سے گزرتے ہوٸے انہیں سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا بھی طبیعت پہ گراں
گزرتا ہے۔ آج صبح جو فجر کی نماز پڑھی۔تومیں حسب ٕ معمول چہل قدمی کیلیے
نکلا۔چہل قدمی اتنی طویل ہو گٸی ۔کہ اگلا گاٶں شروع ہو گیا ۔اور وقت کے
گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔ نا ہی تھکاوٹ محسوس ہوٸی ۔ اور دل کا حال یہ
تھا۔کہ چلتا ہی چلا جاٶں ۔اور یہ سفر تمام نا ہو۔ یہ سب کیا ہے ۔
حسن بے ساختہ ایک ہی سانس میں اتنی باتیں کر گیا۔مگر جواب میں۔
حسن بھاٸی نمازپڑھا کرو۔
مولوی صاحب وہ تو میں پڑھتا ہوں
حسن بھاٸی نماز میں ہی سکون ہے
جی مولوی جی بلکل یہ تو میرا ایمان ہے۔مگر۔۔۔
حسن بھاٸی نماز پڑھا کیجیے اور قرآن پڑھا کیجے۔سکون مل جاٸے گا انشا ٕاللہ۔
یہ کہہ کر مولوی صاحب گھر جانے کیلیے اُٹھ کھڑے ہوٸے۔
حسن بھی جلدی سے امام صاحب کے ادب میں کھڑا ہو گیا۔اور اُن کے ساتھ ساتھ
چلنے لگا۔
مولوی صاحب پھر سے جاتے جاتے۔حسن بھاٸی نماز پڑھا کیجیے قرآن پڑھا کیجیے۔
حسن تھوڑا جذبات مگر ادب کے داٸرے میں رہ کر بولا۔
نماز پڑھا کیجیے قرآن پڑھا کیجیے۔وہ تو میں پڑھتا ہوں۔
آپ رکیں۔اور میرا ہاتھ پڑھیں۔ہاتھ کی لکیروں میں ایسا کیا لکھا ہے ۔جو مجھے
مسجد میں بھی سکون میسر نہیں ہے۔
مولوی صاحب چلتے چلتے رُک گٸے۔اور حسن کو دیکھنے لگے۔ حسن بھاٸی کیا ہوا ہے
۔
حسن مسکراتے ہوٸے بولا مولوی صاحب بتا تو رہا ہوں کب سے مگر آپ سمجھ نہیں
پا رہے۔
مولوی صاحب مسکراتے ہوٸے بولے ۔حسن بھاٸی کیا سمجھانا چاہتے ہیں۔
مولوی صاحب دیکھیں۔میری عمر چالیس سال ہے۔عمر ڈھلنا شروع ہو چکی ہے۔آدھے
بال سفید ہو گٸے ہیں۔ پیٹ ہے کہ کنواں اِس کی لالچ اور بھوک نہیں
مٹتی۔زندگی سے تھک چکا ہوں۔بلکہ زندگی کی دوڑ سے تھک چکا ہوں۔
حسن بھاٸی ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے یہی زندگی کا اصول ہے۔ جو پیدا ہوا ہے
اسے مرنا بھی ہے۔ اور کھانے کیلیے کمانا بھی پڑتا ہے۔
یہ کہہ کر مولوی صاحب چلے گٸے۔ اور حسن حسرت بھری نگاہیں لیے اپنے گھر کی
طرف آ گیا۔
خیر وقت گزرنے لگا۔ حسن کو اپنے سوالات کے جوابات تو چاہیٸے تھے۔مگر کبھی
ایسا کوٸی نہیں ملا ۔جو اس کے اندر کی بےسکونی کا حل بتا پاتا۔
سکون کیا ہے۔کیا نماز میں سکون ہے ۔کیا ہم نماز اپنے سکون کیلیے پڑھتے ہیں؟
اگر نماز ہم اپنے قلبی سکون کیلیے ہی پڑھتے ہیں۔ تو پھر تو یہ سودے بازی
ہوٸی۔ نماز دے دو سکون لے لو
آٸیں اگر آپ پریشان ہیں ۔نماز پڑھ لیجیے ۔پریشانی دور ہو جاٸے گی۔
حسن رات بھر چارپاٸی پہ لیٹا خود سے یہ باتیں کرتا رہا۔ اپنے ہی من میں خود
کو کٹہرے میں کھڑا کیے ۔خود سے ہی سوالات پوچھتا رہا۔
یعنی وکیل بھی حسن۔
اور کٹہرے میں کھڑا وہ مدعی بھی حسن۔
مگر اس من کی عدالت کو ایک جج کی تلاش تھی ۔
ایک ایسا جج جو ناکہ تاریخ پہ تاریخ دیے جاتا۔
بلکہ ایک ایسا جج جو مکمل دیانتداری کے ساتھ بس فیصلہ سناتا۔
اور ایسا مضبوط فیصلہ جس کے بعد دوبارہ اپیل کی گنجاٸش تک باقی نا رہے
ایک دن حسن اپنے کسی کام کے سلسلے میں شہر گیا۔ جمعے کا دن تھا ۔تو حسن نے
اپنا شیڈیول کچھ اس طریقے سے ترتیب دیا کہ وہ بارہ بجے واپس اپنے گھر پہنچ
سکے۔ اور آرام سے نماز جمعہ کی تیاری کے بعد وقت پر مسجد بھی پہنج جاٸے۔
مگر ایسا ممکن نہیں ہوا۔ شہر کی مصروفیات کی وجہ سے حسن وقت کی پابندی نہیں
کر پایا۔
ابھی وہ راستے میں ہی تھا ۔اور نماز کا وقت ہو گیا۔
شہر سے تھوڑا باہر نکلتےہوٸے حسن کی نظر ایک بڑی سی خوبصورت مسجد پر پڑی۔
حسن جس کی آنکھیں پہلے سے ہی مسجد کی متلاشی تھیں۔ فوراً موٹر باٸیک مسجد
کی جانب کر لی۔
حسن ابھی دوران وضو تھا کہ خطبہ جمعہ شروع ہو گیا۔
المختصر ۔
حسن نے شہر کی اس مسجد میں با جماعت نماز جمعہ ادا کی۔نماز مکمل کرنے کے
بعد مسجد میں ہی کچھ دیر آرام کیا غرض سے وہ ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر
بیٹھا گیا۔
اسی دوران حسن نے دیکھا ۔نماز کے بعد لوگوں کا ایک ہجوم امام صاحب کے
اردگرد بیٹھ گیا۔
امام صاحب کو لوگ شاہ جی شاہ جی تو کوٸی سیَد بادشاہ کہہ کر مخاتب ہونے لگے
۔
لفظ شاہ جی سنتے ہی حسن نے اس محفل کو خود سے ہی پیری فقیری کا رنگ دے دیا
۔ پھر کیا تھا حسن جو کہ پہلے سے ہی پیری فقیری سے سخت نفرت کرتا تھا۔ اپنے
ہی من میں اس محفل کو جہالت کہہ کر آنکھیں بند کر کے آرام کرتا رہا۔ تھکاوٹ
کی وجہ سے یہ آرام نیند میں تبدیل ہو گیا اور حسن وہیں بیٹھے بیٹھے نیند کی
وادیوں میں چلا گیا۔
اسی دوران امام صاحب کے پاس بیٹھے لوگ اپنے سوال جواب مکمل کر کے آہستہ
آہستہ وہاں سے چلے گٸے۔
حسن جو کہ بس دس منٹ آرام کی غرض سے اس جگہ بیٹھا تھا۔اب پچھلے ایک گھنٹے
سے وہیں نیند کی آغوش میں مسجد کی کسی دیوار سے ٹیک لگا ٸے سویا ہوا تھا۔
لوگوں کے جانے کے بعد امام صاحب کی نظر حسن پہ پڑی۔ حسن کو جگانے کی غرض
سےامام صاحب حسن کی طرف چل پڑے۔اور بہت ہی اطمینان سے اپنا ہاتھ حسن کے
کندھے پہ رکھا۔اور بڑے بھاٸی کہہ کر حسن کو جگا دیا۔
کیا بات ہے بڑے بھاٸی مسافر لگتے ہو۔آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔
حسن!گھڑی کی طرف دیکھتے ہوٸے اُٹھ کھڑا ہوُا۔اور بغیر کچھ کہے ۔جلدی میں
مسجد سے باہر کی طرف چل دیا۔
آپ مہمان ہو بڑے بھاٸی۔ آٸیے کھانا کھاتے جاٸیں۔
میں پیروں کو نہیں مانتا ۔
اچھی بات ہے میں بھی نہیں مانتا۔
حسن مولانا کا جواب سن کر جاتے جاتے رُک گیا۔اور حیرانگی سے شاہ جی کو
دیکھنے لگا۔
بڑے بھاٸی آپ کا نام کیا ہے۔
میرا نام محمد حسن ہے
محمد حسن ماشا ٕاللہ ماشا ٕاللہ بہت خوبصورت نام ہے۔
مولوی صاحب آپ پیروں کو نہیں مانتا۔
بلکل نہیں گنجاٸش ہی پیدا نہیں ہوتی
حسن شاہ جی کو دیکھنے لگا اور حیران ہوتا رہا۔
آٸیں حسن بھاٸی بیٹھتے ہیں۔
حسن فوراً بیٹھ گیا۔اور مخاتب ہوا۔مولانا تم تو خود پیر ہو۔
حسن بھاٸی میں تو امام مسجد ہوں ۔ میرا پیر تو وہی ہے جو تمہارا پیر ہے۔
مولانا میں پیروں فقیروں کو نہیں مانتا۔
حسن بھاٸی کیا آپ مُحَمَّد ﷺ عربی کو نہیں مانتے۔وہی تو ہے اکیلا میرا اور
تمہارا پیر ۔میرا اور تمہارا ہمدرد۔میرا اور تمہارا استاد۔ خدا تعالیٰ کا
بندا اور رسول۔ مگر اپنی صفات میں سب سے الگ ۔ سب سے افضل ۔کاٸنات میں
خداکا سب سے پیارا بے عیب ۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر شاہ جی مسکرانے لگے۔
حسن خاموش رہا ۔اور بہت حیران مگر مطمٸن بس شاہ جی کی باتیں سُنتا رہا۔
لوگ آپ کو شاہ جی اور سید بادشاہ کہہ رہے تھے مجھے لگا کوٸی ڈھونگی مولوی
ہے۔
حسن کے الفاظ ایک حد سے بڑھ رہے تھے اس کے باوجود شاہ جی کے چہرے پہ
مسکراہٹ تھی۔
حسن بھاٸی اب اگر میں سیَد زادہ ہوں ۔تو اس میں میرا کیا اختیار یہ تو میری
اچھی قسمت اور خدا تعالیٰ کی کرم نوازی ہے۔ اب لوگوں کی محبت ہے اور ھاشمی
خاندان کی نسبت ہے کوٸی شاہ جی تو کوٸی سَید بادشاہ کہہ دیتا ہے۔ حالانکہ
میں تو ایک امام مسجد ہوں۔
( شاہ جی ایک پینتیس سال کے نوجوان تھے۔ایک حسین شکل و صورت اور شیریں لب و
لہجے کے مالک جو کہ امام مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد میں بچوں کو قرآن کی
تعلیم دیتے۔اور اس کہ علاوہ ایک پراٸیویٹ کالج میں اسلامیات کے اُستاد بھی
تھے)
حسن اور شاہ جی میں بات چیت کا سلسلہ مزید بڑھنے لگا۔حسن کو ایسا محسوس
ہونے لگا جیسے اسے اس کے سوالات کے جوابات مل رہے ہیں۔
حسن بھاٸی آپ کا چہرا بتا رہا ہے۔آپ کسی الجھن کا شکار ہیں۔
مولوی صاحب تو آپ لوگوں کے چہرے پڑھنا جانتے ہیں۔
شاہ جی ۔مسکراتے ہوٸے ارے حسن بھاٸی اصل میں آپ کی باتیں آپ کے اندر کی
الجھن بیان کر رہی ہیں۔ اور اگر ہم کسی الجھن کا شکار ہوتے ہیں ۔ تو ہمارا
چہرا اِس اُلجھن کی عکاسی کرتا۔اور پھر ہمارے تاثرات بغیر بات کیے ہمارے
اندر کا حال بیان کرتے ہیں۔
مولوی صاحب زندگی میں سکون نہیں ہے کسی عجیب کشمکش کا شکار ہوں ۔
کیسی کشمکش۔
پتا نہیں ۔حالانکہ میں تو پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں۔ روزانہ قرآن کی تلاوت
کرتا ہوں۔
حسن بھاٸی ہم نماز کیوں ادا کرتے ہیں
مولوی صاحب سکون کیلیے۔
حسن بھاٸی اور قرآن پاک کی تلاوت کیوں کرتے ہیں۔
مولوی صاحب ہدایت کیلیے۔
حسن بھاٸی ماشا ٕاللہ بلکل اچھی بات ہے۔
مولانا کیا تم طبیب ہو۔اگر طبیب ہو تو شفإ دو مجھے یہ باتیں میرے مرض کا
علاج نہیں ہیں۔
شاہ جی مسکراتے ہوٸے بولے۔ پیارے بھاٸی میں تو طبیب نہیں ہوں ۔بھلا آپ کو
شفا ٕ کیسے دے سکتا ہوں۔
مولانا آپ مسکرا کیوں رہے ہو۔
حسن بھاٸی آپ کی باتوں سے مسکرا رہا ہوں ۔ آپ نے کہا ہم نماز پڑھتے ہیں
سکون کیلیے ۔جو کہ بلکل صحیح ہے ۔ تو ایسا کیا غلط ہو رہا ہے۔
کہ آپ نماز بھی پڑھتے ہیں ۔ اور سکون بھی میسر نہیں ہے
دراصل اعمال کا دارومدار نیعتوں پر ہوتا ہے۔ ہمیں نماز صرف قلبی سکون کے
لیے نہیں پڑھنی چاہیے۔
اصل میں نماز ایک عبادت ہے۔ اور اللہ کی عبادت ہم کیوں کرتے ہیں کیوں کہ بس
وہی عبادت کے لاٸق ہے۔
اُس کی صفات ایسی باکمال ہیں ۔ کہ انسان اس کی صفات کو دیکھتے ہی کہہ
اُٹھتا ہے الله أكبر ۔پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔یعنی نماز پڑھنے
لگتا ہے۔ اور پھر قلبی سکون محسوس کرتا ہے۔ کہ جیسے دُنیا میں اس سے زیادہ
مطمٸن انسان اور کوٸی نہیں ہے۔
حسن بھاٸی آپ جانتےہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کیا ہیں
جی شاہ جی ! نہیں
حسن جو کہ ایک گھنٹے سے کبھی مولانا تو کبھی مولوی صاحب کہے جا رہا تھا
۔اچانک شاہ جی کہنے لگا۔
حسن مگر آپ نے تو کہا کہ آپ روزانہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
جی شاہ جی کرتا ہوں۔
حسن بھاٸی تو بتاٸیے اللہ تعالٰی کی صفات کیا ہیں۔
شاہ جی آپ ہی بتا دیجیے ۔
حسن بھاٸی اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے (اے انسان تو نے مجھے پہچانا ہی
نہیں جیسا کہ مجھے پہچاننے کا حق تھا)
شاہ جی پھر اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا جاٸے ۔
حسن بھاٸی قرآن پاک کے ذریعے۔آپ قرآن پاک کی تلاوت تو کرتے ہی ہیں۔ مگر اب
سے قرآن پاک کی تلاوت ترجمے کے ساتھ شروع کیجیے۔چاہے دو آیات ہی پڑھیں ۔اور
ساتھ ہی اپنی زندگی ان آیات کے مطابق گزارنا شروع کردیں۔ایسا کرنے سے آپ کو
ذہنی و قلبی سکون مل جاٸے گا۔اور آپ کو یہ قرآن خدا کی صفات اور واضع
نشانیاں کھول کھول کر بیان کردے گا۔ ایسا کرنے کے بعد جو پہلی نماز آپ ادا
کریں گے۔وہی نماز سکون کا باعث بنے گی۔اور مسجد امن والی جگہ محسوس ہونے
لگے گی۔
حسن بھاٸی میں تو طبیب نہیں ہوں ۔طبیب تو اللہ تعالیٰ ہے ۔اور شافی بھی اس
پروردگار کی صفت ہے۔یعنی آپ کے مرض کی دوا بلکل ہے۔ مگر آپ اپنی دوا کا
نسخہ اسی سے لکھواٸیں۔اور اسی سے شفا ٕ لیں۔
ختم شدہ۔ |