آپ کو سچ کا دورہ پڑا... لیکن آدھا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
محترم صحافی صاحب، کل آپ نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کے بارے میں ایک لمبی چوڑی تحریر لکھی۔ آپ نے بڑے بڑے انکشاف کیے، سب کو لتاڑا، فائلیں ہلائیں، تصویریں لگائیں، لیکن عجیب بات ہے، آپ کی تحریر میں “آپ” کہیں نظر نہیں آئے۔ کیا سچ صرف دوسروں پر ہی فٹ بیٹھتا ہے؟ آپ کو کبھی کبھار سچ کا دورہ پڑتا ہے، لیکن اس میں بھی آپ آدھا سچ بولتے ہیں۔ وہ آدھا جو دوسروں کے خلاف جاتا ہے، اور وہ آدھا جو آپ کے اپنے حلقے کے بارے میں ہے، اسے آپ "ادارتی وجوہات" کی نذر کر دیتے ہیں۔
چلیے، ہم ہی یاد دلا دیتے ہیں۔ کیا آپ کے وہی ساتھی نہیں تھے جو کچھ سال پہلے “ضرورت مند کھلاڑی” کو ڈی جی صاحب کے دفتر لے جاتے تھے؟ جہاں اگر ڈی جی صاحب ایک لاکھ روپے دیتے تو اس میں سے آدھا مخصوص صحافی کے کھاتے میں جاتا؟ کیا یہ وہی “پریس پروموشن” فیس تھی یا “کھیلوں کے نام پر کاروبار”؟ کوریج اور پروموشن کے نام پر رقم لینا اگر جائز ہے، تو پھر یہ بھی جائز ہونا چاہیے کہ عوام کو بتایا جائے کہ کتنے صحافیوں کے بچے بغیر کام کیے وہاں تنخواہیں لے رہے تھے۔ کبھی یہ بھی لکھا کریں، تاکہ تاریخ میں صرف کھلاڑی نہیں، کوریج والے بھی پہچانے جائیں۔
پھر وہ سنہری دور یاد ہے؟ جب کچھ صحافی ایک خاص اہلکار کے ساتھ مل کر ٹھیکیدار بن گئے تھے؟ کھیلوں کے سامان کے ٹینڈر انہی کے ہاتھوں سے گزرے، اور بعد میں انہی کے گھروں کے برآمدے بھر گئے۔ ہاکی کے اسٹک کی مثال ہی لے لیجیے — “Karachi King” کے بجائے “Karachi Kin” کے اسٹک اٹھا لائے تھے۔ جب یہ ہوا تو سب کو نظر آیا، مگر سب نے نظریں جھکا لیں۔ اب جب کسی اور پر انگلی اٹھاتے ہیں تو ذرا یہ بھی لکھ دیا کریں کہ ا±س وقت آپ کہاں کھڑے تھے؟
اب آتے ہیں حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس کی طرف — جہاں کھیلوں سے زیادہ “کھیل” کھیلے گئے۔ آپ کہتے ہیں وہاں بدعنوانی ہے، لیکن کبھی یہ بتایا کہ وہاں تعینات ہونے والے افسران نے کتنی دولت بنائی؟ اگر آپ کے پاس سچ کا ریکارڈ ہے تو سامنے لائیں: پچھلے بیس سالوں میں کتنے افسر آئے، کتنے گئے، اور جاتے ہوئے کیا کیا ساتھ لے گئے؟ پرانی چیزیں، ٹیکس کی رقم، باکسنگ رنگ — یاد ہے وہ انوکی پہلوان والا رنگ؟ پانچ لاکھ ٹیکس ادا ہوا، لیکن رنگ کہاں گیا؟ شاید کسی افسر کے صحن میں “بیڈمنٹن کورٹ” بن چکا ہو۔ لیکن آپ اس پر خاموش رہے، جیسے کسی نے مائیک بند کر دیا ہو۔
کہنے کو سب ڈیپارٹمنٹ والے روتے ہیں کہ فنڈ نہیں، سہولت نہیں۔ لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران کبھی نہیں روتے، کیونکہ ان کے اثاثے رونے نہیں دیتے۔ کبھی آپ نے لکھا کہ ان کے گھر، پلاٹ اور گاڑیاں کہاں سے آئیں؟ یہ ڈیپارٹمنٹ واحد ہے جہاں کھیل ختم، مگر کھلاڑیوں کے نام پر کاروبار شروع ہے۔ کھلاڑی پسینہ بہاتے ہیں، افسر کمیشن بناتے ہیں، اور صحافی خاموش رہتے ہیں — بس اتنی صحافت کافی ہے نا؟
اب آتے ہیں “جعلی سرٹیفیکیٹوں” کے کھلاڑیوں پر۔ ایک صاحب مارشل آرٹ کا جعلی سرٹیفیکیٹ دکھا کر لاکھوں لے گئے، پھر وہی بندہ سائیکلنگ میں بھرتی ہوگیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھائی! سائیکل پر کک کیسے لگاتے ہیں؟ پھر وہ قصہ بھی مشہور ہے کہ لاہور سے ایک خاص افسر کے لیے “خصوصی سرٹیفیکیٹ” لایا گیا۔ ٹیم پشاور بورڈ کی تھی، لیکن دکھائی بین الاقوامی گئی۔ادائیگی پچیس ہزار طے ہوئی، مگر پندرہ ہزار دینے کے بعد افسر منکر ہوگئے۔ اب وہ فائلیں کسی دراز میں دھول کھا رہی ہیں، اور صحافی صاحب سچ کے نئے عنوان سوچ رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں، تو اپنے دائرے میں اندھیرا کیوں رکھتے ہیں؟ کیا صحافت صرف دوسروں کے داغ گننے کا نام ہے، یا اپنے دامن کے دھبے بھی دکھانے کی ہمت ہے؟ جب کسی ڈی جی کی بے ایمانی پر لکھتے ہیں تو یہ بھی لکھا کریں کہ کس صحافی نے اس بے ایمانی میں حصہ لیا۔ ورنہ یہ کھیل یکطرفہ رہے گا — جیسے وہ میچ جہاں امپائر، بیٹسمین اور بالر تینوں ایک ہی ٹیم کے ہوں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ آپ “سچ کا پورا دورہ” کریں۔ آدھا نہیں، پورا۔ کیونکہ اگر یہ قلم صرف دوسروں کے خلاف چلتا رہا تو ایک دن کوئی دوسرا قلم آپ پر لکھ دے گا۔ صحافت عبادت ہے، لیکن جب یہ کمیشن کے ساتھ ملی ہو تو یہ عبادت نہیں، کاروبار بن جاتی ہے۔ سچ بولنا اچھا ہے، مگر اس سچ میں خود کو شامل کرنا سب سے بڑا حوصلہ ہے۔
اس بار اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر لکھنا ہے تو ساتھ یہ بھی لکھیں: “یہ تحریر ا±ن سب کے لیے ہے جنہوں نے سچ کو اپنی مرضی سے تراشا، جنہوں نے کھلاڑیوں کے نام پر نوکریاں، اور فنڈز کے نام پر کمیشن لیے۔ اور ا±ن کے لیے بھی، جنہوں نے خاموشی کو صحافت سمجھا۔”کھیل کے میدان میں کھلاڑی ہارتے ہیں، لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے میدان میں کبھی کوئی نہیں ہارا۔ یہاں سب جیت جاتے ہیں — کوئی فائلوں سے، کوئی ٹھیکوں سے، اور کوئی خبروں سے۔ بس عوام ہی ہیں جو ہمیشہ ہارتے ہیں۔
تو صحافی صاحب، اگلی بار جب آپ کو سچ کا دورہ پڑے، تو دوا پوری لیں — آدھی نہیں۔ کیونکہ آدھا سچ، پورا جھوٹ ہوتا ہے۔ #kikxnow #digitalcreator #musarratullahjan #kpk #kp #pakistan #games #sportnews #letter #
|