عمرہ کی ضروری لوازمات ‘ سعودی ہوٹل اور انٹرنیٹ کی سروسز
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
مسجد عائشہ سے دوسرے عمرہ کرنے کے بعد ہجرہ روڈ پر اپنے ہوٹل میں واپس آکر گنجے سر کو مزید گنجا کردیا ‘ کیونکہ یہ لازمی ہے ‘ اگر آپ نے ایک دن قبل بھی عمرہ کیا ہو اور آپ کے سر پر بال نہ ہوتب بھی آپ نے سر پر استرا پھیرنا ہی ہے ‘ سر پر استرا پھیرنے کیلئے بڈھ بیر کے رہائشی ہیئر ڈریسر کے دکان پر گیا ‘ پانچ ریال میں اس نے ریڈی میڈ پلاسٹک کور کپڑوں پر لگایا اور گنجے سر کو مزید گنجا کردیا‘ بال البتہ نہیں آئے تھے کیونکہ ایک دن قبل ہی عمر ہ کیا تھا لیکن عمرے کیلئے یہ ضروری امر ہے ‘ بیشتر لوگ ہر عمل پورا کرنے کے بعد بال چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ اگر یہ نہیں کرینگے تو پھر عمرہ نامکمل ہے ‘ ہوٹل کے رسپشن پر بیٹھ کر وائی فائی کیساتھ بیٹھ کر واٹس اپ پر گھر والوں سے بات ہورہی تھی کہ اتنے میں ایک بزرگ شخص میرے پاس آکر بیٹھ گیا. اس نے کارڈآگے کردیا اور مجھ سے پوچھا کہ یہی ہوٹل ہے جواب میں نے ہاں کہہ دیا پھر اس نے کہہ دیا کہ میرے ساتھی جومیرے ساتھ پاکستان سے آئے تھے طواف کے دوران مجھ سے کہیں آگے پیچھے ہوگئے اس لئے عمرہ کرکے میں واپس آگیا. بزرگ کا تعلق پنجاب سے تھا اوروہ بہت خوش تھا.
راقم نے بزرگ شخصیت سے پوچھا کہ کیا آپ نے طوا ف مکمل کئے ‘ اس نے جواب دیا کہ ہاں طواف مکمل کئے ہیں اور میرا عمرہ ہو چکا ہے ‘ میں نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ نے دو رکعت مقام ابراہیم کے ساتھ پڑھے ہیں ‘اس نے انکار کیا ‘ پھر سوال کیا کہ آپ نے آب زمزم پیا ہے اس نے انکار کیا ‘ پھر سوال کرنے پر بزرگ نے بتایا کہ اس نے سعی بھی نہیں کی اور نہ ہی سر گنجا کیا ہے بلکہ وہ سیدھا یہاں پر آگیا ‘بقول اس کے وہ سمجھ رہا تھا کہ صرف طواف کرنا ہی عمرہ ہے . میں نے اسے واپس بھیج دیا اور ساتھ میں کہاکہ یہ تمام عوامل کرنے کے بعد واپس ہوٹل آنا ‘ ورنہ پھر دم ہوگاوہ غریب آدمی جلدی سے واپس چلا گیا.
بزرگ کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا اور پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا جو اپنی والدہ کیساتھ عمرہ کرنے آیا تھا اس نے راقم سے پوچھا کہ کہ آپ نے عمرہ کرلیا ہاں میں نے جواب ملنے پر اس نے بتایا کہ اس نے چار عمرے کئے ‘ لیکن صرف دو مرتبہ صرف گنجا کیا بعد میں دو مرتبہ نہیں کیا کیونکہ اس کے بقول اس کے سر پر بال نہیں تھے اس لئے بالوں پراسترا نہیں پھیرا ‘ راقم نے اسے بتایا کہ یہ ضروری ہے لیکن اس نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ آپ ایک احرام میں کتنے عمرے کروگے دو احرام ضروری ہے ورنہ ایک احرام پر زیادہ عمرہ نہیں ہوتے.میں نے اسے بتایا کہ بھائی احرام کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں اور ا س حوال سے راقم نے پی ٹی وی اسلام آباد میں تعینات ایک دوست سے رابطہ بھی کیا ہے لیکن وہ نہیں مان رہا تھا .خیر ان تمام باتوں کا بنیاددی مقصد یہی ہے کہ ہم لوگ عمرہ کرنے تو جاتے ہیں لیکن اس بارے میں معلومات نہیں لیتے -نہ ہی ٹریول ایجنٹ اس حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہیں ‘ ہم لوگ مساجد سے ویسے بھی دور ہیں ‘ بہت سارے لوگوں کو عمرہ کے بنیادی احکامات کے بارے میں معلومات نہیں.نہ ہی اس بارے میں ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے لئے آسانی پیدا کر ‘ اور یہ دعا صرف عمر ہ کرنے نہیں بلکہ ہر اس عمل کے حوالے سے اللہ تعالی سے کرنی چاہئیے تاکہ اللہ تعالی ہماری زندگیوں میں آسانی پیدا کرے.جو اللہ تعالی کی مدد سے ہی ممکن ہے.
عمرے کے دوران یہ بات بھی راقم کے تجربے میں آئی کہ اگر کسی نے اپنا وزن کم کرنا ہو تو اسے عمرہ کرنے کے دوران کھانے پینے سے گریز کرنا چاہئیے جتنی توانائی اللہ تعالی نے آب زمزم میں رکھی ہوئی ہیں اس میںانسان کا ٹھیک ٹھاک گزارہ ہوتا ہے بلکہ آب زمزم ‘ ناشتے ‘ دوپہر کے لنچ اور رات کے کھانے کی جگہ آب زمزم کا پانی پینے سے اکیس دن میں بیس سے پچیس کلو وزن کم ہو جاتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ صرف آب زمزم ہی پینا ہوگا جس کا تجربہ بھی راقم کو ہوا ہے اگر کسی کو زیادہ بھوک لگتی ہے تو پھر چند کھجوریں چل سکتی ہے اور اس کا فائدہ یہی ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ وضو کرنے کے بعد دوسرے وضو کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور کوئی بھی شخص مسجد حرم یا مسجد نبوی میں آرام سے بیٹھ کر عبادات ‘ تلاوت قرآن پاک کرسکتا ہے-ورنہ کھانے پینے کے شوقین افراد کو ہر نماز کیلئے پھر وضو کیلئے باہر نکلنا پڑے گا اور اس کا نقصان یہی ہوتا ہے کہ انسان اس جگہ سے محروم ہو جاتا ہے جہاں پر وہ بیٹھ کر عبادت کرنا چاہتا ہے ‘ کیونکہ لاکھوں کے اجتماع میں سیکنڈوں کے حساب سے صفیں کھڑی ہو جاتی ہیں اور یہاں وضو کیلئے جگہ بھی باہر ہے اس لئے عمرے پر جانیوالے زائرین اگر یہی عمل کریں تو اس سے ان کا وزن کم اور صحت بہتر ہوگی بلکہ وہ عبادات کا مزہ بھی لے سکیں گے.
مکہ اور مدینہ کے سفر کے دوران کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کبھی یہاں پرہوگی ‘ ان دونوںشہروں میں زائرین کی کیفیت الگ ہوتی ہیں اور جب یہ احساس بھی ہو کہ بجلی نہیں جائیگی یعنی پاکستان کی طرح لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور ہی نہیں تو پھر عجیب سی سرشاری ہوتی ہیں ‘ جس وقت پشاور سے عمرہ کیلئے روانگی تھی اس وقت پشاور میںراقم کے علاقے میں آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری تھی ‘ وہاں پر جا کر پتہ چلا کہ اصل زندگی تو یہی ہے بجلی لاڑہ اور بجلی راغلہ والاکوئی تصور ہی نہیں ‘ ائیر کنڈیشڈنڈ چوبیس گھنٹے لگا رہتا ہے ‘ نہانے کیلئے باتھ روم میں پانی گرم کرنا ہو تو بلا ججھک کریں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ بجلی خراب ہوگی ‘ ہاں ہم لوگ یعنی پاکستانی ‘ بنگلہ دیشی اور بھارت کے رہائشی گندگی کے معاملے میں یکساں ہیں ‘ بقول ہمارے ہوٹل کے مینجر کے ان لوگوں کا بس چلے تو جہاں پر کھائیں وہاں پر گند بھی ڈالیں اور پھر وہاں پرپیشاب بھی کریں ہوٹل کا مینجر ان تین ممالک کے زائرین سے بڑا دلبرداشتہ تھا ‘ اور اس میں کسی حد تک سچائی بھی تھی ‘ خود راقم جس کمرے میں تھا اس میں سامان پڑا تھا اور ہر چیز بجائے ڈسٹ بن کے ڈالنے کے بیڈ کے نیچے ڈالنے کی عادت تھی ‘ جس کا فائدہ ہوٹل والے اسی صورت میں اٹھاتے ہیں کہ کمرے کی صفائی کیلئے الگ سے ریال کی ڈیمانڈ کرتے ہیں ‘ دس ریال کم سے کم صفائی کی ڈیمانڈ ہوتی ہیں ورنہ سویپر اور سیکورٹی کارڈ رسپشن پر بیٹھ کر موبائل پر گیمز کھیلتے ہوئے راقم نے دیکھے ہیں.کیونکہ وہاں پر چوری اور ڈکیتی کا کوئی تصور ہی نہیں اس لئے سیکورٹی اہلکار بھی یونیفارم پہن کر بیٹھا رہتا ہے.
گندگی کے اس صورتحال کا ہوٹل والے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے اہلکار عمرہ زائرین سے صفائی کی رقم طلب کرتے ہیں اسی طرح ہوٹلوں میں اضافی بیڈ رکھنے کی شکایت عام ہے ‘ جہاں پر چار بیڈ رکھنے ہوتے ہیں وہاں پر چھ بیڈ رکھے جاتے ہیں ‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ عمرہ زائرین وہاں پر رہ سکیں ‘ چونکہ بیشتر لوگ سامان رکھ کر حرم کی طرف بھاگتے ہیں اور ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کرتے ‘ ہوٹل کے اوپر کے کمروں میں سورج کی روشنی بالکل بھی نہیں آتی اس حوالے سے سعودی عرب کی متعلقہ وزارت کو اس بارے میں معلومات کرنا چاہئیے اور عمرہ زائرین کیلئے ہجرہ روڈ پر واقع ہوٹلوں کی چیکنگ کرنی چاہئیے ‘ کہ آیا یہ اس معیار کی سروسز فراہم کررہے ہیں یا نہیں ‘ بیشتر ہوٹلوں کے مالکان عربی ہیں لیکن انہوں نے انڈین ‘ پاکستانی یا پھر بنگلہ دیشی سٹاف رکھا ہوا ہے اوریہی لوگ زیادہ رقم کی چکر میں بنیادی چیزوں کو نظر انداز کررہے ہیں - سورج کی روشنی ‘ صفائی ‘ اضافی بیڈ کے خاتمے یہ بنیادی چیزیں ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ‘ انٹرنیٹ اور وائی فائی کی سروسز ہر فلور پر موجود ہیں ‘ اور انٹرنیٹ کی سروسز تو مکہ سے مدینہ اور طائف جاتے ہوئے صحراﺅں میں بھی اتنی تیزی سے مل رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا انٹرنیٹ صرف سعودی عرب کیلئے بنا ہے ‘ اپنے پاکستان کاتصور کرکے انٹرنیٹ سروسز کا سوچ کر شرمندگی ہی محسوس ہوتی ہیں ‘ پاکستان واحد ملک ہے جہاں پر بجلی کے بعد انٹرنیٹ کی لوڈشیڈنگ بھی ہوتی ہیں اور کوئی اس بارے میںبات بھی نہیں کرتا -جس کا سہرا بھی ایک سابق مرحوم پاکستانی وزیر داخلہ کو جاتاہے جس نے اپنے دور وزارت میں انٹرنیٹ کی سروسز بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا خیر وہ تو مرحوم ہوگئے لیکن اس کے اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ انٹرنیٹ کمپنیاں ہی اٹھاتی ہیں دو سے تین دن انٹرنیٹ بندرہنا اور صارفین سے ان دنوں کی وصولی کرنا بھی پاکستان کی انٹرنیٹ کمپنیوں کا کمال ہے ‘ کیونکہ پیکجز ختم ہو جاتے ہیں ‘ ادائیگیاں ایڈوانس میں صارف سے لی جاتی ہیں اور کروڑوں لوگوں سے رقم وصول کرکے سب کچھ کھایا جاتا ہے .حالانکہ یہ انٹرنیٹ کمپنیاںاس طرح بھی کرسکتی ہیں کہ صارف کو پیغام بھیج دیں کہ چونکہ تین دن انٹرنیٹ بند رہی اس لئے آپ کا پیکج تین دن ہم نے آگے کردیا ‘ یا تین دن کی ادائیگی نہ لی جائے لیکن یہ عمل ہمارے ہاں نہیں ہے ‘ لیکن خیر یہاں پر قرآن کی ایک آیت ذہن میں آرہی ہیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ جس نے ذرے برابر بھی برائی کی اس کا وبال بھی اس کے سر ہوگا اور جس نے ذرے برابر بھلائی کی اس کا جزا بھی اسی کو ملے گا. #umra #kpk #Kp #pakistan #saudia #ksa #makkah #hotel #resident #internaet
|