پشاور کا سیلابی میچ: کیمرے تھے، لیکن "انسٹال" نہ تھے!

پشاور میں سیلاب زدگان کے لیے کرکٹ میچ منعقد ہوا۔ بظاہر مقصد بڑا نیک تھا، مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ میچ کھیل کم اور کامیڈی شو زیادہ لگ رہا تھا۔ انتظامیہ نے ایسا ماحول بنایا کہ شائقین کرکٹ بھول کر یہ سوچنے لگے کہ وہ کسی سرکس میں بیٹھے ہیں یا سرکاری دفاتر کے ایکشن ری پلے میں۔

سب سے پہلے تو اسٹیڈیم کا کنفیوڑن۔ عوام کو بتایا گیا کہ یہ ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم ہے، پھر اچانک کسی نے کہا یہ تو عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ کھلاڑیوں نے بھی الجھ کر اسے "پشاور اسٹیڈیم" کا نام دے دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک اسٹیڈیم تین ناموں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو بیچارے کھلاڑی اور تماشائی کیا کریں؟ کوئی کہہ رہا تھا ارباب نیاز، کوئی عمران خان اور کوئی بس پشاور۔ یہ حال تو ایسا ہوا جیسے ایک بندہ شادی میں تین دلہنوں کے ساتھ براجمان ہو اور سب ہی اپنے آپ کو "اصل" بیوی قرار دے رہی ہوں۔

اب آتے ہیں صفائی کی صورتحال پر۔ ریکارڈ کے مطابق اسٹیڈیم میں پانچ مستقل ملازم اور چار ڈیلی ویجز کام کرتے ہیں۔ لیکن میچ کے دن صرف چار سویپرز کو لایا گیا اور تیرہ مالی ڈیوٹی پر لگائے گئے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ آخر کرکٹ میچ میں کھلاڑیوں سے زیادہ مالی کیوں تھے؟ لگتا ہے کہ اسٹیڈیم کو گراونڈ کم اور "باٹینکل گارڈن" زیادہ سمجھ لیا گیا۔ ویسے بھی ہمارے مالی صاحب "ایویں" آ گئے تھے۔ کسی نے نہ بلایا، نہ پوچھا۔ جیسے شادی میں وہ رشتہ دار جو بغیر دعوت کے آ جاتے ہیں اور پھر بریانی کی دیگ پر بیٹھ جاتے ہیں۔

صفائی کا حال یہ تھا کہ میچ کے بعد بھی گرانڈ ایسے لگ رہا تھا جیسے کرکٹ نہیں، سبزی منڈی لگی ہو۔ اتوار کے روز صفائی ہوئی ہی نہیں، پیر کو دوبارہ جھاڑو اٹھا لیا گیا۔ اب ذرا سوچیں: اتنے بڑے میچ کے بعد بھی اگر گراونڈ صاف نہ ہو تو کیا شائقین کرکٹ کھیلنے آئے تھے یا کچرا اٹھانے؟

اصل مزے کی بات یہ تھی کہ اسٹیڈیم میں کیمرے تو لگائے گئے تھے لیکن انسٹال ہی نہیں ہوئے۔ جی ہاں، کیمرے دیواروں پر ایسے لٹکے تھے جیسے شادی کے ہال میں بلب تو لگے ہوں مگر سوئچ ہی غائب ہو۔ ایس ایچ او صاحب شکایت پرگراونڈ کے اندر گئے تو پتہ چلا کہ "کیمرے ہیں، لیکن کام نہیں کرتے"۔ یعنی وہی والا حساب، "آدم نشتہ بوئی شتہ"۔ خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ ہو جاتا تو انتظامیہ کے پاس بہانہ تیار تھا: "جی، کیمرے تو تھے، لیکن انسٹال نہیں تھے۔" بالکل ایسے جیسے امتحان میں کتابیں ساتھ ہوں لیکن دماغ انسٹال نہ ہو۔

اب ذرا بابر اعظم کے ساتھ پیش آنے والی صورتحال سنیں۔ بڑے شوق سے لوگ بابر اعظم کے ساتھ چپک گئے، سیلفیاں بنائیں، کس بھی کر ڈالا۔ لیکن انتظامیہ کو پتہ ہی نہ چلا کہ یہ لوگ تھے کون۔ آخر کار جب ان افراد نے اپنے سوشل میڈیا پر تصویریں ڈال دیں تب جا کے ان کی شناخت ہوئی۔ یعنی ہمارے حکام سکیورٹی کے بجائے فیس بک پر تحقیق کرتے ہیں۔ لگتا ہے اگلی بار پولیس ایف آئی آر کی بجائے "انسٹا اسٹوری" کی بنیاد پر کارروائی کرے گی۔

یہاں تک کہ پولیس کی وردی میں رضا کار بھی ڈیوٹی دیتے رہے۔ اب یہ تو کمال ہی ہوگیا۔ وردی پہن لو، ہیرو بن جاو۔ لگتا ہے کل کو اگر کوئی کک باکسرگراونڈ میں گارڈ بن کر آ جائے تو انتظامیہ کو یقین ہو جائے گا کہ "بھائی یہ تو پولیس کا نیا ونگ ہے۔"

تماشائی سلاخیں پھلانگ کر کھلاڑیوں تک پہنچ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے کرکٹ نہیں، "گلیڈی ایٹرز" کا میچ چل رہا ہو۔ سکیورٹی کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی چاہتا تو پورا گرا?نڈ ہی گھر لے جاتا اور انتظامیہ کو پتا ہی نہ چلتا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں روایت یہی ہے: "حادثہ ہو جائے تو خاموشی، اور اگر بچ نکلیں تو شکر ادا کرو۔"

اب سوچنے کی بات ہے کہ سیلاب زدگان کے نام پر کرکٹ میچ ہوا لیکن جو پیغام دیا گیا وہ یہ تھا کہ ہماری انتظامیہ کی کارکردگی بھی سیلاب میں بہہ گئی ہے۔ جس گراونڈ میں کھلاڑی کھیلنے آئے تھے، وہاں صفائی نہیں تھی، کیمرے نہیں تھے، سکیورٹی نہیں تھی، لیکن مالی اور سویپرز کی رپورٹیں البتہ پوری تھیں۔

آخر میں سوال یہی ہے: یہ سب غفلت تھی یا مزاحیہ ڈرامہ؟ اگر یہ ڈرامہ تھا تو کم از کم عوام کو ٹکٹ کے ساتھ "کامیڈی شو" کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا۔ سیلاب زدگان کے لئے امداد جمع کرنے کے بہانے جو تماشا لگا وہ کرکٹ کم اور سرکاری بدانتظامی کا کھلا مظاہرہ زیادہ تھا۔ اگلی بار شاید ہمیں اسٹیڈیم کے دروازے پر بورڈ لگانا چاہیے:

"یہاں میچ دیکھنے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی نااہلی کا شو بھی مفت ہے۔"
#PeshawarComedy #FloodReliefMatch #SecurityFail #SportsDrama #PakistanCricket #KPKManagement
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 764 Articles with 624057 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More