عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم – کھیل، سیاست یا جھنڈا بازی؟


پشاور میں 19 سال بعد کرکٹ کے شائقین کو ایک بڑے میچ کا تحفہ ملا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک طرف سیلاب زدگان کے لیے فنڈز اکٹھے ہوں اور دوسری طرف عوام کو تفریح فراہم کی جائے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہ میچ کرکٹ کم اور سوالات زیادہ پیدا کر گیا۔ وہ بھی ایسے سوالات جن کا جواب دینے کے لیے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس الفاظ تو ہیں، مگر ہمت نہیں۔

سب سے پہلے بات جھنڈے کی۔ جی ہاں، قومی پرچم کے ساتھ پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کس نے لگایا؟ ڈائریکٹر صاحب تو فرما رہے تھے کہ وہ تو اہلکاروں کے ساتھ گراو¿نڈ کی لیولنگ میں مصروف تھے۔ تو کیا جھنڈا آسمان سے اترا تھا؟ یا پھر کسی جن نے لگا دیا؟ اگر کل کو پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں اپنی مرضی کی جماعت کا پرچم لہرایا گیا تو پھر یہ کھیل کے میدان نہیں، سیاسی جلسے بن جائیں گے۔ کرکٹ میچ کھیلنے والے کھلاڑی ہوں گے یا جلسہ کرنے والے رہنما؟

اب آتے ہیں اخراجات کی طرف۔ پشاور زلمی نے کھلاڑیوں کے اخراجات بھی اٹھائے، ہوٹل کا خرچ بھی کیا، کھلاڑیوں کو آرام دہ کمروں میں بھی رکھا۔ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے پانی پلایا، ریفریشمنٹ دی اور ساو¿نڈ سسٹم کا بھی بندوبست کیا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ فنڈنگ کتنی ہوئی؟ اور کہاں سے ہوئی؟ اس پر مکمل چپ سادھ لی گئی ہے۔
ٹکٹوں کی کہانی بھی مزے کی ہے۔ بتایا گیا کہ:20 ہزار ٹکٹ پرنٹ کیے گئے اور 1000 وی آئی پی ٹکٹ پرنٹ کیے گئے جبکہ 200 وی وی آئی پی ٹکٹ پرنٹ کیے گئے لیکن کس نے خریدے؟ کتنے فروخت ہوئے؟ اور آمدنی کہاں گئی؟ اس پر اندھیرا ہے۔ وی وی آئی پی ٹکٹ سن کر لگتا ہے جیسے کسی کو یاد آ گیا ہو کہ بھائی "وی آئی پی" تو ہر جگہ ہوتا ہے، کچھ "وی وی آئی پی" بھی ڈال دو تاکہ امیر لوگوں کو احساس ہو کہ وہ باقی سب سے زیادہ خاص ہیں۔

ڈونیشن بکس کی کہانی اور بھی دلچسپ ہے۔ دس ڈونیشن بکس تیار کیے گئے مگر رکھے ہی نہیں گئے۔ اب یہ بکس تیار کرنے والوں نے پیسے کمایا یا بکس ہی غائب ہوگئے، یہ کسی کو پتہ نہیں۔ اگر سیلاب زدگان کے لیے فنڈ جمع کرنے کی نیت تھی تو پھر ڈونیشن بکس کہاں گئے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بکس صرف "کاغذی کارروائی" میں رکھے گئے اور اصل میں کسی گودام میں پڑے دھول کھا رہے ہیں؟

اچھا جی، یتیم بچوں کی شرکت کا بڑا چرچا ہوا۔ زمونگ کور، فکس اٹ اور آغوش کے بچوں کو مفت میں میچ دکھایا گیا۔ کمشنر پشاور ڈویڑن ریاض محسود نے خود جا کر بچوں سے ملاقات بھی کی۔ ایک کاروباری شخصیت نے سو بچوں کے لیے ایک لاکھ روپے مالیت کے ٹکٹ خریدے۔ یہ سب باتیں دل کو خوش کرتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا باقی کے 20 ہزار ٹکٹ صرف یتیم بچوں کے لیے پرنٹ ہوئے تھے؟ یا پھر عوام سے پیسے لیے گئے اور ان کا حساب دینے میں دقت ہو رہی ہے؟

پوسٹرز اور بینرز پر بھی کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی۔ کونسی فرم نے تیار کیے؟ کتنے پیسے لگے؟ کتنے پوسٹر چھپے؟ اور کہاں لگائے گئے؟ یہ سب راز کے پردے میں ہے۔ اگر مقصد شفافیت تھی تو حساب کتاب سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟

اب آخر میں ایک اور سوال — اسٹیڈیم کا نام۔ پہلے تو کرکٹ اسٹیڈیم ہوتا تھا، اب "عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم" ہے۔ جب قومی جھنڈے کے ساتھ پی ٹی آئی کا جھنڈا بھی لہرا دیا جائے تو شک یہی ہوتا ہے کہ یہ اسٹیڈیم کھیل کے لیے ہے یا سیاست کے لیے؟ کیا ہم کھیل کے ذریعے سیاست کو صاف کرنا چاہتے ہیں یا سیاست کے ذریعے کھیل کو بھی آلودہ کر رہے ہیں؟

سچ تو یہ ہے کہ یہ چیرٹی میچ کرکٹ کے بجائے سوالات کا کھیل نکلا۔ کس نے کتنا کمایا، کون سا جھنڈا کیوں لگایا، ڈونیشن بکس کہاں گئے، ٹکٹوں سے کتنی آمدنی ہوئی — کوئی نہیں جانتا۔ البتہ ایک چیز سب کو پتہ ہے: یتیم بچوں نے میچ ضرور دیکھا، مگر اصل "یتیم" تو شفافیت اور جواب دہی نکلی۔

#Peshawar #CharityMatch #SportsOrPolitics #WhereIsTheMoney #Transparency #HelplessAccountability

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 764 Articles with 624058 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More