آغا سلمان کو کس پرفارمنس پر کپتان بنایا ہے. اسکا 6 ٹی
ٹوئنٹی میچز میں 50رنز بنانے والا ٹی 20 کرکٹ میں 80 کا اسٹریک ریٹ رکھنے
والے ٹیسٹ پلیئر سلمان علی آغاکو ٹی 20 ٹیم کا کپتان مقرر کردیا ہے آفرین
ہو پی سی بی کے سوچ پر یعنی ایک ٹیسٹ کھلاڑی رضوان کو ٹی 20 کی کپتانی سے
ہٹاکر دوسرے ٹیسٹ پلیئر کو ٹی 20 کاکپتان بنادیا
آغا صرف ٹیسٹ پلیئر ہے. نظر یہ ہی آرہا ہے کہ بہت جلد سلمان آغا کو ہٹا کے
شاداب کو کپتان مقرر کیا جائیگا . لگتا وہی پھر کہانی دُہرائی جارہی ہے کہ
شاداب خان کو ٹیم میں ڈال کر پھر سے نئی پروکسی وار شروع کر دی گئی ہے.
جبکہ شاداب خان کے 6 میچز میں صرف 24 رنز اور کوٸی وکٹ نہیں لی یہ ہے شاداب
خان کی پرفارمنس اس بنیاد پر سلیکٹ ہوۓ ہیں۔۔
نظر یہ ہی آرہا ہے کہ ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کرکٹ ٹیم کو چلانا
کیسے ہے. ابھی ٹیم کا تھوڑا بہت جو حشر بچا تھا وہ بھی یہ بورڈ انتظامیہ
پورا کر کے جائیگی. اب تو ایسا وقت آگیا کہ اب تو شاہد بورڈ کے افراد بھی
باھر سے لانا پڑیں گے کیوں کے یہاں جو بھی کرجٹ بورڈ انتظامیہ میں آتا ہے
اس کے گھر کی ہی ٹیم ہوتی ہے کوئ پرچی والا کوئ رشتہ دار کوئ سفارشی.
دیکھا جائے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کو خراب ہی سابقہ کرکٹرز ہی کرتے ہیں یہی
بورڈ انتظامیہ سے سفارش کرکے اپنے پسند کے پلیئر ٹیم میں شامل کرواتے ہیں
کیونکہ بورڈ بھی سفارش سے آیا ہوا ہوتا ہے اور ان کو بھی ان سابقہ کرکٹرز
سے اپنی حمایت میں چاہیے ہوتی ہے یعنی ہر کوئی اپنے اپنے مُفادات کے لیے
پاکستان کرکٹ کا بیڑہ غرق کررہے ہیں.
جن لوگوں کو بری پرفارمنس پر نکالا جاتا ہے وہ دوبارہ کسی نہ کسی طریقے سے
واپس آ جاتے ہیں اور عوام امید کرتے ہیں کہ ٹیم بہتر ہو گی.
کرکٹ بورڈ پاکستانی قوم کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ مذاق کررہا ہے کرکٹ بورڈ
نے پھر وہی ٹیم تشکیل دی ہے جس نے چیمپئین ٹرافی میں پاکستانی قوم کو بُری
طرح مایوس کیا ہے ابھی رضوان حارث رؤف شاہین کو سزا دے کر ٹیم سے باہر ہونا
چاہیے تھا
ہر دفعہ وہی کھلاڑی بار بار سلیکٹ کرتے ہیں جن کی وجہ سے کرکٹ ٹیم شکست سے
دوچار ہوئی یہ لوگ صرف اپنے لیے ہی کھیلنا چاہیتے ہیں.
پچھلے بیس سال سے یہی لوگ اور یہی پالیسی چل رہی ہے ایک دو تکے کے علاوہ
تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کو روند رہی ہیں. کچھ عرصہ بعد جب تک میرٹ کے اندر
سلیکشن نہیں ہوئیگی آپ دنیا کا نمبر ون کوچ لے آؤ کچھ بھی کرلو یہ ٹیم کبھی
بھی اگے نہیں بڑھ سکتی جب ٹیم میں چاچے اور مامے کے بیٹے کھیل رہے ہوں اور
ان کے مفادات ایک دوسرے پر غالب ہوں وہاں پھر جیت کی جستجو نہیں بلکہ اپنے
لیے کھیلا جاتا ہے کچھ عرصہ بعد دیکھنا کہ ابھی ان انضمام نے اپنا بیٹا
تیار کیا رزاق نے اپنا بیٹا تیار کیا ہےمصباح الحق نے اپنا بیٹا تیار کیا
ہوا ہے افریدی کا داماد جس طرح ٹیم میں کھیل رہا ہے اور ثقلین مشتاق کا
داماد کس طرح پیچھے گیٹ سے لایا گیا ہے ان لوگوں کو کیا غرض ہے پاکستان اور
پاکستان کی ٹیم سے ان کو جو کہا جاتا ہے یہ وہی بات کرینگے.
کیا پاکستانی عوام کو کرکٹ کا کوئی پتہ نہیں ہے چمپئنزٹرافی میں ٹیم کی
خراب کارکردگی کا زمہ دار کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی ہے جنہوں نے اپنے من
پسند کھلاڑیوں کو نوزا ہے ایک طرف ہیڈ کوچ عاقب جاوید کہتا ہے خوشدل کو ہم
نے صائم ایوب کی جگہ پر ٹیم میں شامل کیا بھائی اگر آپ نے خوشدل کو صائم کی
جگہ پر شامل کیا تھا تو پھر اسکو اوپننگ میں آنا چاہئے تھا پھر کہتا ہے کہ
سعود شکیل کو ہم نے اس لیے شامل کیا کہ وہ اسپنر کو اچھا کھیلتا ہے پھر تو
سعود شکیل کو نمبر 4 بر بیٹنگ کرنا چاہئے تھا اسی کو اصل میں جو پیچھے سے
کہا جاتا ہے اپنی غلطی مان کر نہ دینا ،اگر ان کو چمپئنز ٹرافی جیتنے کاشوق
ہوتا تو یہ شروع میں ہی شرجیل خان کو اوپنر کے طور شامل کرتے فخرزمان کے
ساتھ فخر کےان فٹ ہونے کے بعد ان کو شرجیل اور عثمان خان سے اننگز کا آغاز
کرواتے ایک اسپنر آپ مزید شامل کرتے ساجد خان کو تو پاکستان کرکٹ کا ایک
مضبوط اسکواڈ بناسکتا تھا پاکستانی عوام نےاس وقت بھی کہا تھا یہ چمپئنز
ٹرافی کی یہ ٹیم نہیں ہوسکتی ہے اور اب بھی کہہ رہی ہے کہ دورہ نیوزی لینڈ
کے لیے یہ ٹیم میرٹ پر نہیں ہے اب تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے ٹیم کی
سلیکشن میں زیادتی بے شُمار زیادتیاں ہورہی ہیں.
پاکستان کرکٹ بورڈ کتنی بھی تبدیلیاں کرلے جب تک کرکٹ کو سیاست سے آزاد
نہیں کیا جاتا ہے آپ کو بہتر رزلٹ نہیں ملیں گے چاہے آپ کچھ بھی کرلیں.
|