کھلی کچہری یا چھپن چھپائی؟

ہمارے ہاں ایک خاص مرض ہے کہ جو بھی نیا افسر آئے، تو سب سے پہلے اسے یہ یقین دلایا جائے کہ حضور آپ سے پہلے جو تھے وہ سب چور تھے، اور اب آپ اس محکمے کے نجات دہندہ ہیں۔ نیا افسر بھی شرافت کے ساتھ سر ہلا دیتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ عہد کر لیتا ہے کہ اب میں ہی "خالص دودھ" ہوں باقی سب ملاوٹ۔ مگر افسوس کہ کچھ دن بعد وہی افسر بھی اسی ملاوٹ والے دودھ کا حصہ بن جاتا ہے۔

اب تازہ واردات سنیے۔ صبح دس بجے کوچز گروپ میں چیف کوچ کا فرمانِ عالی شان نازل ہوا کہ آج سہ پہر تین بجے ڈی جی صاحب ایک "قومی کھلاڑی" سے ملاقات کریں گے۔ ساتھ ہی حکم صادر ہوا کہ اس کھلاڑی کا انتخاب بھی آپ ہی کریں۔ شام کو خبر چل گئی کہ ڈی جی صاحب نے "کھلی کچہری" لگائی اور کھلاڑیوں کے مسائل سنے۔ سبحان اللہ! یہ کھلی کچہری نہیں تھی بلکہ کھلاڑی اور افسر کے درمیان ملاقات تھی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ محکمے والوں نے اس کا بیج "کھلی کچہری" کے نام سے لگایا اور شام کو میڈیا پر فصل کاٹ لی۔

یاد آیا، کھلی کچہری کا اصل تصور خالد خان کے دور میں سامنے آیا تھا، جب واقعی ٹیبل ٹینس ہال میں اعلان کر کے سب کو بلا لیا گیا تھا۔ کھلاڑی، کوچ، صحافی، ملازمین، حتیٰ کہ کلاس فور تک آ گئے تھے اور سب نے اپنے مسائل کھل کر بیان کیے تھے۔ اب جو کچھ ہوا ہے وہ "کھلی کچہری" نہیں بلکہ "چھپن چھپائی" تھی۔

اس محکمے میں اتنے کوچ ہیں تو ان سب کا بڑا کام کیا ہے؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ کس کوچ نے کتنے کھلاڑی پیدا کیے؟ جی ہاں، کھلاڑی "پیدا" کیے۔ کیونکہ ہمارے ہاں کوچز بچوں کی طرح کھلاڑی بھی "پیدا" کرتے ہیں۔ کچھ کے پاس واقعی ریکارڈ ہے لیکن اکثریت کے پاس صرف خوشامد اور مکھن بازی کا "ریکارڈ" ہے۔ کچھ اپنے رشتہ داروں کو کھلاڑیوں کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں اور باقی صرف دعوے کرتے ہیں۔

کوئی یہ سوال کرنے کی ہمت رکھتا ہے کہ فلاں کوچ نے اپنے پورے دورِ ملازمت میں کتنے قومی یا بین الاقوامی کھلاڑی تیار کیے؟ جواب نہیں ملے گا کیونکہ یہاں سوال پوچھنے والا "بدتمیز" اور جواب دینے والا "محترم" ہوتا ہے۔


جو مستقل کوچ ہیں وہ وی آئی پی بن جاتے ہیں، جیسے مستقل جوتا، چاہے پاؤں چھل جائے مگر پھینکنے کو دل نہیں کرتا۔ اور جو ڈیلی ویجز ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو پرائے کھیت میں گدھے کے ساتھ ہوتا ہے۔ کام بھی کراؤ، تعریف بھی نہ دو، اور تنخواہ کا حال یہ کہ کبھی آتی ہے، کبھی نہیں۔

کچھ کوچ تو برسوں سے ایک ہی جگہ قابض ہیں، جیسے وہ گراؤنڈ ان کی ذاتی جاگیر ہو۔ اور کچھ بے چارے ہر تین مہینے بعد ایسے ٹرانسفر ہوتے ہیں جیسے یتیم بچہ رشتے داروں کے درمیان دھکے کھاتا پھرے۔ لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں، سب کچھ "کھیلوں کھیلوں" میں چل رہا ہے۔


یہاں سب ایماندار ہیں۔ ہاں، شرط یہ ہے کہ جب تک پکڑے نہ جائیں تب تک آپ بھی "ایماندار" ہیں۔ جیسے ہی پکڑے گئے، بس آپ "چور" ہیں باقی سب دودھ کے دھلے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کھلاڑیوں کے اصل مسائل پر کتنی بار بات ہوئی ہے؟ کتنے کھلاڑیوں کو میرٹ پر فنڈز ملے کہ وہ بیرونِ ملک جا سکیں؟ کتنے سال ہو گئے کہ ایتھلیٹکس کا گراؤنڈ نہیں بن رہا؟ ہاکی گراؤنڈ کی حالت زار پر کس نے نوٹس لیا؟ وہ 19 سے زیادہ گاڑیاں کہاں گئیں؟ افسران نے جو رہائش مفت میں لی تھی اس کا حساب ہوا؟

یہ وہ سوال ہیں جو کھلی کچہری میں ہونے چاہئیں تھے۔ لیکن یہاں تو "کھیل کچہری" صرف کاغذوں میں ہوتی ہے۔

کبھی کسی نے سوچا کہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز (DSO) کی بھی کھلی کچہری ہونی چاہیے؟ وہ بھی اپنا دکھڑا سنائیں کہ کب سے انہیں گاڑیاں نہیں ملتیں۔ کب سے ان کا ہر جگہ ایسے تبادلہ ہوتا ہے جیسے شطرنج کا مہرہ۔ اور دوسری طرف کچھ افسران ہیں جو سب کے لاڈلے ہیں، برسوں سے ایک ہی جگہ جمے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ "کھیل کچہری" کی بجائے "سیاسی کچہری" میں طے ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں کھلی کچہری کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو مرضی کر لو، آخر میں ایک فوٹو سیشن اور ایک خبر جاری کر دو۔ خبر میں لکھ دو کہ "ڈی جی نے کھلاڑیوں کے مسائل سنے"۔ باقی مسائل وہی رہیں گے جو کل تھے، بلکہ کل سے کچھ زیادہ۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی کھلاڑی دھکے کھاتے ہیں، کوچ خوشامد میں لگے رہتے ہیں، افسران پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں اور محکمہ کھیل "کھیل ہی کھیل" میں ڈوبا رہتا ہے۔

کھلی کچہری کا مقصد عوام اور کھلاڑیوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دینا ہے، نہ کہ چھپ چھپا کر ایک کمرے میں بیٹھ کر تالی بجا دینا۔ کھلی کچہری تب کھلی ہوگی جب عام کھلاڑی، کوچ، صحافی، ملازم اور کلاس فور تک کو بلا کر کھلے عام سوال جواب ہوں۔ ورنہ یہ سب چھپن چھپائی ہی ہے۔

اللہ کرے کہ اس محکمے کے اہلکاروں کے "عقل کے پردے" جلد کھل جائیں۔ ورنہ کھلاڑیوں کے مسائل وہی رہیں گے، کوچز کا کھیل وہی ہوگا، اور افسران کی ایمانداری کا معیار بھی وہی: "جو پکڑا گیا وہی چور، باقی سب پارسا۔"

✍️ یہ تھا ہمارا آج کا کالم۔ اگر کسی کو برا لگے تو وہی جانیں۔ کیونکہ کھیل کے محکمے میں برا ماننے کا رواج نہیں، صرف "کھیل کھیلنے" کا ہے۔

#kikxnow #musarratullahjan #sports #drama
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 798 Articles with 667590 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More