تیسرا روزہ تھا تقریبا شام کے 5 بج رہے تھے ڈاکٹر عمر
صاحب عباسی شہید ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے اندر ڈیوٹی پر معمور تھے وہ
اپنی کرسی پر بیٹھے موبائل پر قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک سے
نرس دوڑ کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آئی اور کہنے لگی سر جلدی سے وارڈ میں آئیں
ایک مریض بہت سیریس حالت میں لایا گیا ہے ڈاکٹر صاحب نے موبائل بند کیا اور
دوڑ کر گئے جب انھوں نے دیکھا تو ایک بہت خوبصورت نوجوان کو لایا گیا تھا
جس کے سر پر گولی لگی ہوئی تھی خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا مگر نوجوان کے
حواس ابھی قائم تھے ڈاکٹر صاحب نے یونیفارم پہن رکھا تو لڑکے نے پہچان لیا
اور ڈاکٹر کو دیکھ کر اس نے التجا کی کہ ڈاکٹر صاحب میری موت کی خبر میرے
گھر والوں کو نہ دیجئے گا اور ساتھ ہی اس نے ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے
ڈاکٹر صاحب حیرت میں مبتلا ہو گئے کہ میں اسے بچانے کے لیے پر امید ہو لیکن
وہ عجیب باتیں کر رہا ہے شاید وہ شخص یقینی موت دیکھ کر بات کر رہا تھا خیر
ڈاکٹر صاحب نے اسے تسلی دی اور آپریشن تھیٹر پہنچے جہاں اسے بیہوش کرنے کے
لئے انجیکشن لگانے لگے تو اس نے کہا میرا روزہ ہے انجیکشن نا لگائیں لیکن
اس کو بچانا مقصود تھا اس لیے اسے انجیکشن لگا دیا اور ساتھ ہی ڈاکٹر عمر
اس کی روداد بھی سنتا رہا کہانی سناتے سناتے لڑکا بیہوش ہو گیا اور اسی
بیہوشی کے دوران اس کی موت ہو گئی مگر اس کے موت نے آپریشن تھیٹر میں موجود
ڈاکٹر سمیت تمام عملے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا شاید پڑھنے والوں کو بھی جھنجوڑ
دے جب لڑکے نے التجا کی کہ میری موت کی خبر میرے گھر والوں کو نہ دیجئے گا
بلکہ لاش ایدھی سینٹر یا چھیپا کے حوالے کر دیجئیے گا تو ڈاکٹر نے اس سے
پوچھا ایسی کیا وجہ ہے؟ اس نے بتایا کہ میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں میری
تین چھوٹی بہنیں ہیں جنہوں نے پچھلے دونوں روزے بغیر کچھ کھائے پیے رکھے
ہیں آج انھوں نے مجھے کہا بھائی ہمیں JDC کے افطار دستر خوان پر ہی لے
جائیں لیکن ڈاکٹر صاحب میری غیرت کو یہ گوارا نہیں تھا میں مزدوری کے لیے
نکلا مجھے آج دو دن بعد مزدوری ملی اور میں نے سارا دن روزے کے ساتھ کام
کیا مجھے 1300 مزدوری ملی دیہاڑی لگا کر پیدل آ رہا تھا کہ نمائش چورنگی کے
پاس ڈاکوؤں نے مجھے گن پوائنٹ پر لوٹنے کی کوشش کی میرے پاس کل دولت وہ آج
کی لگ جانے والی مزدوری اور یہ ایک پرانا سا ٹوٹا ہوا موبائل تھا اگر صرف
میری بات ہوتی تو میں شاید یہ تیرہ سو روپے ڈاکوؤں کو دے دیتا مگر مجھے پتہ
تھا گھر میں دو دن سے بھوکی روزے کے ساتھ بیٹھی میری بہنیں افطاری کے
انتظار میں میری راہ دیکھ رہی ہیں یہ پیسے ڈاکو لے گئے تو میری بہنیں کیا
کھائیں گی جب کہ وہ لوگ خوف خدا سے عاری تھے میں نے سوچا یہ تو کسی اور کو
بھی لوٹ لیں گے لہذا میں نے مزاحمت شروع کر دی اور ان ظالموں نے محض اس
تیرہ سو روپے کی خاطر مجھے گولی مار دی ڈاکٹر صاحب مجھے پتہ ہے میں مر جاؤں
گا مگر مجھے فکر ہے کہ میرے گھر والے جن کے پاس روٹی تک کے پیسے نہیں ہیں
وہ میرے لئیے کفن کے پیسے کہاں سے لائیں گے قبر کے پیسے کہاں سے لائیں گے؟
لہذا میرے گھر والوں کو میری موت کی خبر نہ دی جائے ساتھ اس نے جیب میں
ہاتھ ڈال کر پیسے اور موبائل ڈاکٹر کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے گھر کا ایڈریس
بتایا اور کہا یہ پیسے گھر پہنچا دینا اور یہ موبائل بیچ کر میری چھوٹی بہن
کو نئی جوتی خرید دینا بہت دنوں سے ضد کر رہی تھی کہ اس عید پر جوتے چاہیے
اگر میری والدہ کا حوصلہ بلند ہوا تو انہیں تسلی دیتے ہوئے میری موت کی خبر
دے دینا ورنہ کہہ دینا کہ آپ کا بیٹا کسی دوسرے شہر مزدوری کے لئیے چلا گیا
ہے اس کے ساتھ ہی وہ نوجوان حالت غنودگی میں چلا گیا اور وہیں سے موت کی
آغوش میں جا پہنچا. مگر ڈاکٹر صاحب کو سکتہ لگ گیا اور وہ تب سے سوچ رہے
ہیں کہ اب تک ہم پر پتھروں کی بارش کیوں نہیں ہوئی؟ سیلاب ہم کو کیوں بہا
نہیں لے گیا؟ سرکش جنّات کی طرح ہمارا قلع قمع کرنے کے لئے فرشتے کیوں نہیں
اتر رہے؟ ہم لوگ اب تک قہر الٰہی سے محفوظ کیوں ہیں؟ جبکہ مسلمانوں والے
اعمال ہماری اکثریت کب کی چھوڑ چکی ہے بد دیانت حکمران بد دیانت عوام،
لٹیرے حکمرانوں لٹیری عوام، قاتل حکمران قاتل عوام، دوسری طرف اسلام نے ایک
مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان و مال عزت کو حرام قرار دیا ہے ان ہی سوالات
کو سوچتے ہوئے ڈاکٹر نے ہر چیز اس نوجوان کے گھر والوں تک پہنچائی اپنی جیب
سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا اس کے گھر والوں کے لئے مناسب روزگار بنا
کر بہت جلد یہ ملک چھوڑ کر بمعہ فیملی کسی اور ملک منتقل ہونے جا رہا ہے
کیونکہ ڈاکٹر کا خیال ہے کہ جتنی شدت سے اہلیان پاکستان قہر خدا کو آواز دے
رہے ہیں اسے نہیں لگتا ان لوگوں کو توبہ کی مہلت بھی مل پائے گی.
والسلام
|