کیا کھیل میں حیا کے تقاضے ممکن نہیں؟

پشاور کا قمر زمان اسکواش کورٹ برسوں سے کھیل کے شائقین کے لیے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کئی بڑے کھلاڑیوں نے اپنے کھیل کا آغاز کیا اور ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ لیکن حالیہ دنوں میں اس کورٹ کا منظر نامہ ایک ایسے رخ پر جا رہا ہے جس نے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کھیل ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے، جسمانی تندرستی، ذہنی سکون اور نظم و ضبط کے لیے کھیل کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کھیل کے ساتھ حیا اور اقدار کو ساتھ لے کر چلنا ہمارے بس میں نہیں رہا؟ کیا کھیل کے میدان میں دینی اور ثقافتی حدود کے تقاضے پورے کرنا ناممکن ہے؟

اسلام نے کھیل کی مخالفت کبھی نہیں کی۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو جسمانی تربیت کے لیے مختلف کھیلوں کی ترغیب دی۔ لیکن ساتھ ہی ایک بنیادی اصول بھی دیا: “جس میں حیا نہیں، وہ جو چاہے کرے۔” یہ اصول بتاتا ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ، خواہ وہ کھیل ہو، تجارت ہو یا معاشرتی تعلقات، حیا سے خالی نہیں ہونا چاہیے۔

قمر زمان اسکواش کورٹ کے شام کے اوقات میں ایک افسوسناک رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بعض خواتین کھلاڑی ایسے لباس اور انداز کے ساتھ کورٹ میں آتی ہیں جو نہ تو پختون معاشرتی روایات کے مطابق ہیں اور نہ ہی اسلامی حدود سے ہم آہنگ۔ کھیل اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس کے لیے بنیادی لوازمات بھی ضروری ہیں۔ اگر خواتین کے لیے علیحدہ کورٹ موجود ہے تو وہاں کھیلنے کی سہولت کیوں استعمال نہیں کی جا رہی؟ مردوں کے کورٹ میں خواتین کی موجودگی نے ماحول کو غیر ضروری دباو اور کشیدگی سے دوچار کر دیا ہے۔ وہاں پریکٹس کرنے والے مرد کھلاڑیوں کے ذہن منتشر رہتے ہیں، توجہ کھیل سے ہٹ کر کہیں اور جا نکلتی ہے۔ یہ صورت حال کھیل کے معیار کو متاثر کرتی ہے اور ساتھ ہی معاشرتی روایات کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے۔

یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ حیا صرف مردوں کے لیے نہیں اور نہ ہی صرف خواتین کے لیے ہے۔ اگر مردوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ نگاہیں نیچی رکھیں، حدود کا خیال کریں اور پردے کا احترام کریں، تو خواتین پر بھی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے اکثر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ مردوں پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے اور خواتین کو نظرانداز کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں پر یکساں اصول لاگو ہوتے ہیں۔ کھیل کے میدان میں بھی یہی توازن برقرار رکھنا ضروری ہے، ورنہ کھیل اپنی افادیت کھو دیتا ہے اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔

قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اس تمام صورتحال پر وہاں موجود اہلکار اور انتظامیہ خاموش ہیں۔ نہ کسی کو روکنے کی ہمت ہے اور نہ کوئی اصول لاگو کرنے کا حوصلہ۔ انتظامیہ ڈر یا دباو کے باعث مداخلت نہیں کرتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ضابطے ہی لاگو نہ ہوں تو ادارے اور قواعد کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ کھیل کا میدان ایک منظم ماحول چاہتا ہے۔ اگر یہاں بھی بے ترتیبی اور بے حیائی کو نظرانداز کیا جائے تو نئی نسل کو کیا پیغام ملے گا؟

اسلامی تعلیمات میں حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک طرف ہم اپنے خطبات اور تقاریر میں حیا کو اہمیت دیتے ہیں، دوسری طرف عملی میدان میں اس کے برعکس رویہ اختیار کرتے ہیں۔ پختون ثقافت میں بھی عورت کے احترام اور پردے کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ اگر یہی اقدار کھیل کے میدان میں پامال ہوں تو یہ صرف کھیل کا نقصان نہیں بلکہ معاشرتی بگاڑ کا آغاز ہے۔ کھیلوں کے میدان قوم کے آئینے ہوتے ہیں۔ اگر وہاں سے ہی بے حسی، بے حیائی یا روایات سے انحراف کا پیغام جائے تو یہ آنے والی نسلوں کے لیے خطرہ ہے۔

یہ وقت ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ڈی جی اسپورٹس خیبرپختونخوا کو اس میں براہ راست مداخلت کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے خواتین کھلاڑیوں کے لیے علیحدہ اوقات اور علیحدہ کورٹ کا استعمال یقینی بنایا جائے۔ اگر خواتین کے لیے الگ سہولت موجود ہے تو اس کے استعمال پر سختی سے عمل کرایا جائے۔ دوسرا، اسکواش کورٹ سمیت دیگر کھیلوں کے مراکز میں ضابطہ اخلاق اور ڈریس کوڈ نافذ کیا جائے۔ یہ ضابطہ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی یکساں ہو۔ تیسرے، انتظامیہ کو یہ باور کرایا جائے کہ خاموشی جرم سے کم نہیں۔ اگر کوئی اہلکار یا افسر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

ہمیں یہ حقیقت سمجھنی ہوگی کہ کھیل اور حیا ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ کھیل انسان کو مضبوط بناتا ہے جبکہ حیا اس کی شخصیت کو وقار دیتی ہے۔ دونوں ساتھ ساتھ چلیں تو معاشرہ متوازن رہتا ہے۔ لیکن اگر کھیل کو بہانے کے طور پر حدود کو توڑنے کی اجازت دے دی جائے تو نہ کھیل باقی رہتا ہے اور نہ ہی معاشرتی وقار۔

قمر زمان اسکواش کورٹ کی موجودہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔ یہ صرف ایک کھیل کے میدان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے معاشرتی رویے کا عکس ہے۔ اگر آج ہم نے اس پر توجہ نہ دی تو کل یہ بگاڑ ہمارے گھروں، تعلیمی اداروں اور سڑکوں پر بھی نظر آئے گا۔ کھیل کے میدان ہمیں حوصلہ، برداشت اور عزت سکھانے کی جگہ ہیں۔ انہیں بے حیائی یا بے نظمی کا شکار ہونے دینا کسی صورت قبول نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم کھیل کو کھیل ہی رکھیں گے یا اسے اپنی اقدار کے خلاف ایک ہتھیار بنا دیں گے؟ کیا ہم انتظامیہ کو خواب غفلت سے جگا سکیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ہم اپنی نئی نسل کو یہ سکھا سکیں گے کہ کھیل کے ساتھ ساتھ حیا بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے؟


#SportsAndModesty #PeshawarSquash #QamarZamanCourt #SportsEthics #ModestyInSports #PashtunCulture #IslamAndSports #RespectAndValues #SportsManagementKP #YouthAndSports #kikxnow #digitalcreator #musarratullahjan
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 794 Articles with 666066 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More