کیا ہماری کرکٹ میں کبھی انڈیا کی طرح میرٹ آئیگی

پاکستان کرکٹ ٹیم اس چیمپینز ٹرافی میں جس طرح ہاری ہے اس پر سوائے افسوس کہ کچھ کر بھی نہیں سکتے. کیونکہ ٹیم میں تبدیلی لانے کہ لیے نہ ہی کرکٹ بورڈ میں کوئی مخلص و خلوص دل و ایمانداری سے بدلاؤ لانے والا نہ ہی بورڈ انتظامیہ اور نہ ہی سابق کرکٹرز لانا چاہتے ہیں سب کہ مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان مفادات کی مار نے پاکستان کے تمام ادارے تو تباہ کیے ہی تھے کہ اب اسپورٹس میں واحد ایک اسپورٹس ادارہ کرکٹ بورڈ بچا تھا. اب لگتا ہے اس کی بھی باری آگئی ہے.

بورڈ انتظامیہ اور کوچ کو ساری دنیا اپنے اسپورٹس کالم میں پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں اسپورٹس تجزیہ کار چیخ چیخ کر لکھ کر بھی اور اپنے تجزیہ میں دلائلوں و حوالوں سے آگاہ کر رہے ہیں کہ بھائی اسپنرز کو کھیلاؤ آپ نے نہیں مانی اپنی مرضی چلائی پھر کہا کہ دو تین اوپنرز کے ساتھ جاؤ آپ نہیں مانے اور جب انتہائی سست روی کی وجہ سے بیٹنگ میں ناکام ہوئے اور واحد آپ کی اُمید فخر بھی ان فٹ ہو گیا تو ساری دنیا پیٹتی رہی کہ عثمان خان سے اوپن ایسے استعمال تو کرو لیکن آپ نے یہاں بھی اپنی من مانی ہی کروائی-

آخر اس پاکستانی ٹیم کے پیچھے کون بغیر دماغ والا بندہ بیٹھا تھا جس کی من مانیوں کی وجہ سے آج پاکستان کی کرکٹ ساری دنیا میں رسوا و بدنام ہو رہی ہے اور پاکستان کرکٹ کے شیدائی اپنی کرکٹ کا جنازہ اٹھتا دیکھ رہے ہیں -

اب وہ وقت آگیا ہے کہ 1980 والی کرکٹ کھیلنے والے پلیئرز کے ساتھ ساتھ اس ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگانا بھی ضروری ہے جس کی من مانیوں کی وجہ سے 29 سال بعد ملنے والے ایونٹ کے پہلے راؤنڈ سے ہی ہماری ٹیم باہر ہو چکی اور پاکستانی عوام کو میسر خوشیاں بھی پوری طرح انجوائے نہیں کرنے دی-

جس ٹیم کے لیڈر میں قائدانہ صلاحیت نہ ہونے کہ برابر ہوں وہ درست فیصلہ سازی اور اہم میچوں میں کھلاڑیوں کا چناو کرنا اس کا مسلسل غلط ثابت ہو رہا ہو جو کانوں اور زبان کا بھی کچا ہو تو ایسی قیادت کو فورا تبدیل کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے ورنہ ٹیم کا وجود بھی خطرے میں پڑھ جاتا ہے اس طرح ایک شخص کی سنگین غلطیوں کی سزا دیگر ملخص و بہادر کھلاڑیوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ جو وہ بھگت رہے ہیں بات سچ ہے مگر اس سچائی کو کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ پاکستان کرکٹ کے قائد پر پوری اُترتی ہے. ان کی نالائقی وہ ہے جو اپنی زاتی پسند اور نا پسند نے چیمپینز ٹرافی میں پوری قوم کو سوگوار کردیا انہیں کیا معلوم اتنا لڑ جھگڑ کے ایونٹ اپنے گھر میں لایا گیا آسٹریلیا افریقہ کو ہرا لیا تو ہاٸپ بھی بن گٸ ایسا لگنے لگا کہ ہم 2000 کی آسٹریلیا بن گۓ ہیں مگر پہلے گھر میں کیویز کے ہاتھوں درگت بنے اور اب چار دنوں میں گھر میں ہونے والے ایونٹ میں ہمارا پتہ بھی ان کی ہٹ دہرمیوں سے کٹ گیا یہ مُلک کس کس کی ناکامی کا رونا روٸیں کہ آدھے چانس کو بھی پورا بنانا پڑے گا تب ہی جیت کا سوچا جا سکتا ہے مگر آدھوں کو پورا تو دور ہم نے ہاتھوں سے کیچ چھوڑے رن آٶٹ کے کٸ مواقع گنواۓ ۔۔

جب بابر نے کپتانی سے استعفی دیا تو پورے پاکستان کے چہیتے رضوان کو کپتان بنایا گیا کارکردگی کیا تھی جی وہ ملتان ٹیم کو اپنی اچھی قیادت سے چیمپین بنوایا اور بہترین قائدانہ صلاحیت سے چلاتا ہے امید ہے اب ان لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ فرنچاٸز کی کپتانی اور بات ہے اور انٹرنیشنل ٹیم کی کپتانی اور بات ہے۔۔

دیکھا جائے دنیا کے کمنٹیٹر و ناظرین گواہ ہیں کہ رضوان نے انڈیا کے میچ میں تھرڈ کلاس کی کپتانی کی تاریخ رقم کردی. انڈین کھلاڑی شریاس بیٹنگ کرنے آیا کپتان نے اُسے مڈ آن مڈآف کھول کے رکھ کر دیے کے بنا رنز کتنے بنائیگا کومینٹرز چیختے رہے بھائی مڈآن کو کور میں لاٶ پریشر بناٶ مگر نہیں جناب شریاس نے چالیس بالز سیٹ ہونے میں لیں پھر سکون سے دھویا اور چلا گیا۔ عوام بتائے کہ رن چیز کی ایک گیند بتا دیں جب لگا ہورضوان اس ہدف کو بچانے کیلیے پر امید ہے اور جب کپتان کندھے گرا لے پھر باقیوں نے خاک زور لگانا ہے.

اگر بولنگ دیکھیں تو حیرانگی ہوئیگی کہ شاہین نے یارکر کر لیا ریلیز بن جاٸیں گی اور کیا چاہیے سنیل گواسکر کومینٹری میں بار بار کہہ رہا ہے کہ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ شاہین کو بھارتی بلے باز اسپنر کی طرح دھو رہے ہیں۔

جبکہ دوسرا تیس مار خاں نسیم شاہ بولنگ کر رہا تھا تو یہی سابق بولرز وسیم اکرم جس کا کبھی نسیم شاہ فیورٹ بولرز ہوتا تھا وہ بھی کہہ رہا تھا کہ نسیم کی بولنگ میں نہ پیس ہے نہ سوٸنگ ہے نہ سیم ہے۔

جبکہ کومنٹری میں ہارشا بھوگلے اور سنیل گواسکر کہ رہے تھے کہ پاکستان کی فٹنس بھارت کے عشر عشیر بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان اننگز میں جہاں دو رنز بننے چاہیے تھے وہاں ایک رنز بنا جبکہ بھارتی اننگز میں جہاں ایک رنز ہونا چاہیے تھا وہاں دو بنے۔ بورڈ انتظامیہ اور کوچز، فزیوتھراپسٹ و کپتان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کیا یہی تمھاری ٹرینینگ ہے

دیکھا جائے تو اب پاکستان و بھارت راٸیولری آفیشلی واقعی ختم ہو چکی ہے ہم اب جتنا مرضی ڈھول پیٹتے رہیں کہ جی روایتی حریف ہم یوں کر دیں گے اب یہ وہم گمانی ہے ہماری اب یہ سچ ہے کہ ہم بھارت کے سامنے اب ماٸنو ٹیم بن چکے ہیں جو کبھی اگر تُکے تلے سے بھارت کو ہرا دے تو یہ اپ سیٹ مانا جاۓ گا نہ کہ جیت۔۔

الغرض ہم کس کس ناکامی کو روٸیں میں دن و رات گزر جاۓ گی مگر جو کرکٹ کو بہتر کرنے کاواحد حل اب یہی ہے کہ کنگ اعظم۔ ایگل، وروم ،ٹائیگر،چیتا، شیر و شاہین وغیرہ جیسے ٹاٸٹلز والے نام نہاد اسٹارز کو ڈومیسٹک کرکٹ میں رگڑو تاکہ کچھ انٹرنیشنل کرکٹ جوگے ہوجاٸیں۔

فی الحال ہماری ٹیم اب انٹرنیشنل ٹیم کہلانے کے قابل ہی نہیں رہی اگر جو یہ نا سمجھے تو یہی انتظامیہ و کوچز ، کپتان و کھلاڑی رہے تو وہ دن دور نہیں ہم بھی زمبابوے، کینیا و سری لنکا کی طرح ٹورنامنٹ سے باہر بیٹھ کر یاد ماضی عذاب کی تاریخی ( ہاکی میچوں کی طرح یاد کررہے ہوئینگے)
26 سالہ انڈین کرکٹر Ishan Kishan جو 27 ون ڈے میچز کھیل کر ایک ڈبل سنچری بنا چکا ہے اور ون ڈے کرکٹ میں 42 کی ایوریج ہے اس کی ، لیکن پھر بھی انڈین ٹیم سے تقریباً ڈیڑھ سال سے باہر ہے کیونکہ سلیکٹرز کے مطابق روہت شرما شبمان گل اور کے ایل راہل کے ہوتے ہوئے اس کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی.

جبکہ ہماری کرکٹ کی پلاننگ کرنے والے 2021 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شرجیل خان ان کی آٹومیٹک چوائس تھا کیونکہ وہ اس فارمیٹ کا خطرناک کھلاڑی تھا۔ بقول سابق کرکٹر باسط علی کے ٹیم میٹنگ میں اس کی شمولیت کا %100 طے ہوا تھا لیکن دو دن بعد آسٹریلیا کے خلاف میچ میں وہ شامل نہیں تھا اور ہم وہ میچ ہار گئے تھے۔

سابق کرکٹر نے کہا کہ شرجیل کے ٹیم میں شامل نہ ہونے پر جب سوال کیا تو وہی ٹیم منیجمنٹ جو دو دن پہلے شرجیل خان کو ٹیم کے لیے آٹومیٹک چوائس قرار دے رہی تھی اچانک اس کو احساس ہوا کہ شرجیل سست ہے۔
انہوں نے کہا سست وست کچھ نہیں حقیقت یہ ہے کہ اس کو سائیڈ لائن کرنا تھا کیونکہ کچھ منظور نظر بورڈ کے کھلاڑیوں کو اپنی جگہ خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی تھی۔

سابق کرکٹر باسط علی نے زور دے کر یہ بات کہی کہ شرجیل خان کو اس وقت ایک منصوبے کے تحت پیچھے کیا گیا بلکہ ایک اور اوپنر کے ساتھ بھی یہی کیا گیا تاکہ کچھ لوگوں کی جگہ پکی رہے کیونکہ ان کے آنے کی صورت میں انہوں نے پیچھے ہو جانا تھا۔

باسط علی کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ حقیقت ہی نہیں پتہ وہ تو انفرادی طورپر آئی سی سی رینکنگ دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں لیکن ایسے نمبر ون اور نمبر ٹو بیٹر ہونے کا فائدہ کیا کہ میچ نہ جتوا سکیں۔

باسط علی نے کہا کہ منصوبہ ساز ایسی پلاننگ کرتے ہیں کہ کسی کو احساس نہیں ہوتا اور خطرہ بننے والے کھلاڑی منظر سے غائب ہو جاتے ہیں.

اس ہی وجہ سے ہماری ٹیم ہے جس میں ایک دفعہ 50 سکور کر دینے سے کھلاڑی دو سال کے لئے ٹیم میں پکے ہو جاتے ہیں.

اگر اب بھی یہ کرکٹ بورڈ سے انتظامیہ و کھلاڑی یہی نااہل منتخب کرتے رہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ہماری کرکٹ کا.

 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 434 Articles with 244815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.