خیبرپختونخوا میں ہارس رائیڈنگ کلب: عوام کے رونے کے بیچ گھوڑوں کی سواری

خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت نے گزشتہ سال کے بجٹ میں ایک منفرد اور کچھ حد تک دلچسپ منصوبے کا اعلان کیا: پشاور میں ہارس رائیڈنگ کلب قائم کیا جائے گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں 37 کنال پر گھوڑوں کا فارم بنایا جا رہا ہے تاکہ صوبے میں گھڑ سواری کے کھیل کو فروغ دیا جا سکے، اور پشاور میں بھی زمین مختص کی گئی ہے تاکہ حیات آباد میں ایک جدید ہارس رائیڈنگ کلب قائم کیا جا سکے۔

یہ منصوبہ سن کر شاید گھڑ سواری کے شوقین خوش ہوں، لیکن باقی عوام کے لیے یہ اعلان زیادہ تر طنز اور حیرت کا باعث ہے۔ ایک طرف شہری روزانہ کھانے کے لیے ترس رہے ہیں، بجلی اور پانی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں، اور بنیادی سہولیات کی کمی کی شکایات کر رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت اربوں روپے کی سرمایہ کاری گھوڑوں کے لیے کر رہی ہے۔

پشاور کی گلیوں میں عام شہری ابھی بھی ناجائز تجاوزات، ٹریفک کے مسائل اور بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ خواتین اور بچے کھانے کے لیے انتظار کرتے ہیں، بزرگ پانی کے لیے لائنوں میں کھڑے ہیں، اور نوجوان روزگار کے مواقع کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی ترجیح گھوڑوں کو میدان میں دوڑانے کے لیے زمین مختص کرنا ہے۔یہ منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک طرف لوگ سڑکوں پر بھوک سے کراہ رہے ہیں، تو دوسری طرف کسی اعلیٰ سرکاری افسر کی کمر میں گھوڑا باندھ کر پشاور کے نئے ہارس رائیڈنگ کلب کا معائنہ ہو رہا ہے۔ اگر یہ ممکن ہے کہ حکومت ہارس رائیڈنگ کے لیے زمین اور فنڈز فراہم کر سکتی ہے، تو پھر دیگر کھیل، مثلاً کرکٹ، ہاکی، فٹبال، اور اتھلیٹکس کے لیے کیوں نہیں؟

ڈیرہ اسماعیل خان میں زیر تعمیر فارم میں لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اور پشاور میں کلب کے لیے زمین کی خریداری کے اقدامات جاری ہیں۔ شہری سوال اٹھا رہے ہیں: اگر حکومت کے پاس زمین، فنڈز اور منصوبہ بندی موجود ہے تو باقی کھیلوں کے لیے کیوں نہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عوام کی بھوک اور روزگار کے مسائل کے حل کے لیے کب ایسا عزم دکھایا جائے گا؟

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گھوڑوں کی سواری ایک مہنگا کھیل ہے، جس میں عام عوام کی شرکت تقریباً ناممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کی سرمایہ کاری اکثر محدود طبقے کے لیے فائدہ مند ہوگی، نہ کہ عوام کے لیے جو کھانے، پینے اور روزگار کے مسائل میں پھنسے ہیں۔شہری یہ سوچ کر حیران ہیں کہ اگر حکومت کے پاس زمین، فنڈز، اور منصوبہ بندی موجود ہے، تو باقی کھیلوں کے لیے کیوں نہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کے حل کے لیے کب ایسا عزم دکھایا جائے گا؟

یہ منظر کچھ یوں ہے: بزرگ لوگ پانی کے لیے لائنوں میں کھڑے ہیں، بچے اسکول کے لیے پیدل راستے تلاش کر رہے ہیں، خواتین خریداری کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، اور اسی وقت سرکاری افسران ہارس رائیڈنگ کلب کی زمین کا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ واقعی طنز کا مقام ہے کہ صوبے میں گھوڑے عوام سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ شہری طنزیہ انداز میں کہتے ہیں: "ہارس رائیڈنگ تو سب دیکھ لیں، لیکن ہمیں تو بس روٹی چاہیے!" اور یہی سوال حکومت کے لیے باقی رہتا ہے: کیا عوام کی ضرورتوں کو نظرانداز کر کے صرف مہنگے کھیلوں پر توجہ دینا انصاف ہے؟

نوجوانوں کے لیے دیگر کھیلوں کے مواقع محدود ہیں۔ کرکٹ، فٹبال، ہاکی، اور اتھلیٹکس کے میدان یا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا سرکاری فنڈز کی کمی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ ایسے میں ہارس رائیڈنگ پر توجہ دینا ایک سوالیہ فیصلہ ہے۔

مثال کے طور پر پشاور میں نوجوان فٹبال کھلاڑیوں کے لیے کوئی جدید سہولت موجود نہیں، جبکہ اربوں روپے کے ہارس رائیڈنگ منصوبے پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ نوجوان پوچھتے ہیں: "ہماری کھیلوں کی تربیت اور مستقبل کا کیا؟"اگر یہ ممکن ہے کہ حکومت ہارس رائیڈنگ کے لیے زمین اور فنڈز فراہم کر سکتی ہے، تو پھر دیگر کھیلوں کے لیے کیوں نہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کے حل کے لیے کب ایسا عزم دکھایا جائے گا؟

یہ واقعی طنزیہ اور حقیقت پسندانہ سوال ہے: ایک طرف لوگ بھوک سے کراہ رہے ہیں، بجلی اور پانی کے بحران میں مبتلا ہیں، اور بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت گھوڑوں کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔شہری اب طنزیہ انداز میں یہ کہہ رہے ہیں: اگر حکومت کے پاس اربوں روپے کی سرمایہ کاری گھوڑوں کے لیے ممکن ہے، تو باقی عوام کے لیے کیوں نہیں؟ یہ طنز اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات عوام کے حقیقی مسائل سے دور ہیں۔

یہ منظر کچھ یوں ہے کہ پشاور کے عوام کھانے کے لیے ترس رہے ہیں، پانی کے لیے لائنوں میں کھڑے ہیں، اور نوجوان روزگار کے مواقع کی تلاش میں ہیں، جبکہ اعلیٰ افسران ہارس رائیڈنگ کلب کی زمین کا معائنہ کر رہے ہیں۔یہ صورتحال نہ صرف تنقیدی ہے بلکہ طنزیہ بھی ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہارس رائیڈنگ کلب ایک دلچسپ اور پرتعیش منصوبہ ہے، لیکن عوام کی بنیادی ضروریات نظر انداز کی جا رہی ہیں۔ شہری سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہ ممکن ہے تو دیگر کھیل، روزگار اور بنیادی سہولیات کے لیے کیوں نہیں؟ شہریوں کے نزدیک یہ منصوبہ ایک نمائشی اقدام ہے، جسے میڈیا میں دکھایا جائے کہ "ہم نے بھی کچھ کر دکھایا"، لیکن عوام کی حقیقی مشکلات پر کوئی حل نہیں۔

خیبرپختونخوا میں ہارس رائیڈنگ کلب ایک دلچسپ آغاز ہے، لیکن اس طنزیہ حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ عوام کھانے کے لیے روتے ہیں اور حکومت گھوڑوں کی سواری کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اگر یہ ممکن ہے کہ ہارس رائیڈنگ کے لیے زمین، فنڈز اور پلاننگ موجود ہے، تو پھر دیگر کھیل، روزگار، تعلیم اور بنیادی سہولیات کے لیے بھی منصوبے بنائے جائیں۔ شہر کے لوگ طنزیہ انداز میں کہتے ہیں: "ہارس رائیڈنگ تو سب دیکھ لیں، لیکن ہمیں تو بس روٹی چاہیے!" اور یہی سوال حکومت کے لیے باقی رہتا ہے: کیا عوام کی ضرورتوں کو نظرانداز کر کے صرف مہنگے کھیلوں پر توجہ دینا انصاف ہے؟یہ رپورٹ طنز اور حقیقت دونوں کو سامنے لاتی ہے، اور عوام کے مطالبے کو واضح کرتی ہے: اگر واقعی کھیلوں کو فروغ دینا مقصود ہے تو اسے عام عوام کے مفاد اور روزگار کے مواقع کے ساتھ جوڑنا ہوگا، نہ کہ صرف مہنگے اور محدود طبقے کے کھیل کے لیے زمین اور فنڈز مختص کرنا۔
#horse #riding #club #kpk #kp #peshawar #dikhan #pakistan #people #issues

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 797 Articles with 666561 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More