کھیلوں کی ایسوسی ایشنز، حکومتی مداخلت اور شفافیت کا بحران


کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کو بین الاقوامی قوانین کے تحت خودمختاری حاصل ہوتی ہے، اور انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (IOC) بھی اس بات پر زور دیتی ہے کہ حکومتوں کو ان معاملات میں غیر ضروری مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن پاکستان میں کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کے حوالے سے ایک پیچیدہ صورتحال دیکھنے میں آتی ہے، جہاں ایک طرف حکومت ان تنظیموں کو مالی معاونت، انفراسٹرکچر اور سہولیات فراہم کرتی ہے، اور دوسری طرف ایسوسی ایشنز اپنی خودمختاری کا دعویٰ کرتے ہوئے حکومتی نگرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کھیلوں کی پالیسی پر کچھ پر ایسوسی ایشن متفق ہوں اور کچھ پر متفق نہ ہوں ‘ یا تو بالکل سرے سے پالیسی ماننی ہی نہیں‘ یا پھر مکمل طور پر اسے ماننا ہوگا ‘ سال 2018 میں بننے والے خیبرپختونخواہ حکومت کی پالیسی کیا غلط ہے. اگر غلط ہے تو پھر خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کس قانون کے تحت عوامی ٹیکسوں کا پیسہ خواہ وہ پانچ لاکھ ہوں کیسے ایسوسی ایشن کو دے سکتی ہیں.

یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک فرد اپنے والد سے کہے کہ کھانے، رہائش اور دیگر بنیادی ضروریات کی ذمہ داری ان کی ہے، مگر زندگی کے باقی فیصلے وہ کسی اور کے کہنے پر کرے؟یہ بھی کوئی تک نہیں کہ ہم اپنے ایسوسی ایشن اپنی مرضی سے چلائیں گے ‘ ایسوسی ایشن حکومتی قوانین کے مطابق چلائے جائیں گے صحافیوں کی تنظیم کی رجسٹریشن ہوسکتی ہے تو پھر کھیلوں کی ایسوسی ایشن کی قانون کے مطابق کیوں نہیں ہوسکتی ‘ یہ منطق نہ تو شریعت تسلیم کرتی ہے، نہ دنیا کا کوئی قانون! اگر کھیلوں کی ایسوسی ایشنز حکومتی وسائل، انفراسٹرکچر، اور سہولیات استعمال کرتی ہیں، تو پھر ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہونا ضروری ہے۔

ان حالات میں جب ایسوسی ایشن اپنی مرضی کرینگی تو پھر کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کے بنیادی مسائل میں مالی معاونت اور جوابدہی کیسی ہوسکے گی کئی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز حکومت سے فنڈنگ حاصل کرتی ہیں، مگر ان فنڈز کے استعمال میں شفافیت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہ ایسوسی ایشنز اکثر اپنی مالیاتی تفصیلات عام نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے کرپشن اور بدانتظامی کے کئی کیسز سامنے آتے ہیں۔ اگر حکومت ان کو مالی وسائل فراہم کر رہی ہے، تو ان کی نگرانی بھی حکومت کا حق بنتی ہے۔ٹھیک ہے کہ فنڈز سالانہ پانچ لاکھ روپے بہت کم ہیں ‘ حالیہ مہنگائی کے دور میں ‘ لیکن کیا ایسوسی ایشن صرف حکومتی امداد سے چلیں گی ایسوسی ایشن بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنے مسائل خود بھی کرنے کی کوشش کرینگے نہ کہ سب کچھ حکومت کے کھاتے میں ڈالیں گے‘ آج سے تیس سال پہلے سپانسرشپ کا سلسلہ تھا لیکن یہاں پر نہیں ‘ بھارت میں پرائیویٹ سپانسرشپ ملتی ہے لیکن ان اداروں کو پھر ٹیکس کی مد میں رعایت ملتی ہیں ‘ اگر کھیلوں کی ایسوسی ایشن واقعی نقصان میں ہیں تو پھر چند مخصوص لو گ ہی کیوں اس میں کئی سالوں سے وابستہ ہیں.

کھلاڑیوں کے حقوق کی پامالی ایسی متعدد شکایات موجود ہیں جہاں ایسوسی ایشنز کھلاڑیوں کے حق میں کام کرنے کے بجائے اپنے مخصوص مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کئی ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو قومی سطح پر نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں، مگر ان کے لیے مناسب تربیتی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایسوسی ایشنز کی ناقص حکمت عملی اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے۔مجھے تو سال 2020 سے یا د نہیں کہ کسی ایسوسی ایشن نے کسی خاص ضلع کے حوالے سے یہ بتایا ہو کہ متعلقہ ضلع میں کھیلوں کی سہولیات میسر نہیں ‘ یا جو ہیں وہ کم ہیں ‘ یا پھر پشاور ‘ مردان ‘ نوشہرہ ‘ ایبٹ آباد اور سوات کے علاوہ کسی دوسرے علاقے میں کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے ہوں ‘ تور غر بھی اس صوبے کا حصہ ہے ‘ کوہستان بھی صوبے کا حصہ ہے ‘ پینتیس اضلاع پر مشتمل صوبہ ہے صرف دس اضلاع تک محدود سپورٹس ایسوسی ایشنز کو پورے صوبے کی نمائندگی کا حق حاصل نہیں ہوسکتا .

غیر قانونی انتخابات اور اقربا پروری خیبرپختونخوا کے 35 اضلاع میں کئی ایسی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز موجود ہیں جن کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں، مگر وہ کاغذی انتخابات کے ذریعے مخصوص افراد کو عہدوں پر بٹھا دیتی ہیں۔ ان ایسوسی ایشنز کا کوئی زمینی وجود نہیں، مگر وہ کھلاڑیوں کے مستقبل کے فیصلے کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کئی اہل کھلاڑی مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں، اور کھیلوں کے شعبے میں بہتری کے بجائے زوال آتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ اور جعلی ٹورنامنٹس یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے کہ کچھ کھیلوں کی ایسوسی ایشنز بین الاقوامی ٹورنامنٹس کے نام پر لوگوں کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجتی ہیں۔ اس قسم کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کے حقیقی کھلاڑیوں کے لیے ویزا حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ بین الاقوامی ادارے اور سفارت خانے ان سرگرمیوں پر سخت نظر رکھتے ہیں۔

تمام کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کے فنڈز کا سالانہ آڈٹ ہونا چاہیے، اور یہ رپورٹس عوام کے لیے جاری کی جانی چاہئیں۔ابھی جو سلسلہ جاری ہے یہ آڈٹ والا نہیں ‘ اسی طر ح انتخابات میں اصلاحات کیلئے ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں حکومتی نمائندوں، کھلاڑیوں اور عوامی مبصرین کی شرکت یقینی بنائی جائے تاکہ اقربا پروری اور دھاندلی کو روکا جا سکے۔ جو ایسوسی ایشنز عملی طور پر فعال نہیں، انہیں معطل کیا جائے اور ان کی جگہ متحرک اور حقیقی نمائندے سامنے لائے جائیں۔ ایسی ایسوسی ایشنز پر سخت قانونی کارروائی کی جائے جو جعلی ٹورنامنٹس کے ذریعے غیر قانونی ہجرت میں ملوث ہیں۔

نتیجہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی ادارہ کہے کہ "ہم فنڈنگ، انفراسٹرکچر اور تمام سہولتیں حکومت سے لیں گے، مگر حکومت کو مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے!" ایسا غیر منطقی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہوگا۔ اگر کھیلوں کی ایسوسی ایشنز مکمل خودمختار ہونا چاہتی ہیں، تو انہیں حکومتی وسائل اور سہولیات سے بھی دستبردار ہونا ہوگا۔ اگر وہ حکومتی فنڈنگ اور سہولتیں حاصل کر رہی ہیں، تو پھر انہیں شفافیت اور جوابدہی کے دائرے میں آنا ہوگا۔لہٰذا، کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کو یا تو مکمل خودمختاری اختیار کرنی ہوگی (اور حکومتی فنڈنگ سے دستبردار ہونا ہوگا) یا پھر انہیں حکومتی نگرانی اور شفافیت کو قبول کرنا ہوگا۔

#kikxnow #digitalcreator #sportsnews #mojo #mojosports #kpk #kpsports

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 671 Articles with 549423 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More