“کھیل کا وقت ختم، بیک ڈیٹ شروع”

یہ کالم انہی دنوں کی یاد تازہ کرتا ہے جب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے دفتروں میں “وقت” نہیں بلکہ “بیک ڈیٹ” چل رہی ہوتی ہے۔ یعنی کاغذات کے کیلنڈر الٹے ہوتے ہیں، فیصلے الٹے ہوتے ہیں، اور نیتیں تو خیر کب سیدھی ہوئیں جو اب ہوں گی۔ عنوان ہی کافی ہے:‘بیک ڈیٹ میں سب کچھ وقت پر”

مزے کی بات یہ تھی کہ ایک وزیر کھیل گئے، دوسرے آ نہیں رہے تھے، اور پھر اچانک پوری کابینہ ہی تحلیل ہوگئی۔ جیسے کسی ٹیم کا کپتان چلا جائے، نیا کپتان آنے سے پہلے ہی میچ ختم۔ اب میدان میں بس وہی پرانے کھلاڑی رہ گئے ہیں جو پچ پر گیند کے بجائے فائلوں سے کھیل رہے ہیں۔اب کیا ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کھیل تو ویسے بھی کھیلا جاتا ہے، لیکن یہاں فائلوں کا کھیل جاری ہے۔ ہمیں ڈر صرف اس بات کا ہے کہ بیک ڈیٹ میں بہت ساری چیزیں “ہونے” کا وقت ہوا چاہتا ہے — بھرتیاں، احکامات، فنڈز کی تقسیم، اور وہی پرانی “ایڈجسٹمنٹ”۔ اللہ خیر کرے، اب دعا ہی واحد سپورٹ پالیسی رہ گئی ہے۔

اب ذرا ان افسروں کی طرف آتے ہیں جنہیں دفتر میں سیاست زیادہ اور سپورٹس کم آتی ہے۔ ایسے افسران کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر بیوروکریسی میں اولمپکس ہوتے تو یہ لوگ “پولیٹیکل جمناسٹکس” میں سونا جیت لیتے۔ حد سے زیادہ سیاسی، حد سے زیادہ محتاط، اور حد سے زیادہ مطمئن — کیونکہ لاکھوں روپے کی تنخواہ کے ساتھ جب کچھ نہ کرنے کا فن آ جائے، تو پھر بندہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ولی کامل بن جاتا ہے۔

کچھ افسران نے تو سوشل میڈیا پر بھی “سیاسی عبادت” شروع کردی۔ کسی نے کسی رہنما کے ساتھ تصویر لگائی، کسی نے پوسٹ میں لکھ دیا “سر آپ کی قیادت میں کھیل ترقی کرے گا”۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ ترقی کھیلوں کی نہیں، ان کے “عہدوں” کی ہو رہی تھی۔ ان کی چاپلوسی دیکھ کر انہیں “چمچہ ” کہنا تو زیادتی ہوگی، یہ تو پورے دیگ ہیں۔ چمچ چھوٹا ہوتا ہے، یہ حضرات تو بڑے برتن کے برابر ہیں، جس میں ہر حکومت کے لیے نئی خوشبو بھری جاتی ہے۔

ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کچھ افسران تو ہیڈکوارٹر میں ہی ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “نیا وزیر جب آئے گا تو ہم سب سے پہلے سلام کریں گے، تاکہ نام بن جائے”۔ جیسے کوئی تیز رفتار بالر پہلے اوور میں ہی اپیل کر کے امپائر کو متاثر کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں بھی وہی فارمولا ہے — “جو پہلے سلام کرے گا، وہی کامیاب ہوگا”۔گزشتہ ایک ہفتے سے اگر کسی کو ہوش ہو تو پتہ چلے کہ کتنے افسر اپنے دفتر گئے ہیں۔ باقی سب یا تو “پیشگی وفاداری” میں مصروف ہیں یا “احتیاطی چھٹی” پر۔ کچھ نے تو وزیر کے گاوں تک رابطے شروع کر دئیے تھے، تاکہ جب وقت آئے تو کہہ سکیں “سر ہم تو پہلے سے آپ کے اپنے ہیں”۔ مگر اب وزیراعلیٰ کے جانے کے بعد وہ رابطے بھی اڑ گئے۔ جیسے نیا میچ شروع ہونے سے پہلے ہی پچ دھل جائے۔

کابینہ ختم، وزیر غائب، اور ڈائریکٹوریٹ میں ہر کوئی “انتظار” کے کھیل میں مصروف۔ یہ وہ کھیل ہے جس میں کسی کو پتہ نہیں کہ اگلی گیند کس سمت سے آئے گی۔ کچھ کوچز کو فون جا رہے ہیں کہ “ذرا بتاو¿ تمہارے پاس کتنے کھلاڑی ہیں؟” جیسے برسوں سے سوئے ہوئے محکمے کو یکایک خواب میں یاد آیا ہو کہ “ہاں، ہمارے پاس کھلاڑی بھی ہیں!”اب یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ جن افسران نے اپنی پوری زندگی میں ایک بھی کھلاڑی پیدا نہیں کیا، وہ اب اچانک کھلاڑیوں کی فہرست کیوں مانگ رہے ہیں؟ شاید اس لیے کہ نئے وزیر کے سامنے ثبوت پیش کر سکیں کہ “دیکھیں جناب! ہمارے دور میں تو کھیلنے والے بھی پیدا ہوئے تھے” — حالانکہ پیدا ہونے والے زیادہ تر یا تو ریٹائر ہوچکے ہیں یا دوسرے محکموں میں بھرتی ہو گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ اب دفتر کم اور سیاسی نرسری زیادہ لگتا ہے۔ یہاں سیاست کے پودے لگائے جاتے ہیں، چاپلوسی کا پانی دیا جاتا ہے، اور نتیجہ “ترقیاتی فائل” کی صورت میں نکلتا ہے۔ کھیل کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ اب تو بس “فنڈز کے کھیل” میں ہی سب مصروف ہیں۔سب سے دلچسپ کردار وہ افسران ہیں جنہیں جب کام کا کہا جائے تو فوراً “پالیسی” کا بہانہ لے آتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی وزیر کا نام سنیں، فوراً متحرک ہو جاتے ہیں، جیسے کسی نے پاور بٹن آن کر دیا ہو۔ اگر ان کی یہ تیزی کھلاڑیوں کی تربیت میں لگتی تو شاید آج ہمارے صوبے کے کھیلوں کا حال کچھ اور ہوتا۔

پھر بھی، ہمیں ان پر ترس آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ عوام کے، نہ کھلاڑیوں کے، بلکہ صرف “منصب” کے وفادار ہیں۔ کل وزیر بدلا تو وفاداری بھی بدل گئی۔ آج ایک کے قصیدے، کل دوسرے کے نعرے۔ جیسے کوئی گلوکار ہر نئے شو میں نیا گانا گاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کب رکے گا؟ شاید کبھی نہیں۔ کیونکہ یہاں ادارہ نہیں، چالیں چلتی ہیں۔ فائلیں نہیں، تعلقات آگے بڑھتے ہیں۔ منصوبے نہیں، ملازمین کے خواب پورے ہوتے ہیں۔ اور عوام؟ وہ تو ابھی بھی کھیلوں کی بحالی کا انتظار کر رہی ہے، جیسے کوئی پرانا شائق امید باندھے بیٹھا ہو کہ شاید اگلے سیزن میں ٹیم واپس فارم میں آ جائے۔

آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں کچھ ہونا باقی ہے تو وہ صرف اصلاحات ہیں۔ لیکن یہ بھی شاید بیک ڈیٹ میں ہی ہوں گی۔ کیونکہ یہاں سب کچھ “وقت پر” نہیں، “وقت کے بعد” ہوتا ہے۔اب جو افسران اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں، ان کے لیے یہی مشورہ ہے کہ تنخواہیں لو، آرام کرو، مسجد میں صف اول میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرو۔ کم از کم یہ کام تو بغیر سیاست کے ہو جائے گا۔ کیونکہ کھیلوں میں نہیں تو عبادت میں ہی سچائی آ جائے، تو شاید کچھ امید باقی رہے۔

#sports #Kpk #Kp #pakistan #directorate #kikxnow #digitalcreator #musarratullahjan
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 809 Articles with 673001 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More