21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ
عنهما قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ
غَدَاةٍ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ فَقَالَ : رَأَيْتُ قُبَيْلَ الْفَجْرِ
کَأَنِّي أُعْطِيْتُ الْمَقَالِيْدَ وَالْمَوَازِيْنَ. فَامَّا
الْمَقَالِيْدُ فَهٰذِهِ الْمَفَاتِيْحُ، وَأَمَّا الْمَوَازِيْنُ، فَهِيَ
الَّتِي تَزِنُوْنَ بِهَا، فَوُضِعْتُ فِي کِفَّةٍ وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي
کِفَّةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ، فَرَجَحْتُ. ثُمَّ جِيئَ بِأَبِي بَکْرٍ،
فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ ثُمَّ جِيئَ بِعُمَرَ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ،
ثُمَّ جِيئَ بِعُثْمَانَ فَوُزِنَ بِهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ.
رَوَاهُ احْمَدُ وابْنُ ابِي شَيْبَةَ . وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ :
وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
21 : اخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 76، الرقم : 5469، وابن ابي شيبة
في المصنف، 6 / 176، الرقم : 30484، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 38 /
116، والھيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 58.59.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سورج طلوع ہونے
کے بعد حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور
فرمایا : میں نے فجرسے تھوڑا پہلے خواب میں دیکھا گویا مجھے چابیاں اور
ترازو عطاء کیے گئے ہیں. مقالید تو یہ چابیاں ہیں اور ترازو وہ ہیں جن کے
ساتھ تم وزن کرتے ہو. سو مجھے ایک پلڑے میں رکھا گیا اور میری امت کو دوسرے
پلڑے میں پھر وزن کیا گیا تو میرا پلڑا بھاری تھا. پھر ابو بکر کو لایا گیا
پھر اس کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا. پھر عمر
کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری
تھا. پھر عثمان کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا پھر وہ
پلڑا اٹھا لیا گیا.‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے. امام ہیثمی نے
فرمایا : اس کے رجال ثقات ہیں.
22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ : ثَ.لَاثَةٌ مِنْ
قُرَيْشٍ أَصْبَحُ قُرَيْشٍ وُجُوْهًا، وَأَحْسَنُهَا أَخْ.لَاقًا،
وَأَثْبَتُهَا حَيَائً، إِنْ حَدَّثُوْکَ لَمْ يَکْذِبُوْکَ، وَإِنْ
حَدَّثْتَهُمْ لَمْ يُکَذِّبُوْکَ : أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّيْقُ، وَأَبُوْ
عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ :
إِسْنَادُه حَسَنٌ.
22 : اخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 56، الرقم : 16، وابو نعيم في
حلية الأولياء، 1 / 56، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 157.
’’حضرت عبد اﷲبن عمرو رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : قریش
میں سے تین افراد ایسے ہیں جو سب سے زیادہ روشن چہرے والے ، سب سے زیادہ
حسنِ اخلاق کے حامل اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں. اگر
وہ تمہارے ساتھ بات کریں تو جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تم اُن کے ساتھ بات
کرو گے تو تمہیں نہیں جھٹلائیں گے، وہ حضرت ابو بکر، حضرت ابو عبید ہ بن
الجراح اور حضرت عثمان بن عفان ث ہیں.‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے. امام ہیثمی نے
فرمایا : اس کی اسناد حسن ہے.
23. عَنْ ابِي جُحَيْفَةَ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ رضی الله عنه وَهُوَ
مُسَجًّی بِثَوْبِه قَدْ قَضٰی نَحْبَهُ فَجَائَ عَلِيٌّ رضی الله عنه
فَکَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِه ثُمَّ قَالَ : رَحْمَةُ اﷲِ عَلَيْکَ ابَا
حَفْصٍ، فَوَ اﷲِ، مَا بَقِيَ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم
احَدٌ احَبُّ إِلَيَّ مِنْ انْ الْقَی اﷲَ تَعَالٰی بِصَحِيْفَتِه مِنْکَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ.
23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 109، الرقم : 866، وأبو نعيم في
مسند أبي حنيفة، 1 / 28، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 359، الرقم : 32018،
وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 370، والحاکم في المستدرک، 3 / 100، الرقم
: 4523.
’’حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے (وصال کے بعد ان کے) پاس موجود تھا اس حال میں کہ انہیں کفن میں لپیٹا
جا چکا تھا اور وہ (شہادت پا کر) اپنی نذر پوری کر چکے تھے کہ اسی دوران
حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے آئے تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر (ان کو مخاطب کر کے ) کہا : اے ابا حفص! اﷲ تعالیٰ
کی آپ پر رحمت ہو، اﷲ کی قسم! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مجھے
کوئی شخص آپ سے زیادہ محبوب نہ رہا تھا کہ جس کے مصحف نما چہرے کو دیکھ کر
اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرتا.‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ، ابو نعیم اور حاکم نے روایت کیا ہے.
وفي رواية : عَنْ سَالِمٍ قَالَ : جَائَ أَهْلُ نَجْرَانَ إِلٰی عَلِيٍّ
رضی الله عنه فَقَالُوْا : يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، کِتَابُکَ
بِيَدِکَ، وَشِفَاعَتُکُ بِلِسَانِکَ، أَخْرَجَنَا عُمَرُ مِنْ أَرْضِنَا
فَارْدُدْنَا إِلَيْهَا فَقَالَ لَهُمْ عَلِيٌّ : وَيْحَکُمْ إِنَّ عُمَرَ
کَانَ رَشِيْدَ الْامْرِ وَلَا أُغَيِّرُ صَنْعَةَ عُمَرَ.
رَوَاهُ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، کتاب الفضائل، ما ذکر في فضل عمر بن الخطاب،
6 / 357، الرقم : 32004، واحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 366، الرقم :
537، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 120، الرقم : 20162، والخطيب البغدادي
في تاريخ بغداد، 6 / 185، الرقم : 3240، والحموي في معجم البلدان، 5 / 269.
’’ایک روایت میں حضرت سالم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل نجران حضرت
علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : اے امیر المومنین! آپ کا نامہ اعمال
آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کی شفاعت آپ کی زبان میں ہے. ہمیں حضرت عمر نے
ہماری زمین سے نکال دیا ہے آپ ہمیں ہماری زمین کی طرف لوٹا دیں. حضرت علی
رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : تمہارا برا ہو! بے شک عمربالکل درست کام انجام
دینے والے تھے اور میں ان کا کیا ہوا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا.‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے.
وفي رواية : عَنْ أَبِي السَّفَرِ قَالَ : رُئِيَ عَلٰی عَلِيٍّ بُرْدٌ
کَانَ يُکْثِرُ لُبْسَهُ، قَالَ : فَقِيْلَ لَه : إِنَّکَ لَتُکْثِرُ لُبْسَ
هٰذَا الْبُرْدِ، فَقَالَ : إِنَّهُ کَسَانِيْهِ خَلِيْلِي وَصَفِيِّي
وَصَدِيْقِي وَخَاصِّي عُمَرُ، إِنَّ عُمَرَ نَاصَحَ اﷲَ فَنَصَحَهُ اﷲُ
ثُمَّ بَکٰی. رَوَاهُ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، کتاب الفضائل، ما ذکر في فضل عمر بن الخطاب
ص، 6 / 356، الرقم : 31997، وابن أبي الدنيا في الإخوان / 248، الرقم :
221، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 44 / 363.
’’ایک روایت میں حضرت ابو سفر بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے
پاس ایک ایسی چادر دیکھی گئی جو وہ اکثر پہنا کرتے تھے. راوی نے بیان کیا :
تو ان سے کہا گیا کہ آپ کثرت سے یہ چادر(کیوں) پہنتے ہیں؟ تو انہوں نے
فرمایا : بے شک یہ مجھے میرے خلیل، نہایت عزیز اور خاص دوست عمر نے پہنائی
تھی. بے شک عمر اﷲتعالیٰ کے لیے خالص ہوا تو اﷲتعالیٰ نے اس کے لیے خالص
بھلائی چاہی پھر آپ رونے لگ گئے.‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے.
24. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه
وآله وسلم غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ اسْوَدَ.
فَجَائَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما فَادْخَلَهُ، ثُمَّ جَائَ
الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَه، ثُمَّ جَائَ تْ فَاطِمَةُ رضي اﷲ
عنها فَادْخَلَهَا، ثُمَّ جَائَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَادْخَلَه، ثُمَّ
قَالَ : ﴿إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اهْلَ
الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا﴾.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ رَاهْوَيْه.
24 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل اهل بيت النبي
صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1883، الرقم : 2424، وابن أبي شيبة في
المصنف، 6 / 370، الرقم : 36102، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 672،
الرقم : 1149، وابن راهويه في المسند، 3 / 678، الرقم : 1271، والحاکم في
المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے.
حضرت حسن بن علی رضی اﷲعنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں
اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے
ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہاآئیں تو آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ
وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما
لیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ
بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں
خوب پاک و صاف کر دے.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ، احمد اور ابن راہویہ نے روایت کیا ہے.
25. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم
عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاه، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ
نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّه، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله
وسلم : مَا انْتَجَيْتُه وَلٰ.کِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ
التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
25 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب ص،
5 / 639، الرقم : 3726، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الرقم : 1321،
والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 186، الرقم : 1756.
’’حضرت جابرص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ
طائف کے موقع پر حضرت علیص کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک
سرگوشی کی. تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی،
بلکہ خود اﷲ نے اس سے سرگوشی کی ہے.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ابی عاصم اور طبرانی نے روایت کیا ہے. اور امام
ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے.
26. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما، قَالَ : آخَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم بَيْنَ أَصْحَابِه فَجَائَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ،
فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِکَ وَلَمْ تُؤَاخِ
بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ. فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله
وسلم : أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا
حَدَيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
26 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5
/ 636، الرقم : 3720، والحاکم في المستدرک، 3 / 15، الرقم : 4288، وابن
عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42، الرقم : 51، والنووي في تهذيب الأسماء، 1 /
318.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تو حضرت
علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے
کسی کا بھائی نہیں بنایا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا :
(اے علی!) تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو.‘‘
اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے. امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث
حسن غریب ہے.
27. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ
عَمَّتِي عَلٰی عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها فَسَئَلْتُ : أَيُّ النَّاسِ کَانَ
أَحَبَّ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ :
فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ : زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ
مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ
التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ :
هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
27 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب فضل فاطمة بنت محمد صلی
الله عليه وآله وسلم ، 5 / 701، الرقم : 3874، والحاکم في المستدرک، 3 /
171، الرقم : 4744، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403، الرقم : 1008،
وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 / 263، والمزي في تهذيب الکمال، 4 /
512، الرقم : 906، وقال : حسن غريب.
’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنی خالہ کے
ساتھ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے پوچھا :
لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون
تھا؟ آپ نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا. پھر کہا گیا : اور مردوں میں
سے (کون سب سے زیادہ محبوب تھا)؟ آپ نے فرمایا : ان کے شوہر اگرچہ مجھے ان
کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے. امام ترمذی نے
فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے. امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح
ہے.
28. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم
قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ، وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ
الْحَاکِمُ، وَقَالَ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
28 : أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة ث، 3 / 133، الرقم :
4625، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 / 305، والسخاوي في مقاصد
الحسنة، 1 / 394، الرقم : 578، وقال : صحيح.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : میں (تمام) اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی (تمام)
عرب کا سردار ہے.‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے.
29. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم : اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقاَلَ الْحَاکِمُ : هٰذَا
حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وَشَوَاهِدُه عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ
مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه صَحِيْحَةٌ.
وفي رواية عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم :
اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، وَأَيضًا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی
الله عنه عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ
اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
29 : اخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة ث، 3 / 152، الرقم :
4682، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 76، الرقم : 10006، وابو نعيم في
حلية الاولياء، 5 / 58، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، وابن عساکر في
تاريخ مدينة دمشق، 42 / 351، 353، 355، والديلمي (عن معاذ بن جبل ص) في
مسند الفردوس، 4 / 294، الرقم : 6865.
’’حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے.‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے. امام حاکم نے فرمایا :
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس
کے شواہدات صحیح ہیں.
ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی طرف دیکھنا عبادت
ہے.‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے.
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور یہی روایت
حضرت ابو ہریرہ ص، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت
ہے.‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے.
وفي رواية : عَنْ طَلِيْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : رَايْتُ عِمْرَانَ بْنَ
حُصَيْنٍ رضی الله عنه يُحِدُّ النَّظَرَ إِلٰی عَلِيٍّ رضی الله عنه
فَقِيْلَ لَه، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم
يَقُوْلُ : اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
وَعَنْ ثَوْبَانَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَا : قَالَ
رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ
عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 109، الرقم : 207، والهيثمي في مجمع
الزوائد، 9 / 109، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 / 355.
’’ایک روایت میں حضرت طلیق بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو
ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے. کسی نے ان سے پوچھا (کہ آپ ایسا کیوں کر رہے
ہیں؟) انہوں نے فرمایا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
فرماتے ہوئے سنا ہے : علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے.‘‘ اس حدیث کو امام
طبرانی نے روایت کیا ہے.
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما دونوں نے
بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی طرف
دیکھنا عبادت ہے.‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے.
30. وفي رواية : عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : رَأَيْتُ أَبَا
بَکْرٍ يُکْثِرُ النَّظَرَ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ فَقُلْتُ لَه : يَا
أَبَتِ، أَرَاکَ تُکْثِرُ النَّظَرَ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ فَقَالَ : يَا
بُنَيَةُ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ :
اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية : عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ الصِّدِّيْقَةِ ابْنَةِ
الصِّدِّيْقِ، حَبِيْبَةِ حَبِيْبِ اﷲِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قُلْتُ
لِأَبِي : إِنِّي ارَاکَ تُطِيْلُ النَّظَرَ إِلٰی عَلِيِّ بْنِ ابِي
طَالِبٍ؟ فَقَالَ لِي : يَا بُنَيَةُ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه
وآله وسلم يَقُوْلُ : اَلنَّظَرُ فِي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ
ابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية : عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : أَنَّ النَّبِيَّ صلی
الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَلنَّظَرُ إِلٰی عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ
ابْنُ عَسَاکِرَ.
30 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 / 355، 350، والزمخشري في
مختصر کتاب الموافقة / 14.
’’ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ
کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے تھے. سو میں نے ان سے پوچھا : اے ابا جان! کیا
وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں
؟ حضرت ابوبکر صدیق صنے فرمایا : اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے.‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے بیان کیا ہے.
ایک روایت میں حضرت عروہ ص، حضرت عائشہ صدیقہ بنت صدیق، حبیبہ، حبیب اﷲ رضی
اﷲ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں نے اپنے والد (حضرت
ابو بکر ص) سے عرض کیا : بے شک میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ حضرت علی رضی
اللہ عنہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے)؟ تو انہوں نے
فرمایا : اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
یہ فرماتے سنا ہے : علی کے چہرے کی تکنا عبادت ہے.‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے بیان کیا ہے.
ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ آپ نے بیان کیا : حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی طرف دیکھنا عبادت
ہے.‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے. |