میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
شیخ الاسلام حضرت سلام اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے " کشف الغطاء
عما لزم الموتی علی الاحیاء" فصل ہشتم میں فرماتے ہیں (ترجمہ ) کہ مومنین
کی روحیں ہر شب جمعہ ، عید کے روز ، یوم عاشورہ اور شب برات کو اپنے اپنے
گھر کے باہر آکر کھڑی ہوتی ہیں اور ہر روح غمناک اور بلند آواز سے کہتی ہیں
کہ اے میرے گھر والوں ، میری اولادوں ، میرے رشتہ داروں صدقہ کرکے ہم پر
مہربانی کرو حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ ہر جمعہ کے دن قبروں میں مرحومین
انتظار کرتے ہیں کہ آج ہمارے پاس کوئی ائےگا ۔ان احادیث کی روشنی میں ہمارا
یہ عقیدہ ہونا چاہیئے کہ مومن کوئی بھی ہو چاہے وہ کوئی عام انسان ہو کوئی
اولیاء کرام ہوں کوئی صحابئہ کرام ہوں یا انبیاء کرام کی ذات ہو دنیا سے
جانے کے بعد اپنی اپنی قبروں میں حیات ہیں نہ صرف حیات ہیں بلکہ ہمارے لئے
فیوض و برکات کا سلسلہ بھی ان سے جاری و ساری رہتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس سے پہلے کہ میں مرحومین کے وصال کے بعد
بھی فیوض و برکات کے جاری رہنے کی بات کو قران و حدیث سے بتائوں سب سے پہلے
میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بات اور وہ فیض جو میں نے خود حاصل کیئے ان کے
بارے میں بتانا چاہوں گا یہ بات زیادہ پرانی نہیں ہے جب مجھے میرے بڑے بیٹے
نے کہا کہ پاپا میں چاہتا ہوں کہ میں آپ اور امی جان کو عمرہ کروائوں تو
میں یکدم حیران وپریشان ہوگیا کیوں کہ صاف اور سچی بات یہ ہے کہ جب میں
اپنے جانے انجانے میں کیئے ہوئے گناہوں کی طرف دیکھتا تھا تو مجھے یہ بلکل
بھی یقین نہیں تھا کہ زندگی میں مجھ جیسے گناہ گار کا بھی بلاوہ آسکتا ہے
لیکن بیشک اگر دل میں تڑپ اور جانے کی آگ ہو تو بلاوہ ضرور آجاتا ہے بحر
حال یوں اگست 2022 میں میرا بڑا بیٹا اس کی وائف میں اور میری وائف ہم چار
افراد یہاں سے روانہ ہوگئے المختصر یہ کہ ایک دفعہ سب لوگ تھکے ہوئے تھے
اور حرم مکہ میں جاکر ایک جگہ پر بیٹھکر کچھ وظائف پڑھنے کی غرض سے بیٹھے
جہاں سے خانئہ کعبہ کا صاف طور پر دیدار کررہے تھے کہ میرا دل چاہا کہ میں
ایک نفلی عمرہ ادا کرلوں تو میں اٹھا ان لوگوں سے کہا اور عمرہ کی نیت کرکے
طواف کعبہ میں مشغول ہوگیا جب میرا طواف مکمل ہوا تو مقام ابراھیم کی سیدھ
میں بیٹھ کر ایک جگہ دو رکعت نفل پڑھنا شروع کردیا جب میں دو رکعت سے فارغ
ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری جھولی میں 10 ریال کا نوٹ پڑا ہوا ہے میں نے
اپنے اطراف میں دیکھا لیکن مجھے کوئی نظر نہیں آیا میں اس نوٹ کو بغور
دیکھنے میں مصروف تھا کہ ایک شخص نے عربی میں کچھ کہا اور چلاگیا قریب ہی
ایک صاحب بیٹھے تھے مجھ سے کہنے لگے کہ یہ بندہ عربی میں کہ رہا تھا کہ یہ
اللہ تبارک وتعالی نے تمہیں بھیجا ہے اور اس نوٹ کو باعث برکت اپنے پاس
رکھنا میں نے سوچا کہ اتنی بیشمار پبلک میں اس باری تعالی نے مجھے کیوں چنا
میں نے شکر ادا کیا اور وہاں سے اٹھ کر صفا مرواہ کی طرف روانہ ہوگیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مکہ مکرمہ کے مخصوص ایام مکمل کرنے کے بعد
ہم لوگ مدینہ شریف پہنچے مکہ مکرمہ سے مدینے کی طرف ہم بائے روڈ گئے تھے
لہذہ سفر لمبا تھا سپہر 2 بجے ہم نکلے تھے اور رات 8 بجے ہم مدینہ پاک
پہنچے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جو کوئی مدینہ
پاک آئے تو پہلے میرے چچا جناب حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کے مزار شریف پر
یعنی سیدالشہداء جائے اور پھر اس کے بعد میرے پاس حاضری دے ہم چونکہ سفر کی
وجہ سے تھکے ہوئے تھے لہذہ آرام کرکے صبح جانے کا پروگرام بنا کر سوگئے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بدھ کی رات سیدالشہداء کے مزار پر کچھ الگ
ہی رونق ہوتی ہے جب بدھ کی رات وہاں پہنچے تو دیکھا کہ جیسے میلے کا سماع
ہے لوگوں کا رش اور جگہ جگہ پر لنگر کا اہتمام اور جس کے ہاتھ میں جو کچھ
تھا وہ نظرونیاز میں مصروف تھا مختلف کھانے پینے کی اشیاء کے اسٹال لگے
ہوئے تھے کہ میری نظر آئسکریم کے ایک اسٹال پر پڑی میرا دل چاہا کہ میں
آئسکریم کھائوں لیکن جیب خالی تھا اس لئے خاموشی کے ساتھ مزارات کی طرف
چلدیا جب فاتحہ خوانی سے فارغ ہوئے تو سامنے مسجد کی سیڑھیوں پر جہاں لوگوں
کی کثیر تعداد موجود تھی ہم بھی بیٹھ گئے اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک
نوجوان جس کے پاس ایک شاپر تھا وہ میرے بیٹے کے ہاتھ میں دیکر چلا گیا جب
دیکھا تو اس میں آئسکریم کے چار عدد کون تھے میرے بیتے نے اسی وقت کہا کہ
پاپا آپ کے لئے آئسکریم اگئی میں حیران و پریشان تھا پھر سوچا کہ جس ہستی
کے مزار پر میں آیا ہوں وہ خواہش کیسے پوری نہیں کرتے یہ ہے کرامت
سیدالشہداء اور ان کا فیض ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مدینہ پاک میں ہمارا 9 دن کا ٹور تھا جس
میں چار دن گزر چکے تھے مدینہ پاک میں میری سب سے بڑی بہن کی رہائش بھی ہے
اور کافی عرصہ سے وہ وہاں پر مقیم ہیں میں ان سے ملنے جب پہنچا تو مجھے
ہمارے بہنوئی نے کہا کہ کیا تم نے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے روضہ
مبارک کی زیارت کے دوران کچھ طلب کیا تو میں نے کہا نہیں تو انہوں نے مجھے
کسی مسافر کا قصہ سنایا جو میرے ذہن میں بیٹھ گیا عام طور پر میں میٹھا
کھانے شوقین ہوں جب مکہ مکرمہ میں 8 دن اور مدینہ پاک میں ابتک گزرے ہوئے 4
دن کا ذکر کریں تو اب تک کسی قسم کا کوئی میٹھا یعنی میٹھی چیز نہیں کھائی
تھی بحر حال ایک دفعہ شام کا وقت تھا اور ہم لوگ روضئہ رسول صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم کی حاضری پر جارہے تھے اور جب میں روضہ مبارک کے بلکل سامنے
پہنچا تو میرے منہ سے نکلا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کچھ
میٹھا کھانے کا دل میں ہے کرم فرمایئے بس یہ کہکر میں باہر آگیا اچھا ہم
لوگ روزانہ رات عشاء کے بعد سے لیکر رات دیر تک سبز گمبند کے نیچے ایک پلر
کے پاس بیٹھ جاتے تھے اور حمد ونعت کی محفل سجاکر مصروف ذکر ہوجاتے اس دن
بھی ہم وہاں جاکر بیٹھ گئے اس وقت رات کے ڈیڑھ یا دو بجے کا وقت تھا کہ میں
نے دیکھا دو اشخاص ایک ٹرالی لئے آئے اور ہم سے پوچھا کہ کھانا کھائوگے تو
ہم نے کہا ہاں ضرور تو ان لوگوں نے دو شاپر ہمیں دیئے جس میں مرغی کا سالن
سبزی کا سالن اور روٹیاں تھیں ہم نے آرام سے کھانا کھایا لیکن جب وہ شاپرز
ڈسٹ بین میں ڈالنے لگے تو محسوس ہوا کہ ابھی اور بھی کچھ ہے اور جب دیکھا
تو دو عدد چھوٹی چھوٹی تھیلیاں جس میں سوجی کا حلوہ تھا موجود تھیں جسے
دیکھکر میں نے بے اختیار کہا کہ یہ مجھے دےدو یہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم نے میرے لیئے بھیجا ہے اور آپ یقین کریں کہ وہ حلوہ میں نے اس طرح
کھایا جیسے میں کئی دنوں کا بھوکا ہوں اور کیوں نہ کھاتا کہ میرے عقیدہ میں
اور مظبوطی آگئی تھی کہ واقعی میں نے روضہ رسول صلی للہ علیہ والیہ وسلم پر
عرضی پیش کی اور میٹھا کھانے کو مل گیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں المختصر یہ کہ یہ تو وہ معاملات تھے جو
میرے ساتھ پیش ائے اور جن کی وجہ سے میرے مظبوط عقیدے میں اور پختگی آگئی
اور یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے کہ ہر مومن اپنی قبر میں زندہ ہے اور اگر اس
کا مقام دنیا میں کسی طرح سے اللہ تبارک وتعالی کے خاص اور چنے ہوئے لوگوں
میں ہوتا رہا ہو تو پھر بعدازمرگ بھی ان کے مزارات سے فیوض و برکات کا
سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے اور لوگ اس سے مستفید ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ
ہی نہیں بلکہ اگر کوئی ایسی شہ یا چیز جس کی نسبت کسی اللہ تبارک وتعالی کے
خاص اور چنے ہوئے لوگوں سے ثابت ہوجائے تو اس چیز یا شہ کی بھی ہم زیارت
کرکے فیض حاصل کرسکتے ہیں جسکی زندہ مثال کعبتہ اللہ کے اندر نسب کیا ہوا
وہ پتھر جسے جنت کا پتھر یعنی حجر اسود کہا جاتا ہے اور جس کا بوسہ لینے کے
لیئے اہل ایمان مسلمانوں کا ایک جم غفیر چوبیس گھنٹے آپ کو نظر آتا ہے کیا
آپ جانتے ہیں کہ حجر اسود کا بوسہ کیوں لیاجاتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ نہیں ہے
کہ یہ جنتی پتھر ہے بلکہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو طواف
کعبہ کا موقع ملا تو حجراسود کی دیکھکر رک گئے اور کہنے لگے کہ میں تجھے اس
لیئے بوسہ نہیں دے رہا کہ تو جنتی پتھر ہے بلکہ تجھے میرے سرکار صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم نے بوسہ دیا ہے اس لیئے میں ان کی سنت ادا کرتے ہوئے تجھے
بوسہ دے رہا ہوں تو گویا اہل ایمان اور اہل عقیدہ لوگ حجر اسود کو نسبت
رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی وجہ سے بوسہ دیتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ
تزکرہ الاولیاء کے صفحہ نمر 344 پر بیان کرتے ہیں کہ " سلطان محمود غزنوی
کے پاس خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک جبہ مبارک تھا سومنات
کی جنگ میں ایک موقع پر ایسا خدشہ ہوا کہ مسلمانوں کو شکست ہوجائے گی ،
سلطان محمود غزنوی اچانک گھوڑے سے اتر کر ایک گوشے میں چلے گئے اور جبہ کو
ہاتھ میں لیکر سجدے میں گر گئے اور دعا مانگی :
" یا اللہ ! اس جبہ والے کی برکت سے ہمیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما
اور مال غنیمت جو ہاتھ آئے گا وہ درویشوں کے لیئے صدقہ ہوگا "
اس کے بعد شیخ فریدالدین عطار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اچانک دشمن کی
طرف سے شور اٹھا اور تاریکی چھا گئی کافر آپس میں ہی ایک دوسرے کو قتل کرنے
لگے اور منتلف حصوں میں بٹ گئے جس کی وجہ سے لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی
۔اس رات کو ہی محمود غزنوی نے خواب میں حضرت ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ
علیہ کو بیان کرتے سنا کہ
" اے محمود ! تم نے دربار الہی میں ہمارے جبہ کی قدر و منزلت کو نہیں سمجھا
اور قدر نہیں کی اگر اس وقت تم اللہ رب العزت سے کافروں کے لیئے قبولیت
اسلام کی درخواست کرتے تو اس جبہ کی برکت سے سارے کافر اسلام قبول کرلیتے "
(شیخ فریدالدین عطار علیہ رحمہ تذکرہ اولیاء 345 )
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب آیئے قران کی طرف سورہ یوسف میں حضرت
یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بڑی
طوالت کے ساتھ بیان ہوا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں
دھوکے سے کنویں میں ڈال دیا تو مصر کے چند تاجر انہیں اپنے ساتھ مصر لے گئے
، جس کی وجہ سے باپ بیٹے کی جدائی میں کئی سال بیت گئے لیکن حضرت یعقوب
علیہ السلام اپنے بیٹے کی جدائی کو بھلا نہ سکے اور وہ اتنا روئے اتنا روئے
کہ آپ علیہ السلام کی بینائی جاتی رہی اور وہ نابینا ہوگئے کئی سال کے بعد
حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کے توسط سے اپنے والد کی بینائی
جانے کا علم ہوا تو آپ علیہ السلام نے اپنی قمیض تبرک کے طور پر اپنے والد
حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس بھیجی حضرت یوسف علیہ السلام کی اس بات کو
سورہ یوسف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ترجمہ "حضرت یوسف علیہ السلام نے
فرمایا کہ یہ میری قمیض لیجائو اور اسے میرے والد حضرت یعقوب علیہ السلام
کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہوجائیں گے"
(یوسف ، 12 : 93 )
اس کے بعد قران نے اس واقعے کو یوں بیان کیا ترجمہ
" اور پھر جب اس قمیض کو یعقوب ( علیہ السلام ) کے چہرے پر ڈال دیا تو آپ
علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی ۔ ( یوسف 12 : 96)
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام
کے درمیان قمیض کا واسطہ کیا جس کے سبب آپ علیہ السلام کی بینائی واپس آگئی
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک وتعالی بغیر کسی واسطے یا تبرک کے
حضرت یعقوب علیہ السلام کو بینا کرسکتا تھا لیکن اس واقعہ سے اللہ تبارک
وتعالی نے اپنے انبیاء سے مس شدہ چیزوں کی برکت کا اظہار فرمایا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی کے خاص اور چنے ہوئے
لوگوں کی باتوں اور ان کے واقعات سے ہم فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں تو ان
سے نسبت والی ہر چیز سے فیوض و برکات بھی حاصل کرسکتے ہیں کیوں کہ ہمارا
عقیدہ ہونا چاہیئے کہ اہل ایمان اور مومن اپنی اپنی قبروں میں حیات ہیں
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں اپنے خاص اور چنے
ہوئے لوگوں سے محبت عطا فرمائے اور ان کی حیاتی میں ان سے فیوض و برکات
حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے اور ان کے وصال کرجانے کے بعد بھی ان سے
فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
|