915 مرد فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹرز: تنخواہیں باقاعدہ، لیکن نرسری سطح کے میدان خالی کیوں؟


خیبرپختونخوا میں تعلیمی اداروں میں فزیکل ایجوکیشن کا شعبہ ایک مکمل نظام کی صورت میں موجود ہے۔ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے ریکارڈ کے مطابق گریڈ 16 کے 915 مرد فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹرز اسکولوں میں تعینات ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف باقاعدہ گراونڈز ہیں بلکہ بچوں کی ایک معقول تعداد بھی ہے جن سے کھیلوں کی فیس (تین سو روپے فی کھلاڑی) باقاعدگی سے وصول کی جاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے:اس قدر وسائل، سہولیات اور اساتذہ کی موجودگی کے باوجود ہم نرسری لیول سے باصلاحیت کھلاڑی کیوں پیدا نہیں کر رہے؟

اہم ترین بات یہ ہے کہ فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹر باقاعدگی سے مستقل بنیادوں پر تنخواہیں لے رہے ہیں، ان کے ذمے بچوں کی جسمانی تربیت، کھیلوں کی تربیت، صحت و صفائی اور اسپورٹس مین اسپرٹ پیدا کرنا ہے۔ لیکن:کیا اسکولوں میں طلبہ کو کھیلوں کا سامان فراہم کیا جا رہا ہے؟کیا باقاعدہ کھیلوں کے مقابلے، یومِ کھیل، یا سپورٹس ایونٹس ہوتے ہیں؟کتنے کھلاڑی نرسری سطح سے اسکول، کالج اور صوبائی سطح تک پہنچے؟
اور اگر کوئی پہنچا بھی ہے، تو کیا یہ سرکاری نظام کی مرہونِ منت ہے یا نجی کوچنگ اور والدین کی کوششوں کا نتیجہ؟

ابھی تک کیا کبھی کسی نے ان 915 انسٹرکٹرز کی کارکردگی پر سوال اٹھایا؟ کیا ان سے کبھی پوچھا گیا کہ وہ کس حد تک اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں؟ کیا کبھی اسکولوں کے فزیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کا آڈٹ ہوا؟ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا نظام ایک تنخواہ خور ڈھانچہ بن چکا ہے، جہاں نتیجہ اہم نہیں، صرف حاضری اور کاغذی کارروائیاں کافی ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ سے بھی بڑا نیٹ ورک ان کوچز کا ہے ‘ اتنی تعداد میں کوچز صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس بھی نہیں جتنے ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے پاس موجود لیکن اگر یہی لوگ ایمانداری سے کام کریں تو پورے صوبے کو نرسری لیول سے باصلاحیت کھلاڑی میسر آسکتے ہیں۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ:نہ تو نرسری لیول سے مرد کھلاڑی سامنے آ رہے ہیںنہ خواتین کے کھیلوں کی ترقی پر کوئی کام ہو رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ سسٹم ناکام ہے — اور اس ناکامی کے باوجود بجٹ، تنخواہیں اور فنڈز جاری ہیں۔

?? فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کی ذمہ داریاں — کیا بس نصابی ہی رہ گئی ہیںنظری طور پر، ایک فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کا کردار بہت وسیع ہے جس کابنیادی کام بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کی تربیت سمیت انہیںکھیلوں کے اصول و ضوابط سکھانا بھی ہے اسی طرح ان میں نظم و ضبط، ٹیم ورک، لیڈر شپ پیدا کرنا بھی شامل ہیں فزیکل ایجوکیشن ٹیچرز کا بنیادی کامفٹنس، غذائیت، صحت کی تعلیم دینے سمیت ایونٹس، ٹورنامنٹس اور گراونڈ مینجمنٹ بھی ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام ذمہ داریاں یا تو سرے سے پوری نہیں ہو رہیں، یا برائے نام ہیں۔

ان حالات میں فوری انکوائری اور ریفارمز کی ضرورت ہے آیا سکولوں میں فزیکل ایجوکیشن سے وابستہ ٹیچر صرف تنخواہیں وصول کررہے ہیں یا پھر نصاب تک محدود ہیں ‘ غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے انہیں فنڈز کتنا مل رہا ہے اور اب تک ان لوگوں نے کتنے کھلاڑی پیدا کئے ہیں.اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹرز کی کارکردگی پر مبنی انکوائری کی جائے۔اور ہر اسکول سے سالانہ کھیلوں کی رپورٹس اور کھلاڑیوں کی فہرست مانگی جائے۔وصول شدہ فیس، سہولیات اور اخراجات کی آڈٹ رپورٹ تیار کی جائے۔کیونکہ ہر سال ان اساتذہ کے ٹورز تو ہوتے ہیں اساتذہ کی ری ٹریننگ کر کے انہیں جدید فزیکل ایجوکیشن اور کوچنگ سے ہم آہنگ کیا جائے۔اورباقاعدہ مرد و خواتین کھلاڑیوں کی تربیت کا فالو اپ سسٹم بنایا جائے۔

موجودہ حالات میں اگر آج نہیں جاگے تو کل کھیل بھی دفن ہو گا اور کھلاڑی بھی نظر ہی نہیں آئیں گے اگر یہ نیٹ ورک — جو خود کو کھیلوں کا بیس سٹرکچر کہلواتا ہے — واقعی کام کرے، تو نہ صرف اسکولوں میں کھیلوں کا معیار بلند ہو سکتا ہے، بلکہ پورے صوبے کو قومی و بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی میسر آ سکتے ہیں۔فی الحال، یہ ایک خاموش دھوکہ ہے — جسے بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
#kikxnow #sportnews #pet #physical #education #teacher #musarratullahjan #games #sporsnews #player #nursery #pakistan

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 710 Articles with 594241 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More