لاون خراب: انصاف کے بعد ڈکار
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پنجابی کا ایک محاورہ ہے “لاون خراب”۔ مطلب یہ کہ سالن کھانے والے خود تو پیٹ بھر کر مزے لیں مگر جاتے جاتے اس میں تھوک بھی دیں تاکہ کوئی اور اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہی تماشا ہمارے ہاں انصاف کے ایوانوں میں نظر آتا ہے۔
ہماری عدلیہ کے بڑے بڑے جج صاحبان کی داستانیں دیکھ لیجیے۔ تین تین دہائیاں بنگلوں، پلاٹوں، سرکاری گاڑیوں، پروٹوکول، سیکیورٹی اور لاکھوں روپے تنخواہوں کے مزے لوٹنے کے بعد جب ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن سامنے آتا ہے تو ان کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ برسوں تک “جی حضور” کہتے رہنے والے جناب یکدم انقلابی تقریریں جھاڑنے لگتے ہیں۔ جن فیصلوں پر دستخط کر کے نظام کو کمزور کیا، جن احکامات کے ذریعے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا، انہی پر بیٹھ کر بعد میں لمبے لمبے لیکچر دیے جاتے ہیں۔
افتخار چوہدری کی کہانی یاد کریں۔ موصوف نے طاقت کے نشے میں ایسے فیصلے کیے جنہوں نے اداروں کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ جب وقت بدلا تو وہی “انصاف کے مجاہد” بن گئے۔ ثاقب نثار کو دیکھیے، اپنے دور میں ڈیم فنڈ کے نام پر تماشہ لگایا، عوام کو خوش کن خواب دکھائے، اور جاتے جاتے ایسے فیصلے سنائے جن کا بوجھ آج بھی عوام اٹھا رہے ہیں۔ آصف کھوسہ اور عمر عطا بندیال نے بھی آخر میں ایسے ہی انقلابی ڈکار مارے۔
اب اطہر من اللہ صاحب بھی اسی قافلے میں شامل دکھائی دیتے ہیں۔ رخصتی کے وقت عوام کو بتا رہے ہیں کہ نظام فرسودہ ہے، عدلیہ نے ماضی میں غلط فیصلے کیے اور عوام کو انصاف نہیں ملا۔ سوال یہ ہے کہ حضور! یہ ادراک آپ کو پہلے کیوں نہ ہوا؟ جب آپ کرسی پر بیٹھے تھے تب تو زبان بند رہی، قلم ہر حکم پر “جی سر” لکھتا رہا، اب اچانک ہاضمے کی دوا کے ساتھ ضمیر بھی جاگ گیا؟
مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا پس منظر دیکھیں تو نظام پر تنقید کچھ عجیب لگتی ہے۔ والد صاحب ایوب خان کے منظورِ نظر بیوروکریٹ، والدہ ضیا الحق کی لاڈلی رکنِ اسمبلی، خود پرویز مشرف کے وزیر، اور پھر ظہیر الاسلام کی نوازش سے جج۔ یعنی ساری عمر اقتدار اور طاقت کے دسترخوان پر مرغ مسلم کھایا، دہی بھلے کے پلیٹیں صاف کیں، اور جب ریٹائرمنٹ قریب آئی تو یکدم سب کچھ گندا لگنے لگا۔ اب افواہیں یہ ہیں کہ صاحب موصوف “بیوی کے کرش کھوتا نمبر 804” کی انقلابی پارٹی میں شمولیت کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔
یہ تماشا دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ اگر نظام واقعی اتنا ہی ظالم اور فرسودہ تھا تو آپ اس میں دہائیاں گزار کر مزے کیوں لیتے رہے؟ کیوں آپ نے کبھی کرسی پر بیٹھ کر وہی بات نہیں کی جو آج جلسوں اور لیکچرز میں کہہ رہے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب حضرات انصاف کی پلیٹ میں سالن کھاتے ہیں اور جب سیر ہو جاتے ہیں تو لاون خراب کر کے باقی عوام کو ذلیل کرتے ہیں۔
عوام کے لیے یہ ڈرامے نئے نہیں۔ دہائیوں سے یہی کھیل جاری ہے۔ جج، جرنیل اور سیاستدان سبھی اپنی اپنی باری پر کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں، بھرپور لطف لیتے ہیں، اور جاتے وقت ڈکار کے ساتھ نصیحتیں بانٹتے ہیں۔ عوام ہر بار سمجھتے ہیں کہ شاید اب کچھ بدلے گا، مگر اگلا آنے والا بھی وہی کرتا ہے جو پچھلے کر گئے۔
اصل المیہ یہ ہے کہ اس “لاون خراب انصاف” کے کھیل نے عوام کا اعتماد تباہ کر دیا ہے۔ عام آدمی کو پتا ہے کہ عدالت میں انصاف کاغذ پر لکھا رہتا ہے، عملی طور پر طاقتور کے لیے الگ قانون ہے اور کمزور کے لیے الگ۔ جب بڑے جج صاحبان ریٹائر ہو کر اعتراف کرتے ہیں کہ ماضی کے فیصلے غلط تھے تو یہ اعتراف عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ وہ عوام جو برسوں عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے، وہ سوچتے ہیں کہ اگر سب کچھ پہلے سے ہی غلط تھا تو پھر ہماری زندگیوں کے ضائع ہونے کا حساب کون دے گا؟
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی عدالتی تاریخ میں جتنے بڑے فیصلے ہوئے، ان میں سے اکثر طاقتوروں کو فائدہ دینے کے لیے کیے گئے۔ مارشل لا کو جواز دیا گیا، آئین کو معطل کرنے والوں کو ریلیف دیا گیا، عوامی مینڈیٹ کو بار بار کچلا گیا۔ اور جب ان سب پر پردہ اٹھا تو وہی جج صاحبان جنہوں نے دستخط کیے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد حق گوئی کے ہیرو بن گئے۔
عوام کو اب سمجھنا ہوگا کہ انصاف کے ایوانوں سے کسی نجات دہندہ کی امید رکھنا فضول ہے۔ جب تک نظام میں بنیادی اصلاح نہیں ہوگی، جب تک احتساب واقعی سب کا نہیں ہوگا، یہ کھیل جاری رہے گا۔ آج ایک جج لاون خراب کرے گا، کل دوسرا، اور پرسوں تیسرا۔ پلیٹ ہر بار عوام کے سامنے خالی آئے گی۔
تو حضور! یہ ڈکاریں عوام کے زخموں کا مرہم نہیں بلکہ ان کی تضحیک ہیں۔ اگر آپ کو واقعی نظام کی خرابی کا احساس ہے تو کرسی پر بیٹھے بیٹھے دکھائیے، فیصلے بدل کر دکھائیے، اصولوں پر کھڑے ہو کر دکھائیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کے انقلابی بیانات صرف “لاون خراب” کی ایک اور قسط ہیں۔ اور عوام اب ان ڈکاروں سے تنگ آ چکے ہیں۔ |