سندھ میں نظام تعلیم کی زبوں حالی

پاکستان بننے سے پہلے سندھ صدیوں سے علم کا گہوارہ رہا ہے، حیدرآباد، ٹھٹہ، شکارپور، مٹیاری، ہالا، روہڑی و سکھر سمیت سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں درس و تدریس کے مراکز قائم تھے. پاکستان بننے کے بعد سندھ میں باقی سب چیزوں پر توجہ دی گئی لیکن تعلیم کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ صوبہ سندھ سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کے اعتبار سے پاکستان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے سندھ چھوٹے بڑے سیاستدان تو پیدا کرنے لگا لیکن حکمرانوں کی طرف سے تعلیم کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دی گيا اور خاص کر پرائمری اور مڈل تعلیمی مرکز برائے نام رہے گے. پاکستان دولخت ہونے کے بعد اس بچے کچے پاکستان میں خاص کر 1972 کا دور اقتدار میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہڑتالی گروپ چھائے رہے اور دیکھا دیکھی مختلف لسانی جماعتیں بھی اپنا اثر و رسوخ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی رہیں اس ہی دوران 1972ء کی دہائی میں تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیے جانے کے بعد سے تعلیمی اداروں کی زبوں حالی اور تعلیم کی بربادی کا دور شروع ہوا۔ شعبہ تعلیم میں تجارت اور تعلیم میں بدنظمی، بدانتظامی، سیاسی اثرورسوخ، مداخلت، دھونس دھاندلی، دھمکی اور نقل کرنے کے رجحان نے رواج پایا۔ تقرریوں، تبادلوں، داخلوں میں میرٹ کو نظرانداز کیا جانے لگا، کوٹہ سسٹم، سیلف فنانس اور ڈونیشن کے نام پر سرکاری اور قانونی طور پر مستحق طلبا کا استحصال کرنے کی بنیاد فراہم کر دی گئی جو آج تک جارہی ہیں رہی سہی کثر ضیاء کی آمریت کے دور اقتدار میں کراچی میں لسانیت کو جو فروغ دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی و حیدرآباد کے مکینوں نے اپنے ہی ہاتھوں تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، جو ہر دور کی بنیادی ضرورت ہے. سندھ میں گزشتہ تین حکومتوں کے ادوار سے پرائمری اور سیکنڈری اسکول اساتذہ کی بھرتیوں کے سلسلے میں جو نااہلیت اور شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے وہ نہ صرف محکمہ تعلیم اور وزارت تعلیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ انتہائی شرمناک بھی ہے۔ اس محکمے اور وزارت میں اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ چند ہزار اساتذہ کی بھرتی کا عمل کسی نظم و ضبط اور میرٹ کی بنیاد پر مکمل کر سکے۔ کچھ سال قبل عدالتوں میں آئینی درخواستیں دائر کیں گیں ، جانبداری اور بھاری رشوتیں لے کر بھرتیوں کے کھلے عام الزامات آید کیے گئے ، بھوک ہڑتالیں ہوئیں، جعلی کاغذات اور قواعد کو نظرانداز کرنے پر ہائیکورٹ نے بہت سی تقرریاں منسوخ قرار دیں۔ ورلڈ بینک اور یورپی یونین کی جانب سے بدانتظامی اور میرٹ کو نظرانداز کرنے کی پاداش میں عدم اعتماد کا اظہار اور فنڈ روکنے کی دھمکیاں سامنے آئیں صوبائی حکومتِ اور وزارت تعلیم کی توجہ تعلیم پر بالکل نہیں ہر کوئی ہر وقت اپنے اقتدار کو بچانے میں مصروف رہا ہے. سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں تعلیم کا کوئی معیار نہیں سرکاری اسکولوں میں تو ڈرگ مافیا و نشہ کرنے والوں اور بھینس باڑوں کا راج ہے جبکہ ان پرائیوٹ اسکولوں میں بھاری بھرکم فیسیں تو وصول کی جانے لگیں لیکن طلبا کی تربیت کہیں ہوتی نظر نہیں آتی۔جن کی مثال جس طرح کا یہ بچوں کو تعلیم کے نام پر بچوں کی تہذیب و تمدن و اسلامی معاشرہ پر کاری ضرب لگارہے ہیں حالیہ مہینوں میں ان ماڈرن اسکولز و کالجز میں آجکل لاہور کے ڈیفینس کے ایک تعلیمی ادارے میں جو اخلاقیات کا دھجیاں اُڑائی گئی ہیں اس سے با خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بچے کل کو مُلک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے یہ کیا ملک کی حالت سنبھالیں گے جو اپنے آپ کو نہ سنبھال سکے یہی وجہ ہے کہ ملک کی نسل نو سماجی برائیوں اور اخلاقی پستی اور گراوٹ کا شکار ہے۔ بچوں کی شخصیت میں اخلاقی بحران اور تہذیبی اقدار کی قلت کی سب سے بڑی وجہ ان کے والدین کی غفلت ہے وہ اپنی کمائی اور مسائل میں اتنے مصروف ہیں کہ اپنی اولادوں کے لیے وقت نہیں ، تیزی سے دوڑتی زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے میں وہ اپنے بچوں کو فراموش کیے جارہے ہیں بلکہ اپنے بڑھاپے کی زندگی کو اولڈ کیمپس میں اپنے آپ کو دیکھ پا رہے ہیں کیونکہ جو خود غرضی انہوں نے اپنی اولادوں کے ساتھ کی ہوئی ہے وہ ہی اولاد بڑی ہوکر ان کے ساتھ کریگی. مگر مڈل کلاس اور لوئر کلاس لوگ اپنے بچوں کو ان پرائیوٹ اسکولوں کی فیسوں کی وجہ سے داخلہ دلا نہیں سکتے. اور سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی رہی سہی کثر اس نقل مافیہ نے بچوں کی نسلوں کو دیوار سے لگادیا سندھ میں نقل نظام تعلیم کو گھن کی طرح کھا رہا ہے. کہیں سیاسی جماعتوں کے کارکن بچوں کو نقل کروا رہے ہیں اور کہیں علاقے کے میں بااثر رکھنے والے افراد بچوں کو نقل کرواتے ہیں جبکہ اندرون سندھ وڈیروں کے بیٹے سرکاری اداروں کی سرپرستی میں نقل کرتے ہیں ۔ تعلیم کی اس زبوں حالی میں اساتذہ بھی بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اساتذہ بھی اس ہی معاشرے کا حصہ ہیں وہ بھی بچوں کو نقل کرانے کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں . اندرون سندھ سرکاری اسکولوں کی عمارتیں وڈیروں اور جاگیرداروں کے کیٹل فارم اور گودام بنے ہوئے ہیں اور معصوم بچے پڑھنے کے بجائے اپنا وقت بے جا فضول بیٹھ کر ضائع ہورہے ہیں۔ کیا اسی ہی کو جمہوریت کہتے ہیں ؟ عوام سے تعلیم چھین کر انہیں مزید جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے اور تعلیم کے نام پر سیاست کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے ۔ تعلیم کے نام پر اپنا ووٹ بینک بنائے جارہے ہیں ۔ ہر ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں پر ہوتا ہے ۔ اس وقت سندھ میں تعلیمی اداروں کی حالت بھی انتہائی غیر معیاری ہے، اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے سندھ کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں لاکھوں بچے کھلے آسمان اور خستہ حال اسکولوں کی عمارتوں میں اپنی تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہیں اور 70 لاکھ سے ذائد بچے اپنی تعلیم سے قطعی طور محروم ہیں . اسکولوں کی عمارتیں تک کمزور ہوچکی ہیں، سرکاری اسکولوں کی حالت ناقابل بیان ہے ، جس میں عام طور پر صرف غریبوں کے بچے ہی داخل ہوتے ہیں۔ سندھ حکومت محکمہ ایجوکیشن ورکس میں کراچی سمیت سندھ کے ہر بڑے شہر حیدرآباد ، دادو، نوابشاہ ، جیکب آباد ، سکھر ، میرپور خاص اور لاڑکانہ وغیرہ کے اسکولوں کی تعمیرومرمت کے نام پر بڑے پیمانے پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے انکشافات مختلف ادوار میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں آتے رہتے ہیں مگر حکمرانوں کے سر پر کوئی جوں تک نہیں رینگتی پر محکمہ ایجوکیشن ورکس کرپشن اور بدعنوانیوں کا گڑھ بن گیا ہے جہاں تعلیم کے نام پر بڑے پیمانے پر ٹھیکوں کی خریدوفروخت کا بازار گرم رہتا ہے اور اربوں روپے کے ٹھیکوں کی بندر بانٹ کی جاتیں ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں کی حالت بہتر کی جائے تاکہ یہ اسکول بھی آبادی کے ہر طبقے کو اپنی طرف کھینچ سکیں , موجودہ صنعتی دور کا اس وقت تک مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جب تک نوجوان تعلیم یافتہ نہ ہوں۔ بدقسمتی سے سندھ کی حکمران پارٹی ہی کے ادوار میں یہ سب چیزیں خراب ہوئی ہیں۔ سندھ اس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں صرف انتظامی اقدامات سے تعلیم کی صورت حال بہتر نہیں بنائی جا سکتی۔ صوبائی حکومت کے دعووں اور کوششوں کے برعکس تعلیم کی صورت حال پر سالانہ جاری ہونے والے سروے میں سندھ کے معیارِ تعلیم کو بدترین قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ غیر مؤثر لیڈر شپ، کمزور و غیر ضروری تعلیمی نظام اور پالیسیاں ، بد انتظامی اور عملدرآمد و نگرانی کا فقدان بھی سندھ کی تعلیم کی بہتری میں بڑی رکاوٹ ہیں . محکمۂ تعلیم کے اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں 43 ہزار پرائمری سکول ہیں جن میں 30 لاکھ کے قریب بچے داخل ہیں جب کہ 99 ہزار اساتذہ انھیں پڑھانے پر مامور ہیں رواں سال ماہ اپریل سے تاحال 7 ہزار سے زائد اسکول بند ہیں مگر عملے کو کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں دیئے جا رہے ہیں جو سندھ حکومت اور وزارت تعلیم کی کارکردگی کا آئینہ ہے،ایچ آر سی پی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں فقط 31 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں جبکہ 69فیصد بچے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں . ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں کل اسکولوں کی تعداد میں سے 90فیصد 47.394 اسکول پرائمری اسکول میں صرف ایک فیصد اسکولوں میں سیکنڈری سطح تک تعلیم دی جاتی ہے ، سرکاری اسکولوں میں سے بیشتر میں پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی سہولتیں تک کا فقدان ہے .( سندھ کے ایک سابق صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے کچھ سال پہلے صوبائی اسمبلی کو بتایا تھا کہ صوبے میں چار ہزار سکول غیر فعال ہیں ) اب اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارا تعلیمی معیار کہاں کھڑا ہے . سندھ کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی تعلیم کے فروغ کے لئے ایک اہم مسئلہ ہمیشہ سے رہی ہے۔ سندھ میں اساتذہ کی بڑی تعداد تعلیمی اداروں میں سیاست کے زیر اثر تعلیم دینے پر مجبور ہیں. سندھ کے کالجوں میں اساتذہ کی کمی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی دباؤ ہے. اساتذہ گھر کے نزدیک تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے خواہشمند ہوتے ہیں، جس سے سندھ کے دور دراز تعلیمی اداروں خصوصا دیہی علاقوں میں اساتذہ کی کمی ہے جو طلبہ و طالبات کے تعلیمی مستقبل کے لئے تشویشناک ہے۔ تعلیم ایک ایسا لازوال خزانہ ہے جو قوموں کو پستی سے اُٹھا کر بلندیوں تک لے کے جاتا ہے. یہ ترقی کا واحد زریعہ ہے مگر تعلیمی نظام کو تباہ کرکے حکمرانوں نے ملک کی معشیت کے ساتھ ظلم کیا ایک کامیاب معاشرے کی تشکیل اور قومی سلامتی کی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی اور دنیاوی دونوں علوم ناگزیر ہیں پاکستان میں خصوصاً سندھ میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے ہمیں سیاست سے آزاد ہو کر اجتماعی سطح پر کوشش کرنی ہو گی ، اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ نظام تعلیم کو بہتر بنایا جا سکے اور اس مغلوب نظام تعلیم کو ان بے تعلیم لوگوں کے چنگل سے آزاد کروایا جا سکے ۔ہمیں ایسے ماڈل نما اسکول بنانا چاہیں جہاں ایک ایسی دنیا ہو جہاں انسانیت اور انصاف ہوں جہاں بچے اچھے انسان بنیں اور انھیں مذہب، فرقے اور سماجی رتبے کی تفریق نہ سکھائی جائے۔ جس کا خمیازہ یہ 74 سالوں سے بھگت رہی ہے.

Engr Shahid Siddique Khanzada
About the Author: Engr Shahid Siddique Khanzada Read More Articles by Engr Shahid Siddique Khanzada: 392 Articles with 190723 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.