نبی رحمت، شفیع امت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جو ہمارے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں
(ترمذی)
اس فرمان کے مطابق ہم اگر رسول اللہ کے طریق پر ہیں یا اپنے اپنے آپ کو
مسلمانوں کے گروپ میں شامل رکھنا چاہتے ہیں تو ان دو باتوں پر خاص توجہ
دینا ہوگی۔ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کو عزت دیں، جو چھوٹا ہو اس سے شفقت
سے پیش آئیں۔ بڑوں کی توقیر کرنے والا اللہ کی عزت میں سے حصہ پاتا ہے ۔
سنن ابو داؤد کی حدیث ہے حضرت ابو موسیٰ راوی ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم، قرآن کے
عالم کی تعظیم جو حد سے تجاوز نہ کرے، حاکم کی تعظیم جو عدل قائم کرتا ہو
اللہ کی تعظیم کا حصہ ہے ۔
اگر آج ہم بزرگوں کا ادب اور ان کی عزت کرنا شروع کر دیں تو جہاں ہم زمانہ
کے نشیب و فراز سے بحفاظت گزر جائیں گے وہیں پر یہ عزت ہمارے لیے بھی
برکتوں کے دروازے کھول دیتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے وہ
صحابی جو محض دس سال کی عمر میں آپ کی خدمت آئے اور آپ کی ظاہری حیات
مبارکہ میں یہ سعادت پاتے رہے وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی
پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو نوجوان کسی بوڑھے کی عمر
رسیدگی کی بدولت اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کیلئے کسی کو مقرر
فرما دیتا ہے جو بڑھاپے میں اس کی مدد کرتا ہے ۔(جامع ترمذی)
بڑوں کی توقیر و عزت باعث خیروبرکت ہے۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمارے بڑوں
کی وجہ سے ہی ہم میں خیرو برکت پائی جاتی ہے (طبرانی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ انسان کو مہلت پر مہلت دیتا رہتا ہے ، پس اگر
ان میں کمر خمیدہ بزرگ، عاجز و انکسار نوجوان، شیر خوار بچے، چرند پرند نہ
ہوں تو تم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں(مسند ابو یعلیٰ)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ ضعیف لوگوں کی
بدولت تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔(ترمذی)
ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم ایک مجلس میں جلوہ افروز تھے تو
ایک مشروب کا پیالہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آپ نے اس مجلس میں بیٹھے
لوگوں میں سے سب سے عمر رسیدہ صحابی حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف
بڑھا دیا اور فرمایا آپ نوش کریں۔ انہوں نے نہایت ادب سے گزارش کی یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس پر آپ کا زیادہ حق ہے ، ہم کو خوشی ہوگی
اگر آپ نوش فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا آپ
پیئیں۔ کیونکہ برکت ہمارے بڑوں کے ساتھ ہے اور جو بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور
چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہمارے طریقہ پر نہیں ہے (طبرانی)
امام ابن شہاب زہری کی روایت جس کو ابن جوزی نے اپنی کتاب میں نقل کیا:
فرماتے ہیں کہ سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنی والدہ ماجدہ کا اتنا
ادب کرتے تھے کہ کبھی ان کے ہمراہ بیٹھ کر کھانا تناول نہ کرتے، ایک بار آپ
سے استفسارکیا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ والدہ ماجدہ سلام اللہ علیہا
کے ہمراہ کھانا تناول نہیں کرتے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس لیے نہیں کھاتا کہ
کھانے کے کسی لقمہ پر میری ماں کی پہلے نظر پڑ جائے اور میں وہ اٹھا کر
کھالوں تو کہیں ماں کے بے ادبوں میں نہ لکھ دیا جاؤں۔ اس لیے میں پسند کرتا
ہوں کہ میری والدہ ماجدہ اپنی پسند کی خوراک کھا لیں پھر ان کا بچا ہوا
کھانا میں کھاؤں ۔
حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جو بے ادب ہو وہ علم سے بھی
فائدہ نہیں حاصل کر سکتا۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہمارے نوجوان سمجھتے
ہیں کہ والدین کا ادب اور ان کی خدمت کوئی لازمی کام نہیں ہے، پھر در بدر
دھکے کھاتے پھرتے ہیں کہ کھانے میں برکت نہیں ہے، پیسے میں برکت نہیں ہے
توآئیے آج سے ہی اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں اگر ہمارے دسترخوان سے ہمارے
بزرگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو شکر کریں اور اگر ہمارے بزرگ اس سے محروم
ہیں تو ان کو شامل کریں پھر دیکھیں عمر میں بھی برکت ہوگی، رزق بھی وافر
ملے گا اور جب ہم اس اسٹیج پر پہنچیں گے اللہ تعالیٰ ہماری خدمت کیلئے بھی
کسی کو مقرر فرما دے گا۔ ان شاء اللہ
|