اسلامیہ کالج یونیورسٹی ، صبر برداشت کی کمی اورگورنر کی ذمہ داری
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
صوبائی دارالحکومت پشاور میں واقع تاریخی اسلامیہ کالج جو اب یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے میں ہفتے کی روز سپورٹس گراﺅنڈ میں پیش آنیوالے واقعے نے کھیلوں کے شعبے سے وابستہ بہت ساری چیزوں کو آشکار ہ کردیا ہے.اسی یونیورسٹی کے طالب علم کی جانب سے اس معاملے میں اب پشاور یونیورسٹی کے تھانے میں درخواست بھی جمع کی گئی ہیں جس میں یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ انہیں ماں بہن کی گالیوں کیساتھ ساتھ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں جس پر کارروائی کی جائے. جس پر کاروائی ہونے کا بھی امکان ہے.
موجودہ دور میں کھیلوں کے گراﺅنڈ آباد کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ موبائل فون کے بے تحاشہ استعمال سمیت کمپیوٹر اور منشیات کے بے دریغ استعمال نے ہمارے نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں کی جانب متوجہ کیا ہے جو نہ صرف ہمارے موجودہ بلکہ مستقبل کیلئے بھی خطرناک ہے اور اگر ان نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں اور گراﺅنڈز کی طرف متوجہ نہیں کیا گیا تو پھر یقینا صورتحال اس سے زیادہ ابتر ہوگی جس کا خمیازہ اس معاشرے کے ہر ایک شخص کو بھگتنا پڑے گا.
اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی کے گراﺅنڈ پر پیش آنیوالے واقعے کے حوالے سے یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ طالب علم نے وہاں پر موجودہ طلباءتنظیم کے چیئرپرسن ہے نے کھلاڑیوں کیلئے گراﺅنڈز کا مطالبہ کیا اور کئی مرتبہ فزیکل ایجوکیشن کے انسٹرکٹر سے ملاقات کیلئے کوششیں کی تاہم انہیں وقت نہیںدیا گیا اور گراﺅنڈز میں تالہ لگنے کی وجہ سے اس یونیورسٹی کے طلباءکو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے. اسی بناءپر طالب علم نے ویڈیو بنائی جس پر لڑائی ہوئی .جس کی ویڈیو وہاں پر موجو د افراد نے بنائی او ر یہ انٹرنیٹ پر وائرل بھی ہوگئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ طالب علم کو ماں اور بہن کی گالیاں بھی سننی پڑ رہی ہیںجو کہ قابل افسوس اور شرمناک فعل ہے کیونکہ اساتذہ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ طلباءکیلئے مشعل راہ ہوتے ہیں .اور ویسے بھی اگر طالب علم کی غلطی تھی تو یہ کونسی تک ہے کہ ان کی گھر بیٹھی ماں اور بہن کو گالی دی جائے.ساتھ میںطالب علم کومارنے کی کوشش بھی کی جائے. ویسے اوور آل اس میں غلطی طالب علم کی بھی ہوسکتی ہے لیکن طالب علم کو اس نہج پر لانے والے کون ہیں اور کیوں طالب علم کو اپنے حق کیلئے ویڈیو بنانی پڑ رہی ہیں یقینااس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا. اسلامیہ کالج یونیورسٹی جس کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی جائیداد سے حاصل ہونیوالے سرمایہ دیا تھا . کی الگ ایک پہچان اور روایت ہے ایسے میںسوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی یہ ویڈیو جس میں طالب علم کو پشتو زبان میں ماں اور بہن کی گالیاں سننی پڑ رہی ہیں دنیا بھر میں اس عظیم ادارے کے پڑھانے والوں کا بہترین " اسکیچ "سامنے لائے گی .
کھلاڑ ی اور فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹر کے مابین پیش آنیوالا واقعہ کیا صورت اختیار کرے گا کیونکہ ایک طرف سے آڈیو پر گالیاں اور دھمکیاں بھی وائرل ہیں تو دوسری طرف سے اس حوالے سے درخواست بھی پشاور یونیورسٹی میں واقع یونیورسٹی کے کیمپس میں پولیس کو بھی دی گئی ہیں جس کا پتہ آنے والے وقت میں ہی چل سکے گا.کیونکہ طالب علم نے بھی جینوئن سوالات اٹھائے ہیں جس میں سابق سپورٹس ڈائریکٹریٹ عرفان مروت کے انتقال کے بعد کھلاڑیوں کے ختم ہونے سمیت سرکاری ملازمت کیساتھ ساتھ ٹی وی پر ملازمت کیلئے این او سی جو حکومت کی جانب سے جاری ہوتی ہیں سمیت متعدد اہم سوالات اٹھائے ہیں جس پر ارباب اقتدار سمیت چانسلر ، وائس چانسلر اور طباءتنظیموں کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے.
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاو ر میں پیش آنیوالے واقعہ ایک طرف اساتذہ میں صبر و برداشت ختم ہونے کی نشاندہی بھی کرتا ہے تودوسری طرف سے ا س بات کابھی پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی اداروں کے گراﺅنڈز پر کیاہورہا ہے یہ صرف اس وقت اسلامیہ کالج کا نہیں بلکہ صوبے کے تمام کالجز ویونیورسٹیوں میں تعینات افرادکی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے .
کیا ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کسی ایسے شخص کو تعینات کیا جاسکتا ہے کہ کسی کھیلوں کی تنظیم کے عہدیدار ہو ، کیا ٹی وی چینل سے وابستہ شخصیت کسی سرکاری ادارے میں ملازمت کرسکتی ہے اور کیا صوبے کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعینات ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن کی تعلیمی اہلیت کسی نے چیک بھی کی ہے کہ صوبے کے کس پرائیویٹ یونیورسٹی نے صرف فیس کی ادائیگی کے بدولت ڈگریاں تقسیم کی ہیں اور کیا ان ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ خود کس کھیل سے وابستہ رہے ہیں اور اب تک اپنی تعیناتی کے دوران انہوں نے کتنے صوبائی ، قومی اور بین الاقوامی کھلاڑی پیدا کئے ہیں یا پھر صرف خانہ پری کرتے ہوئے کالج یا یونیورسٹی کے ایک ہی کلاس کے بچوں اور خصوصا بچیوں کو کبھی کرکٹ میں ، کبھی ہاکی میں اور کبھی بیڈمنٹن میں مقابلے میں لاکر اپنی نوکریاں کررہی ہیں اس معاملے میں خیبر پختونخواہ کے گورنر غلام علی جو خود بھی ایک عرصہ تک کھیلوں کے شعبے سے وابستہ رہے .سروے اور ریسرچ کرنے کی ہدایت کرنی چاہئیے کہ متعلقہ ڈی پی ایز سمیت سپورٹس ڈائریکٹر جو مختلف کالج اور یونیورسٹیوں میں کئی دہائیوں سے تعینات ہیں کی انکوائری کریں کہ اب تک ان ڈی پی ایز اور ڈائریکٹر سپورٹس نے کتنے کھلاڑی پیدا کئے ، کتنے اس وقت فیلڈ میں ہیں اور یہ کتنے مراعات اس وقت عوامی ٹیکسوں کے لے رہے ہیں.
یہ انکوائری و ریسرچ نہ صرف بہت سارے "دو نمبری" کرنے والوں کو سامنے بھی لائے گی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سمیت انہیں سیاسی بنیادوں پر تعینات کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جانی چاہئیے تاکہ مستقبل میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور جیسے واقعات رونما بھی نہ ہوں.اور حقیقی معنوں میں کھیلوں کے شعبے سے وابستہ افراد ہی آگے آسکیں. #kikxnow #digitalcreator #sportsnews #islamiacollege #peshawar #pakistasn #historical #university
|