چھ منٹ اور نو سیکنڈ: فیس بک پر کچہری یا مذاق؟

کہا جاتا ہے کہ حکومت عوام کے مسائل سننے کے لیے ”کھلی کچہری“ لگاتی ہے۔ لیکن خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے: کھلی کچہری بھی لگائی اور "اوپن" بھی رکھی، مگر اتنی اوپن کہ صرف چھ منٹ اور نو سیکنڈ میں دروازے ہی بند ہو گئے۔ باقی کے سوالات اور عوامی امیدیں بھی "نوٹ کر لی گئیں" جیسے بجلی کا بل نوٹ ہوتا ہے، مگر کبھی جمع نہیں ہوتا۔

یہ کچہری فیس بک پر ہورہی تھی، یعنی عوام کے لیے ڈیجیٹل انقلاب۔ لیکن انقلاب اتنا جلدی آیا اور چلا گیا کہ لوگ یہ سوچتے رہ گئے کہ آیا یہ لائیو سیشن تھا یا کسی نے ”رییل“ لگا دی تھی۔ کچھ شہریوں کا کہنا ہے کہ شاید انجینئرنگ ونگ نے خود ہی بٹن دبا کر نشریات بند کی ہوں تاکہ کوئی ان سے پلستر کی کوالٹی نہ پوچھ لے۔ عوام نے سوالات کے انبار لگا دیے تھے۔ حسن خیل سپورٹس کمپلیکس کے بارے میں پوچھا گیا، ڈی ڈی او شپ پر بات ہوئی، انجینئرنگ ونگ کی کارکردگی پر سوالات اٹھے اور کھیلوں کے معاملات بھی زیر بحث آئے۔ مگر جواب؟ جواب میں بس اتنا کہا گیا: "سوالات نوٹ کر لیے گئے ہیں، مستقبل میں ان پر کام کیا جائے گا۔"

یعنی اگر آپ کو آج مسئلہ ہے تو کل سوچا جائے گا، کل نہیں تو پرسوں، اور پرسوں نہیں تو کسی کمیٹی کے بعد، کمیٹی بھی نہیں تو کمیشن، اور اگر کمیشن بھی ناکام ہو گیا تو کم از کم ایک اور ”ای کچہری“ ضرور ہوگی۔ یہ تکنیکی خرابی یا عوامی سوالوں کا بوجھ تھا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیش آیا ڈائریکٹریٹ نے وضاحت دی کہ "تکنیکی وجوہات" کی وجہ سے لائیو سیشن زیادہ دیر نہ چل سکا۔ سوال یہ ہے کہ آخر تکنیکی خرابی کہاں تھی؟

شائد فیس بک کی انٹرنیٹ کیبل نے دم توڑ دیا؟ یا کسی اہلکار نے موبائل کا ڈیٹا پیکیج وقت پر ریچارج نہیں کیا؟ یا پھر یہ ہوا کہ سوالات دیکھ کر کسی نے کہا: "بھائی! یہ زیادہ مشکل ہیں، لائیو ابھی بند کرو، ورنہ پسینے نکل جائیں گے۔" یہ تکنیکی وجوہات بھی ویسی ہی ہیں جیسے "سڑک جلد بنے گی"، "اسپتال کا افتتاح عنقریب ہوگا"، یا "اس بار بھی قومی کھیل ہاکی کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔"

لائیو سیشن بند ہونے کے بعد سیکرٹری سپورٹس سعادت حسن کی ڈھائی منٹ کی ویڈیو جاری ہوئی۔ اس میں انہوں نے کہا: "ہم نے سوالات نوٹ کر لیے ہیں اور ان پر مستقبل میں کام ہوگا۔" یہ وضاحت سن کر عوام نے سوچا کہ اتنے لمبے جملے کے لیے ڈھائی منٹ کیوں لگے؟ شاید کیمرا مین کہہ رہا تھا: "سر! دوبارہ لیجیے، روشنی ٹھیک نہیں ہے۔" یا پھر شاید یہ ویڈیو ایڈیٹنگ ونگ کے پاس گئی جہاں "نوٹ کر لیا گیا" کے جملے پر سب ٹائٹل لگائے گئے۔

شہریوں نے کہا کہ کھلی کچہری کا مقصد عوام کو موقع دینا تھا کہ وہ براہ راست اپنی آواز پہنچا سکیں۔ مگر یہ کچہری تو ایک طرح کی ”جھانسی کی پرچی“ نکلی۔ کچھ نے کہا کہ چھ منٹ کی کچہری تو چائے بنانے سے بھی کم وقت میں ختم ہوگئی۔ ایک اور شہری نے طنز کیا: "میرے تو سوال کھولنے سے پہلے ہی کچہری بند ہو گئی۔"کچھ لوگوں نے آر ٹی آئی (Right to Information) کی خاموشی پر خاص طور پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کے بقول، ڈائریکٹریٹ نے اس معاملے پر ایسا رویہ اپنایا جیسے بچے ہوم ورک نہ کرنے پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا کھلی کچہری عوام کے مسائل سننے کا ذریعہ تھی یا صرف ایک نمائشی عمل؟ عوام کا کہنا ہے کہ اگر کھلی کچہری محض فیس بک لائیو اور ڈھائی منٹ کی ویڈیو تک محدود رہے تو یہ وقت کا ضیاع ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ ہر سپورٹس کمپلیکس میں باقاعدہ نشستیں ہوں جہاں کھلاڑی، ایسوسی ایشنز، صحافی اور عوام براہ راست سوال کرسکیں۔

ورنہ پھر اگلی بار جب اعلان ہوگا کہ "کھلی کچہری" ہے تو لوگ کہیں گے: "بھائی! پچھلی بار بھی چائے کا کپ ٹھنڈا ہونے سے پہلے ختم ہوگئی تھی، اب کیا دیکھنا؟" اگر غور کریں تو یہ کچہری اس ملک کی اسپورٹس گورننس کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے: کاغذوں پر منصوبے، مگر عملی میدان میں خاموشی۔ عوام کے سوالات نوٹ کرنا، مگر جواب نہ دینا۔ ”تکنیکی وجوہات“ کے پیچھے سب کچھ چھپا دینا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی میچ میں کھلاڑی کہے: "میں نے رنز تو نوٹ کر لیے ہیں، بس ابھی کھیلنے کا موڈ نہیں ہے۔" یا کوچ کہے: "ہم نے ٹیم بنا لی ہے، مگر کھیلنا مستقبل میں ہوگا۔"

چھ منٹ اور نو سیکنڈ کی یہ ای اوپن کچہری عوام کے لیے ایک سبق ہے کہ صرف ”لائیو“ ہونا ہی کافی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ عوام کو جواب بھی دیا جائے۔ وگرنہ یہ سب بس ایک فیس بکی ڈرامہ بن جاتا ہے جس میں تماشائی بھی بور ہو جاتے ہیں اور کھلاڑی بھی نظر نہیں آتے۔ عوام کا مطالبہ بالکل واضح ہے: کھلی کچہری کو نمائشی نہ بنایا جائے بلکہ حقیقی مکالمہ بنایا جائے۔ ورنہ چھ منٹ کی اس لائیو نے پہلے ہی یہ طے کر دیا ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ شفافیت کے میدان میں شاید اب بھی پریکٹس میچ کھیل رہا ہے، اور وہ بھی بغیر گیند اور بیٹ کے۔

#KPSports #EOpenCourt #FacebookLive #Accountability #SportsGovernance #Transparency #RTI #KhyberPakhtunkhwa


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 797 Articles with 666557 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More