خونگی بالا بیڈمنٹن ہال، معاہدہ منظر عام پر لانے کا مطالبہ


تیمرگرہ کے علاقے خونگی بالا میں واقع بیڈمنٹن ہال کم و بیش دو ہفتے سے مکمل طور پر بند ہے اور یہاں پر کھیلنے کیلئے آنیوالے کھلاڑیوں کو کھیلنے سے منع کیا جارہا ہے پہلے تو یہ کہا گیا کہ یہ مکمل طور پر بند ہے اور اب بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کیلئے وقت مقررہ کیا گیا جسے اب یہ کہہ کر مکمل طور پر بند کردیا گیا کہ ہر کھلاڑی چھ ہزار روپے جمع کرائے گا تبھی یہاں پر بیڈمنٹن کھیلنے کیلئے آسکے گا ورنہ دوسری صورت میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی جائیگی.یہ بیڈمنٹن ہال جس پر صوبائی حکومت کے فنڈز لگے اس غریب صوبے کے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اس ہال پر لگایا گیا اور اب تیمرگرہ کی ضلعی انتظامیہ سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے وہاں پر تعینات اہلکاروں میں اتنی جرات نہیں کہ جا کر پوچھ سکیں کہ کون سے پرائیویٹ لوگوں نے اس بیڈمنٹن ہال پر قبضہ کیا ہے اور اس کے ساتھ واقعہ واش روم اور دیگر چیزیں کیوں ایک پرائیویٹ سکول استعمال کررہا ہے.بیڈمنٹن کیلئے بنائے گئے اس ہال کے میٹ پر کرسیاں رکھنے اور پرائیویٹ تقاریب ہونے کی تصاویر بھی وائرل ہے. لیکن مجال ہے کہ کسی نے اس بارے میں سوچنے کی زحمت کی ہو کہ لاکھوں روپے کے اس میٹ پر کس طرح کرسیاں رکھی گئی ہیں.

خونگی بالا سے تعلق رکھنے والے بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کی شکایت آنے پر وہاں پر تعینات ڈسٹرکٹ افسر نے اپنے اعلی افسران کے آنکھوں میں خالص سرمہ لگاتے ہوئے اپنی طرف سے یہ بیان جاری کردیا کہ ڈپٹی کمشنر لوئر دیر اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کے احکامات و ہدایات پر پر بیڈمنٹن ہال کو کھول دیا گیا اور چار بجے سے آٹھ بجے تک یہاں پر بیڈمنٹن کے کھلاڑی کھیل سکیں گے.جس کے بعد خاموشی چھا گئی.ضلعی انتظامیہ اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران نے اس بیان کو غنیمت سمجھ کر آنکھیں بند کرلی. لیکن انہوں نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ.. ایک سرکاری بلڈنگ جو صرف بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کیلئے بنایا گیا ہے کو کس طرح پرائیویٹ لوگوں نے اپنے قبضے میں کئے رکھا ہے، وہاں پر ایک سکول کی جانب سے اس بیڈمنٹن ہال کی طرف دروازہ نکالا گیا اور کیوں بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کو نکالا جارہا ہے.یہ کیسا قانون ہے کہ بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کو سرکاری ہال سے نکالا جارہا ہے کیا لوئر دیر کی ضلعی انتظامیہ سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکار اس علاقے میں اتنے کمزور اور عاجز ہیں کہ سرکاری املاک کی حفاظت نہیں کرسکتے یا پھر کہانی کچھ اور ہے. ساتھ میں کیا وہاں پر تعینات ڈی ایس او جو کم و بیش لاکھ روپے تنخواہ کی مد میں سرکاری خزانے سے انہیں غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ لیتے ہیں کیا انہیں اپنی ڈیوٹی کا نہیں پتہ کہ انہیں کرنا کیا ہے یا پھر وہ صرف احکامات و ہدایات پر عملدرآمد کیلئے وہاں پر تعینات ہیں.

اصل بات یہ ہے کہ یہ بیڈمنٹن ہال سال 2016میں بنایا گیا جس کیلئے زمین اس علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے دی تھی بیڈمنٹن ہال بنانے کیلئے معاہدہ کونسا کیا گیا یہ معاہدہ کس کے پاس ہے اور اس میں کتنی شقیں دی گئی اور کس نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ یہاں پر زمین دینے والے شخص کے لوگوں کو ملازمت دی جائیگی. یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو پوچھنے کا ہے کیونکہ سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کے اس حوالے سے واضح احکامات ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری ادارے کو زمین دیتا ہے تو اس پر نوکری نہیں دی جاسکتی اور یہ سارا عمل ہی غیر قانونی ہے.ایسے ہی متعدد کیسز پشاور کورٹ نے بھی خارج کردئیے تھے جس میں کچھ لوگوں نے اپنی زمین سرکار ی عمارات کیلئے دی اور بعد میں یہ ڈیمانڈ کیا کہ ہمیں ملازمت دی جائے. اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی نے سرکاری بلڈنگ کیلئے زمین دی ہیں تو پھر معاہدہ کس نے کیا ہے اور اس غیر قانونی عمل میں کون کون شریک ہیں جس کے خلاف تحقیقات کی ضرورت ہے. او ر یہ معاہدہ منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے.

کم و بیش سات سال بننے والے اس بیڈمنٹن ہال پر کچھ عرصہ قبل ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کی جانب سے دو افراد صفائی کیلئے مامور تھے ڈیلی ویج بنیادوں پر کام کرنے والے یہ ملازمین کچھ عرصہ تک کام کرتے رہے جنہیں بعد ازاں یہاں پر مقیم افراد نے جھگڑا کرکے نکال دیااور انہوں نے اپنا تالہ لگا دیا .زمین دینے والے افراد کا موقف ہے کہ ہمیں ملازمت دی جائے ورنہ دوسری صورت میں انہوں نے ترکیب نکالی ہے کہ کم و بیش بائیس کے قریب بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کو کھیلنے کیلئے نہیں چھوڑا جارہا.صوبہ خیبر پختونخواہ کے دور دراز اس علاقے میں کم و بیش بائیس سے تیس بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کیلئے تیمرگرہ میں یہ واحد بیڈمنٹن ہال ہے جس پر تالہ پرائیویٹ افراد کی جانب سے لگایا گیا ہے حالانکہ یہ سرکار کے فنڈز سے بنایا گیا.بیڈمنٹن ہال میں پانی تک دستیاب نہیں،چینجنگ روم نہیں، واش روم کی صفائی کوئی نہیں کرتا، جس کی وجہ سے ڈسٹنگ ہوتی ہیں سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ بجلی کا بل کبھی کبھار کھلاڑی ادا کرتے ہیں اور کبھی کوئی،جس کا کوئی ریکارڈ تک نہیں.

سال 2022 دسمبر میں یہاں پر بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے انتخابات کیلئے خط بھی جاری کیا گیا پھر ایک ہفتے بعد اسے روک دیا گیا اور یہ سب کچھ پشاور سے کروایا گیا، اس پر عملدرآمد کب ہوگا یہ ایک الگ کہانی ہے، کیونکہ کلب کی سطح پر رجسٹریشن تو ابھی تک کسی نے نہیں کی کہ کتنے کلب اس علاقے میں بیڈمنٹن کے واقع ہیں اور سال 2000 کے بعد اس علاقے میں بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کا کوئی انتخاب ہی نہیں ہوا ایسے میں صرف بیڈمنٹن کے کھلاڑی اپنی آواز کہاں تک پہنچ سکتے ہیں یہ بھی بڑا سوالیہ نشان ہے نومبر 2022 میں اس علاقے کے کھلاڑیوں نے اپنی رجسٹریشن کی تھی اور یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ماہانہ تین سو روپے فیس ادا کرینگے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب چل رہا ہے، کچھ کھلاڑیوں کی رجسٹریشن کرکے ان سے پیسے وصول کئے جارہے ہیں اور جو پسندیدہ لوگ وہاں پرائیویٹ ادارے کے ہیں ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آپ کی رجسٹریشن کہاں پر ہے اور کتنی رقم ادائیگی کی گئی ساتھ میں انہیں دی جانیوالی سہولیات کیا ہے اس بارے میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس لوئر دیر بھی خاموش ہیں کیونکہ سہولیات دینا بھی سرکاری اہلکار کی ذمہ داری ہے. صرف تنخواہیں لینے اور فیسوں کی وصولی سے کام نہیں بنتا.

موجودہ حالات میں جب عام عوام اور خصوصا نوجوا ن طبقے کو اگر مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب نہیں کیا گیا اور انہیں سہولیات نہیں دی گئی تو پھر ہمارے مستقبل کے یہی معمار آئس اور دیگر منشیات سمیت غلط دھندوں میں پڑ کر نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کیلئے عذاب بنیں گے ایسے میں سرکاری اداروں میں اعلی عہدوں پر بیٹھے افراد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئیے کہ اگر یہ کسی اور کے بچے ہیں اور انہیں یہ کہہ کر دھتکارا جائے کہ "ہم کسی کے نوکر نہیں " اور کھلاڑیوں کو یہ کہا جائے کہ ہمارے خلاف خبریں چلاؤ گے تو ہم ایسے ہی کرینگے تو پھر حالات کس نہج پر پہنچیں گے یہ الگ بات ہے لیکن اگر یہی سرکاری افسران عوام کے بچوں کا خیال کریں گے تو نہ صرف اپنی تنخواہ حلال کرینگے بلکہ اپنے بچوں کا بھی بھلا کرینگے.کیونکہ دوسروں کے بچوں کا بھلا سوچنے والوں کیساتھ اللہ تعالی کبھی زیادتی نہیں کرتا.
#sports #directorate #kpk #kp #badminton #taimergara #sportsdirectorate #pakistan #players #badmintonhallisuee #khongibala

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413777 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More