خیبرپختونخوا کے اولمپئینز اور لالہ ایوب ہاکی اسٹیڈیم: اعزازات کی باتیں اور حقیقت کی زمین


پاکستان میں کھیلوں کی دنیا میں اولمپئینز کا ذکر عام طور پر تب ہوتا ہے جب کوئی جیتتا ہے یا کوئی دنیا کے سامنے نام پیدا کرتا ہے۔ باقی وقت؟ بس تقریباً “سب ٹھیک ہے” کے جملے اور وعدے۔ دنیا بھر میں اولمپئینز کو اعزازات دیے جاتے ہیں، ان کے نام پر سڑکیں، اکیڈمیز اور اسٹیڈیمز قائم کیے جاتے ہیں تاکہ نئی نسل دیکھے اور سمجھے کہ عظیم کام کرنے والوں کی قدر کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ روایت کہیں کہیں موجود ہے، لیکن خیبرپختونخوا میں حقیقت کچھ اور ہی منظر پیش کرتی ہے: وعدے تو ہیں، لیکن عمل وہی جو زمانہ بھول چکا ہو۔

دنیا کے ممالک اپنے اولمپئینز کو قومی ہیروز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ، یورپ اور جاپان میں سڑکیں، اسٹیڈیمز، اور سکول اکیڈمیز ان کے نام سے جڑی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں حالیہ مثال ارشد ندیم ہے، جس نے پیرس اولمپکس 2024 میں جیولن تھرو میں طلائی تمغہ جیتا۔ حکومت نے انہیں ہلال امتیاز سے نوازا اور اسلام آباد میں ایک شاہراہ کا نام ان کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا۔ بلاشبہ، یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ باقی 50 سال کے اولمپئینز کہاں ہیں؟ ان کی قدر زندگی میں کیوں نہیں کی جاتی؟صوبے کے کھلاڑی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرتے رہے ہیں۔ لیکن صوبائی حکومت کی “جہاں اولمپئین وہاں اسٹیڈیم” پالیسی عملی طور پر زیادہ تر بعد از مرگ ہوتی ہے۔

خیبرپختونخوا کے اہم اولمپئینز میں شامل ہیں قاضی محب (Bannu) — فیلڈ ہاکی، جن کے نام پر بنوں میں مرکزی ہاکی اسٹیڈیم موجود ہے۔
لالہ ایوب (پشاور) — سابق وزیر کھیل کے والد، پشاور میں ہاکی اسٹیڈیم اور ایرینا ان کے نام سے منسوب ہے۔
قاضی صلاح الدین (Peshawar) — 1968 کے میکسیکو اولمپکس میں ہاکی کے طلائی تمغہ یافتہ، بعد میں خواتین ہاکی ٹیم کے کوچ بھی رہے۔
مصدّق حسین (Peshawar) — 1988 اور 1992 کے اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
انوار بیگ (Peshawar) — 1948 لندن اولمپکس میں شریک ہوئے۔
مزید کھلاڑی جو خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے نام پر عملی اعزاز نہیں:
بریگیڈیر حمیدی (Bannu) اور ان کے بھائی رشید جونئیر
فرخت خان (Bannu)
لالہ فضل الرحمان (گولڈ میڈیلسٹ)
نعیم اختر (ایبٹ آباد)
رحیم خان (سوات)
فٹ بال کے نامور کھلاڑی: اسلم خان
والی بال کے کھلاڑی: فرید اللہ، شاہد، طفیل، عبدالرحیم خان شامل ہیں

اگر آپ پشاور، ملاکنڈ، بونیر یا مردان دیکھیں تو وہاں بھی ہاکی یا دیگر کھیلوں کے لیے گراو¿نڈز موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ گراونڈز اکثر کسی اولمپئین کی زندگی میں نہیں بن پاتے۔ جب وہ وفات پا جاتے ہیں، تبھی سب کو یاد آتا ہے کہ “یہی تو ہمارا ہیرو تھا”۔پشاور میں واقع لالہ ایوب ہاکی اسٹیڈیم اس کی ایک واضح مثال ہے۔ لالہ ایوب، جن کا اصل نام سید محمد ایوب تھا، نہ صرف ایک معتبر کھلاڑی بلکہ اسپین کی ہاکی ٹیم کے کوچ بھی رہ چکے ہیں۔

اسٹیڈیم تین ماہ میں مکمل ہونا تھا، لیکن کئی ماہ بعد تیار ہوا گول پوسٹ، بیک بورڈز اور گراونڈ میں خامیاں ہیںمصنوعی ٹرف غیر معیاری اور بگڑنے والا ہے ‘ جبکہ اسپرنکلرز ناکارہ، جس سے ٹرف کی حالت مزید خراب
یعنی، نام تو لالہ ایوب کے رکھا، لیکن کام ایسا کہ کوئی بھی کھلاڑی وہاں آرام سے کھیلنے کی ہمت نہ کرے۔ نوجوان ہاکی ٹورنامنٹس ضرور ہوئے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اعزاز صرف نام تک محدود رہا۔

صوبائی حکومت کی پالیسی کے مطابق جہاں اولمپئین ہو، وہاں گراونڈ بنایا جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ کس نے کیا کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ زندگی میں اولمپئینز کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟یہ وہی صورتحال ہے جس میں کھلاڑی اپنی زندگی کے بہترین دن کھیل کے لیے قربان کرتے ہیں، اور جب لوگ انہیں یاد کرتے ہیں، وہ زمین بوس ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہر اولمپئین کی کہانی میں چھپی ہے، چاہے وہ ہاکی ہو، فٹ بال ہو، والی بال ہو یا دیگر کھیل ان سب نمایاں کھلاڑیوں کے نام پر گراﺅنڈز‘ روڈز کرنا بنتا ہے.

بنوں میں قاضی محب کے نام پر گراونڈ ہے، پشاور میں لالہ ایوب کا گراونڈ اور ایرینا ہے، اور باقی شہر یا ضلع؟… خالی، خاموش، اور بے نام۔دیگر شہر جیسے ڈی آئی خان، کوہاٹ، اسلامیہ کالج مردان اور سوات میں موجود گراونڈز بھی اکثر وعدوں کی صورت میں رہ جاتے ہیں، حقیقی تعمیر میں نہیں۔خیبرپختونخوا کے کھلاڑی پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں، مگر صوبے میں ان کے اعزاز میں عملی اقدامات محدود ہیں۔ حکومت کی نیت شاید اچھی ہو، لیکن عمل کی کمی، بروقت سرمایہ کاری نہ ہونا اور معیار کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ سب محض کاغذی عزت تک محدود رہ جاتا ہے۔اگر واقعی کھیلوں کو فروغ دینا ہے، تو صرف ناموں پر گراونڈز اور ایرینا بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ ان کھلاڑیوں کی زندگی میں توجہ، وسائل، سہولیات اور تربیت فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ نئی نسل کھیل کے میدان میں آ سکے اور حقیقت میں اپنے ہیروز کو دیکھ سکے، نہ کہ صرف ان کے ناموں کے اشتہارات۔

#KPChampions #LalaAyubHockeyStadium #PakOlympians #SportsNeglect #CriticalSportsJournalism #KPKAthletes #ForgottenHeroes #HockeyInKP #OlympicLegends #SportsInfrastructure
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 800 Articles with 669603 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More