صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی اکیس گاڑیوں کا "جادوئی غائب ہونا"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
اگر آپ کو لگتا ہے کہ صرف جادوگر ہی چیزوں کو لمحوں میں غائب کرسکتے ہیں، تو آپ نے شاید صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکاروں کو کم سمجھا ہے۔ یہ لوگ ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ اکیس سرکاری گاڑیاں اور ان کا ریکارڈ ایسے ہضم کر گئے جیسے بچے چاکلیٹ کھا کر ریپر کو قالین کے نیچے چھپا دیں۔کہانی کچھ یوں ہے کہ صوبے کے مختلف پراجیکٹس کے لیے گاڑیاں خریدی گئیں۔ مقصد یہ تھا کہ کھلاڑیوں کو سہولت ملے، ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسز چلیں، اور کھیلوں کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو۔ لیکن انقلاب تو خیر کیا آنا تھا، گاڑیاں ہی انقلاب سے پہلے بھاگ گئیں۔
جب اپریل 2025 میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ حضور یہ بتا دیں کہ گاڑیاں کہاں ہیں، تو ڈائریکٹریٹ کا جواب آیا:"ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں۔" یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ ہوٹل سے بریانی کا آرڈر کریں، پلیٹ خالی ملے، اور ویٹر کہہ دے: "بریانی تو موجود ہے، مگر ہمارے پاس اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔" سال 2023/24 اور 2024/25 میں ان گاڑیوں کی فیولنگ اور مینٹیننس پر کتنا خرچہ ہوا؟ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ پٹرول بھی غائب، ریکارڈ بھی غائب، اور گاڑیاں بھی غائب۔ اگر یہ سب چیزیں ایک ساتھ غائب ہیں تو شاید یہ کوئی نئی اولمپک اسپورٹ ہے: "Synchronised Corruption."
معلوم یہ ہوا ہے کہ کچھ گاڑیاں گریڈ 20 کے افسران نے لے رکھی ہیں۔ کچھ سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر کے پاس ہیں۔ اور کچھ افسران نے تو بیویوں اور بچوں کے لیے بھی گاڑیاں سرکاری خزانے سے لے لی ہیں۔ یعنی سرکاری گاڑیاں اب نہ صرف آفس کی پارکنگ میں ہیں بلکہ بچوں کی سکول پک اینڈ ڈراپ اور بیگم کی شاپنگ کے لیے بھی حاضر ہیں۔اب سوال یہ ہے: کیا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو پتہ ہے کہ وہ اسپورٹس ڈائریکٹریٹ ہیں یا Rent-a-Car کمپنی؟
جب میڈیا نے سوال اٹھایا تو کمیٹی بنائی گئی۔ کمیٹی نے فائلیں دیکھیں، چائے پی، بسکٹ کھائے اور نتیجہ نکالا: "ہو جائے گا، ہو رہا ہے۔"یعنی کمیٹی نے اس کام کو اپنی روایتی سپورٹس کا درجہ دے دیا: Waiting Marathon.
کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ گاڑیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ "جاننے کی کوشش" کب تک؟ 2026 تک؟ یا اس وقت تک جب گاڑیاں خود پنکھ لگا کر دفتر واپس آجائیں؟ دو ریٹائرڈ اہلکاروں کے پاس بھی گاڑیاں تھیں۔ ایک نے تو ایف آئی آر کے ڈر سے گاڑی واپس کردی، لیکن ایسی حالت میں کہ گاڑی کا گیٹ تک کام نہیں کرتا۔ جس کو گاڑی ملی، وہ سوچ رہا تھا کہ "مبارک ہو یا قل خوانی کا انتظام کروں؟"
دوسرا ریٹائرڈ اہلکار بضد رہا: "میں نے اس گاڑی پر خرچہ کیا ہے، اس لیے واپس نہیں کروں گا۔"یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ کسی کے گھر کا فریج اٹھا لیں، اس میں بوتلیں ڈال کر ٹھنڈی کریں اور پھر کہیں: "اب یہ میرا ہے، میں نے خرچہ کیا ہے۔"
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب صوبے میں وہ حکومت ہے جو اپنے نام کے ساتھ "انصاف" جوڑ کر بیٹھی ہے۔ مگر انصاف کا حال یہ ہے کہ سرکاری افسران گاڑیاں گھروں میں لیے بیٹھے ہیں اور بیوروکریسی سب دیکھ کر خاموش ہے۔یعنی "انصاف" صرف تقریروں میں ہے، عملی طور پر گاڑیاں افسران کے بچوں کے ہاتھ میں ریموٹ کار بن گئی ہیں۔
یہ گاڑیاں کہاں ہیں؟ ان کی فیولنگ اور مینٹیننس کا پیسہ کہاں گیا؟ ان گاڑیوں کے اصل حق دار، یعنی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسز کے ملازمین، کیوں محروم ہیں؟ کمیٹی کب تک "ہو جائے گا" کہتی رہے گی؟ یہ پورا معاملہ دراصل ایک "Sports Comedy Show" ہے، جہاں کھلاڑی نہیں بلکہ افسران گول کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ میدان کرکٹ کا نہیں، کرپشن کا ہے۔ اگر یہ ڈائریکٹریٹ واقعی کوئی کھیل کھیل رہی ہے تو اس کا نام ہونا چاہیے: Hide and Seek – Sports Directorate Edition
عوام پوچھ رہے ہیں: "گاڑیاں کہاں ہیں؟" افسران جواب دیتے ہیں: "ریکارڈ نہیں ہے۔" عوام: "تو گاڑیاں واپس کریں۔" افسران: "ہو جائے گا۔" عوام: "کب؟" افسران: "جب تک ہم بور نہ ہو جائیں۔"
#SportsCorruption #MissingCars #BureaucracyComedy #AccountabilityNow #WhereAreTheCars #SportsFundsMisuse #ComedyOfErrors #PublicMoneyGone #JusticeDelayed #MeritOnPaper
|