پاکستانی کرکٹ علاقائی نہیں بلکہ اقرباء پروروں کے ہاتھوں رسؤا ہورہا ہے

پاکستان کی ٹیم میں ہر پاکستانی کو میرٹ پر حق ملنا چاہئیے چاہے وہ پنجابی ، پٹھان ، مہاجر، سندھی و بلوچی وغیرہ ہو جو بھی میرٹ پر ہو اس کو اولیت دینا ہوگی.

پہلے یہ فرق صرف کراچی و سندھ کے شہری علاقوں کے کھلاڑیوں ساتھ کیا جارہا تھا اب تو یہ پاکستان کے ہر علاقہ کے میرٹ پر آنے والے لڑکوں کے ساتھ کیا جارہا ہے.

اب کرکٹ علاقائی نہیں بلکہ اقرباء پروروں کے ہاتھوں زلیل و خوار ہورہا ہے۔ ایک بری پرفارمنس پہ کامران غلام ڈراپ ، اور جس نے اپنے پورے کیریر میں ایک بھی ففٹی نہیں کی طیب طاہر سیلکٹ ، اگر اس کو عوام کیا سمجھے جو ڈومیسٹک سیزن میں بھی اور اپنے انٹرنیشنل میچوں بھی اچھی کارگردگی سے عوام میں اپنا وقار بلند کیا آج وہ باونڈری لائین سے باہر اور جو سوائے اپنی ماضی کی بری کارگردگی سے باونڈری سے باہر ہوئے وہ ایک دم بورڈ انتظامیہ اور سلیکٹرز و کوچ کی ان پر اتنی مہربانی کہ وہ بنا کھیلے وہ باونڈری لائین سے اندر گراونڈ میں آنے کے مُستحق ٹہرے. مگر یہاں یہ سلیکٹرز کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں عدل نہیں وہاں کامیابی نہیں مل سکتی آپکا ماہانہ میٹر تو آگے بڑھ سکتا ہے مگر کامیابی آپ سے کوسوں دور چلی جاتی یے.

حالیہ دنوں میں پاکستانی ٹیم کے سابق غیر مُلکی آسٹریلین ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی نے حالیہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید پر سنگین الزامات کی میڈیا پر بوچھاڑ کردی جیسن گلیسپی نے سوشل میڈیا پر عاقب جاوید پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ عاقب جاوید واضح طور پر گیری کرسٹن اور میری ساکھ کو نقصان پہنچا رہے تھے۔

عاقب جاوید تمام فارمیٹس میں کوچ بننے کے لیے ہمارے پیچھے کیمپین کر رہے تھے، عاقب جاوید ایک جوکر ہے. اسکا مقصد پاکستان ٹیم کو ٹھیک کرنا نہیں ہے بلکہ وہ ٹیم میں انتشار پیدا کرنے آیا ہے اگر فوری طورپر اسکو پاکستان کرکٹ سے دور نہیں کیا گیا تو پاکستان کرکٹ کو بڑا نقصان ہوسکتا ہے،اوراسکا مقصد ٹیم میں کچھ کھلاڑیوں کا کیریر ختم کرنا ہے چمپئنز ٹرافی میں جان بوجھ کر اس نے ایک اوپنر شامل کیا تاکہ آوٹ آف فارم بابر اعظم پر اوپننگ کا بوجھ ڈال کر اسکو مزید پریشر میں ڈالا جائے!

دیکھا جائے تو سابق آسٹریلین ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی سو فی صد درست بات کی ہے واقعی پاکستان میں ان تمام سابق کرکٹرز کو پاکستان ٹیم کا کوئی عہدہ مت دیا جاۓ یہ کرکٹ کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں.
رمیض راجہ اور وسیم اکرم کمنٹیٹر رہیں باقی رزلٹ آپکے سامنے ہے 90 کے دور سے اب تک ان تمام سابق کھلاڑیوں کی آپس میں نہیں بنتی گروپنگ تجزیے کار اور کوچنگ سلیکٹر بن کر شائقین کرکٹ کو روند رہے ہیں. اس لیے غیرمُلکی انٹرنیشل کوچ اور ٹیم سلیکٹر ہونگے تو کرکٹ کو بہتری کی طرف لے جائیں گے ورنہ یہ حضرات تو پاکستانی کرکٹ کا حشر نشر کردینگے.

پاکستانی کرکٹ کے شیدائی کوچ عاقب جاوید سے یہ سوال تو کرسکتے ہیں کہ آپ نے سلمان علی آغاکو کس کارکردگی پر کپتان بنالیا ہے اسکی وجہ تو آپکو بتاناپڑے گی پاکستان ٹیم کا کپتان بننا کوئ مذاق ہے سلمان آغا نے تو صرف 6 ٹی 20 میچ کھیلے ہے اس سے پہلے اس نے کسی کلب لیول پر بھی کپتانی نہیں کی ہے اور ایک مشکل دورہ نیوزی لینڈ پر آپ نے اس نئے لڑکے کو کپتان بنادیا ہے اور اس کے مُستقبل پر بھی ایک طرح سے داؤ پر لگادیا، یہ پاکستان کرکٹ کے ساتھ مذاق نہیں ہے تو اور کیا ہے آب اس ٹیم کا اور کتنا مذاق بنواگے اب ایسا عوام چلنے نہیں دیگی یہ پاکستان کی ٹیم ہے کسی فرنچائز کی نہیں جو آپ کی ہاں میں ہاں ملائے. بورڈز اور کوچ کی غلط پالیسیوں سے پاکستانی کھلاڑی پر کافی زہنی دباؤ کی وجہ سے اپنی کارگردگی دیکھا نہیں پارہے ہیں.

لگتا یہی ہے کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کہیں وینٹیلیٹر پر چلی نہ جائے.

پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیکھا جائے تو یس سر والی قیادت چاہیے . جب کوئی کپتان کامیاب ہوتا ہے وہ اپنی مرضی کی ٹیم بنانے کے چکر میں لگ جاتا ہے یہ کام شعیب ملک کے بعد شروع ہوئے تھے کیونکہ انضمام الحق 92 ٹیم کے وہ آخری پلئیر اور وسیم اکرم کے گروپ کا حصہ تھے جن کو اپنی مرضی کی ٹیم ملی تھی اس کے بعد سب یس سر کہنے والے پلئیر آئے شاہد آفریدی کو ڈال کر یونس خان کو نکال کر شعیب ملک ،مصباح الحق ،اظہر علی ،سرفراز ، بابر، شاہین آفریدی، شان مسعود و شاداب یہ سب یس سر تھے جس نے اپنی مرضی کی وہ کپتانی سے گیا سرفراز بابر دونوں ہی استعمال ہوئے اور اب رضوان و سلمان ہو رہے ہیں.

کبھی کراچی کے لڑکے ہر گیم میں پاکستان میں سب سے اگے ھوتے تھے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیکھنا چاہیے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں کو نظر انداز کر کہ ملک کا ٹیلینٹ ختم کر رھے ھیں جبکہ شہر حیدراباد کا تو کہیں نام ھی نہیں

اس وقت پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹاپ وکٹ ٹیکر بالر مُشتاق کلہوڑو ہے لیکن اسکا کہیں نام نہیں کیونکہ اسکا تعلق پنوں عاقل (سندھ ) سے ہے اس ہی طرح انڈر 19لیول پر شاندار پرفارمنس دینے والا طویل قامت فاسٹ بولر علی رضا جس کے پاس سپیڈ سوئنگ اور لمباقد دونوں موجود ہیں لیکن وہ ٹیم میں جگہ نہیں بنا پا رہے ہیں جس کے بارے میں وسیم اکرم نے کہا تھا یہ لڑکا بہت بڑا بولر بنے گا لیکن وہ اسی انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب اس کو موقع دیا جائے گا علی رضا ایک بہترین فاسٹ باولر ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان اس کے پاس سوائے اپنی منہہ بولتی کارگردگی کے سوا کچھ نہیں نہ ان کا باپ یا بھائی یا رشتہ دار وغیرہ میں سے کوئی سابق پاکستانی کھلاڑی رہا ہو جس وجہ سے کسی بھی بورڈ و سلیکٹر کی نظر نہیں گئی کیونکہ انہیں سابق کرکٹرز کے بیٹے و دامادوں کی جی حضوری سے فرصت ہو تو ان بیچاروں پر بھی کوئی نظر کرم ہو. نہ ان کے پاس کوئی سیاسی رہنما کی پرچی ہے پھر آپ کہتے ہو کہ ہماری کرکٹ تباہی کی جانب گامزن ہے بھائی اگر آپ حقدار کو اسکا حق نہیں دینگے تو کیسے ممکن ہے کہ آپکی کرکٹ آگے بڑھ جاۓ !!

پورے ملک میں ایک سے ایک ٹیلنٹ موجود ہے مگر یہ جب ہوگا جب ان بیچاروں کے لیے کوئی بورڈ کا عہدیدار یا سلیکٹرز ان کو میرٹ پر سلیکشن کے لیے سنجیدہ ہو اگر پاکستان میں میرٹ پر سلیکشن کریں تو یہی لڑکے دنیائے کرکٹ میں اس طرح کی شرمندگی نہیں اُٹھانا پڑیگی جو پاکستان کرکٹ ٹیم مُسلسل 2019 سے مُتواتر سے اُٹھا رہی ہے اور ہماری پاکستان کی کرکٹ تیزی سے اپنے تنزلی کے طرف جارہی ہے.


 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 443 Articles with 247814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.