پشاور سپورٹس کمپلیکس کے کیمرے، کمپیوٹر اور کمپلینٹ نمبر 12868


پشاور اسپورٹس کمپلیکس کا حال ہی نرالا ہے۔ یہاں کھیلوں کے میدان کم اور کھیلوں کے بہانے زیادہ ہیں۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ لگتا ہے، منصوبے بنتے ہیں، تصویریں کھنچتی ہیں، فیتے کٹتے ہیں اور پھر سناٹا چھا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک شہری نے ہمت دکھائی اور خیبر پختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت درخواست دائر کر ڈالی۔ سوالات بڑے سادہ تھے: کمپیوٹر کتنے ہیں؟ کیمرے کتنے ہیں؟ کتنے کام کرتے ہیں اور کتنے صرف دیکھنے کے لیے ہیں؟ خرچ کتنا ہوا اور مرمت پر کتنے پیسے گئے؟

اب یہ سوالات تو بالکل ایسے ہیں جیسے آپ شادی میں دلہا سے پوچھ لیں کہ ولیمے کا کھانا کس کے خرچ پر ہے۔ خاموشی چھا جاتی ہے۔ بالکل یہی حال یہاں ہوا۔ درخواست 4 جولائی کو دائر کی گئی، کمپلینٹ نمبر بھی لگا، 12868۔ لیکن جواب؟ جناب جواب آج تک ایسا غائب ہے جیسے کرکٹ میں گیند اسپاٹ فکسنگ کے بعد "غیر ارادی طور پر" باونڈری کے پار چلی جائے۔

کہتے ہیں کہ کمپلیکس میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔ کاغذوں میں یہ تعداد شاید سینکڑوں میں ہوگی، لیکن حقیقت میں یہ کیمرے صرف دو کام کرتے ہیں: ایک تو پرندوں کو ریکارڈ کرتے ہیں جو بجلی کے تاروں پر بیٹھتے ہیں، دوسرا مالی کی آمد و رفت کو۔ اگر کوئی کھلاڑی یا عام شہری آئے تو کیمروں کو شاید نیند آ جاتی ہے۔ عوام کا سوال یہ ہے کہ جب اتنے پیسے لگے، تو کم از کم فوٹیج تو نظر آنی چاہیے۔ لیکن فوٹیج کا حال بھی وہی ہے جو امتحان میں نقل پکڑے جانے کے بعد امیدوار کا ہوتا ہے: "جی ویڈیو تو بنی تھی مگر ڈیلیٹ ہو گئی۔"

اب آئیے کمپیوٹرز کی طرف۔ ڈائریکٹریٹ میں کمپیوٹرز کی تعداد بھی ایک معمہ ہے۔ بظاہر ہر شعبے میں لگے ہیں، لیکن اصل کام صرف دو تین کرتے ہیں، باقی یا تو "سسٹم ہینگ" ہیں یا صرف ٹیبل پر پڑے پڑے گرد جمع کرتے ہیں۔ شہری نے پوچھا کہ پچھلے دس سال میں کتنے کمپیوٹر خریدے گئے اور کتنے ناکارہ ہو گئے؟ میرا دل چاہتا ہے کوئی بتا دے کہ ناکارہ کمپیوٹر اور ناکارہ فائلوں کی تعداد برابر ہی ہوگی۔ آپ یقین کریں کہ اگر ان کمپیوٹروں کو بولنے کی اجازت ملے تو سب سے پہلے یہی کہیں گے: "ہمیں صرف رپورٹوں میں دکھانے کے لیے خریدا گیا تھا، کام کے لیے نہیں۔"

کالم نگار کا ایمان ہے کہ ہمارے ہاں مرمت کے نام پر سب سے زیادہ مزاح چھپا ہوا ہے۔ جب کمپیوٹر خراب ہوتا ہے تو اس پر اتنا خرچ دکھایا جاتا ہے جتنا خرچ ایک نئی مشین خریدنے پر بھی نہ آئے۔ کیمروں کی مرمت کا حال بھی یہی ہے۔ ہر بجٹ میں "مرمت اور دیکھ بھال" کی مد میں پیسے نکلتے ہیں، لیکن مرمت صرف کاغذ پر ہوتی ہے۔ حقیقت میں کیمرے وہیں کے وہیں ٹوٹے پڑے ہوتے ہیں۔

اب آر ٹی آئی درخواست کی طرف آتے ہیں۔ قانون کہتا ہے کہ مقررہ مدت میں جواب دیا جائے گا۔ لیکن ہمارے ہاں قانون اور کھیل دونوں کا حال ایک جیسا ہے: اصول کتاب میں موجود ہوتے ہیں، میدان میں لاپتہ۔ کمپلینٹ نمبر 12868 کی کہانی بھی بالکل ایسے ہے جیسے کوئی میچ بار بار بارش کی وجہ سے ملتوی ہوتا جائے اور آخر میں اعلان ہو کہ "نتائج کا اعلان کسی اور دن ہوگا۔" عوام حیران ہیں کہ آخر یہ تاخیر کیوں؟ اگر سب کچھ صاف ستھرا ہے تو ریکارڈ دینے میں کیا حرج ہے؟ لیکن اگر ریکارڈ ہی موجود نہیں یا اتنا مبہم ہے کہ دکھانے سے زیادہ سوال اٹھیں گے، تو پھر خاموشی بہتر سمجھی جاتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے کھیلوں کے ادارے اصل کھیل سے زیادہ سیاست اور ڈرامے کے لیے مشہور ہیں۔ کیمروں کی فوٹیج اگر کبھی دستیاب ہو بھی جائے تو شاید اس میں زیادہ تر دفتر کے بابو چائے پیتے اور کمپیوٹر پر "سولٹیئر" کھیلتے نظر آئیں گے۔ اس پر بھاری بھرکم بجٹ کا جواز کون دے گا؟

اب عوامی سوالات دلچسپ ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ جب لاکھوں روپے کے منصوبے ہوں اور پھر ریکارڈ بھی نہ ملے تو کیا یہ سب کچھ "جادو" سے غائب ہو گیا؟ کچھ کہتے ہیں شاید یہ کیمرے صرف اس لیے لگائے گئے تھے کہ افتتاحی تقریب میں اچھی تصویریں آئیں۔ کچھ کا کہنا ہے کمپیوٹرز اس لیے خریدے گئے کہ افسران کے بچے سکول کے اسائنمنٹ آسانی سے پرنٹ کر سکیں۔ حکومت کہتی ہے کہ شفافیت ہوگی۔ لیکن شفافیت کا مطلب اگر صرف پریس ریلیز میں بیان دینا ہے تو پھر عوام کو یہی ملے گا۔ حقیقت میں شفافیت وہاں ہوتی ہے جہاں کیمروں کی فوٹیج عوام کو دکھائی جائے، کمپیوٹرز کا حساب کتاب سامنے آئے، اور بجٹ کی تفصیل کاغذ پر نہیں بلکہ میدان میں نظر آئے۔ لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ سب کچھ پردے کے پیچھے ہے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ پشاور اسپورٹس کمپلیکس کے کیمرے اور کمپیوٹر دونوں ہی "تماشائی" ہیں، کھلاڑی نہیں۔ کیمرے دیکھنے کے بجائے سو رہے ہیں، کمپیوٹر کام کرنے کے بجائے جمائی لے رہے ہیں، اور ریکارڈ دینے والے افسران صرف "کل آجائے گا" کے بہانے دے رہے ہیں۔ کمپلینٹ نمبر 12868 کی قسمت بھی وہی ہے جو ہمارے کھیلوں کے منصوبوں کی ہوتی ہے: بڑی دھوم دھام سے آغاز، لمبی خاموشی سے انجام۔

اب سوال یہ ہے کہ عوام کو یہ سب کچھ کب پتہ چلے گا؟ شاید اسی دن جس دن کمپیوٹرز از خود جاگ اٹھیں گے، کیمرے خود ریکارڈنگ شروع کر دیں گے اور متعلقہ افسر خود آ کر کہیں گے: "حضور! یہ ہے وہ ریکارڈ جس پر لاکھوں روپے لگے تھے اور یہ ہے اس کی اصل حالت۔" تب تک عوام کے حصے میں صرف طنز، سوالات اور وہی مشہور جملہ ہے: "ریکارڈ زیر التوا ہے۔"
#PeshawarSportsComplex #SportsDirectorateKP #RTIRequest #PublicRightToKnow #AccountabilityMatters #CCTVComedy #ComputersOnVacation #PendingSinceForever #TransparentOrInvisible #WhereIs12868 #SystemNotResponding #CameraSleepingMode #BudgetEatenNotSpent #TaxMoneyAtRisk #ShowUsTheRecord #RightToInformation #PublicFundsPublicRight #StopCorruptionNow #TransparencyInSports #NoMoreDelays #AnswerThePeople #SportsScandalKP #DataMissing #DigitalTransparency #AccountabilityNow #SportsComplexSecrets #WhereIsTheRecord #PublicDeservesAnswers a#RTIUnderAttack


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 827 Articles with 685430 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More