نیشنل گیمز یا نیشنل میمز؟ – خیبرپختونخوا کی کھیلوں کی دنیا میں خاموشی، سردمہری اور تاخیر کی کہانی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
دسمبر میں نیشنل گیمز کراچی میں ہونے جا رہے ہیں، مگر خیبرپختونخوا کی تیاریوں کا حال دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ کھیل کہیں خوابوں میں ہی ہوں گے۔ کیمپ کہاں لگنے ہیں؟ کھلاڑی کب منتخب ہوں گے؟ اور آخر اس بار ٹیم کا کپتان کون ہوگا؟ ان سب سوالات کے جواب شاید کسی خفیہ سرکاری فائل میں بند ہیں جو یا تو کسی دراز میں دھول کھا رہی ہے یا کسی افسر کے ٹیبل کے نیچے چائے کے داغ سے محفوظ رکھی گئی ہے۔
صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ اور اولمپک ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا، دونوں اس وقت ایسی خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں جیسے کوئی جرمِ بے آواز ہو۔ ہر طرف ایک ایسی سکوت طاری ہے کہ کھلاڑی خود سوچنے پر مجبور ہیں: ”کیا ہم واقعی نیشنل گیمز کھیلنے جا رہے ہیں، یا بس خواب دیکھ رہے ہیں؟“
کھیلوں کے دفتر میں اگر آپ آج جائیں تو شاید ایک ہی چیز زندہ ملے گی — چائے کا کیتلی۔ باقی ہر چیز “پلاننگ کے مرحلے” میں ہے۔ صوبائی حکومت نے یوتھ گیمز اور نیشنل گیمز کے لیے فنڈز کی منظوری تو دے دی ہے، لیکن لگتا ہے کہ وہ فنڈز یا تو کاغذوں میں سو رہے ہیں یا پھر کسی اجلاس کی منٹس میں قید ہیں۔
14 اکتوبر ہو گئی ہے، مگر اب تک کوئی اعلان، کوئی کیمپ، کوئی نوٹیفکیشن نہیں۔ لگتا ہے کہ ہمارے افسران کی گھڑی دسمبر میں چلتی ہے۔ آخری دنوں میں وہی پرانا ڈرامہ دہرایا جائے گا — چیخ و پکار ہوگی، ”گولڈ لے آو¿، اعزاز جیتو!“ — لیکن یہ کوئی فلم نہیں کہ آخری سین میں ہیرو معجزانہ طور پر جیت جائے۔ کھلاڑیوں کو بھی کبھی کبھی ٹریننگ، پریکٹس اور تھوڑا وقت چاہیے ہوتا ہے، جو ہمارے افسران کے کیلنڈر میں شاید موجود نہیں۔
پالیسی کا حال بھی دلچسپ ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کو خود نہیں معلوم کہ کھیلوں کی وزارت کس کے پاس ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وزارت کوئی گرم آلو ہو جسے کوئی پکڑنا ہی نہیں چاہتا۔ پہلے سید فخر جہاں باچا تھے جنہوں نے کوششیں کیں، منصوبے بنائے، کچھ ہلچل پیدا کی۔ مگر پھر وہ گئے، اور ان کی جگہ پختون یار آئے — جو دو ہفتے بعد ایسے غائب ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔
اب نیا ڈی جی اسپورٹس آیا ہے۔ لوگوں نے سوچا کہ شاید اب سسٹم میں جان آئے گی۔ مگر صاحب اتنے “کول” نکلے کہ ہر معاملے میں ٹھنڈک پھیلا دی۔ اگر کوئی مسئلہ ہو، تو ان کی ایک ہی پالیسی ہے — “دیکھیں گے، ابھی وقت ہے۔” لگتا ہے وہ نیشنل گیمز کو صبر آزما مشق سمجھ رہے ہیں۔ادھر کھلاڑی روز جِم جا کر سوچتے ہیں کہ آخر کب بلایا جائے گا۔ کچھ نے تو از خود پریکٹس شروع کر دی ہے، کچھ نے دل چھوڑ دیا ہے۔ کوئی دوست سے پوچھتا ہے، ”یار تمہارا کیمپ لگا؟“ دوسرا جواب دیتا ہے، ”کیمپ؟ کون سا کیمپ؟ میں تو شادی ہال میں فٹبال کھیل رہا ہوں!“
کھلاڑیوں کے جذبے کو داد دینی چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حکومتی سستی کے باوجود اپنے خواب نہیں چھوڑتے۔ لیکن آخر کب تک وہ بغیر رہنمائی کے دوڑتے رہیں گے؟ کھیل صرف میدان میں نہیں جیتے جاتے، بلکہ دفتر کی میزوں پر بننے والے فیصلے بھی جیت یا ہار کا رخ متعین کرتے ہیں۔فنڈز کی بات کریں تو وہ بھی کسی افسانے سے کم نہیں۔ صوبائی کابینہ نے منظوری دے دی، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ پیسہ کہاں گیا۔ شاید کسی “پراجیکٹ فائل” میں چھپ گیا ہے، یا کسی “اعلان برائے منظوری” کی لائنوں کے بیچ گم ہے۔جب صحافی سوال کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے:“جی ہم نے سمری آگے بھیج دی ہے۔”یہ سمری بھی کوئی ناقابلِ رسائی مخلوق ہے، جو نہ واپس آتی ہے نہ منظور ہوتی ہے۔
اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو دسمبر میں کراچی کے نیشنل گیمز میں خیبرپختونخوا کی نمائندگی شاید “ہوائی” ثابت ہو۔ کھیلوں کا قافلہ روانہ ہوگا، مگر تیاری کا عالم یہ ہوگا کہ کچھ کھلاڑیوں کے پاس جوتے فٹ نہیں ہوں گے، کچھ کے پاس یونیفارم کا سائز غلط ہوگا، اور باقی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کھیل کون سا کھیلنے آئے ہیں۔آخر وقت میں پریس کانفرنس ہوگی، دعوے ہوں گے کہ “ہم پرعزم ہیں، ہم گولڈ لائیں گے!” مگر حقیقت یہ ہے کہ بغیر پریکٹس کے کھلاڑی سے گولڈ مانگنا ایسے ہی ہے جیسے بغیر چائے کے بسکٹ کھانا — خشک اور بے ذائقہ۔
افسران کا زور کھیلوں پر نہیں، تقریبات پر ہے۔ اگر کسی تقریب میں بینر لگانے ہوں، ربن کاٹنا ہو، یا تصویریں بنوانی ہوں تو سب ایک دن میں جمع ہوجاتے ہیں۔ مگر جب بات کیمپ لگانے یا کھلاڑیوں کی سہولتوں کی آتی ہے، تو ہر کسی کو اچانک “ایمرجنسی میٹنگ” یاد آ جاتی ہے۔ان کے لیے نیشنل گیمز محض ایک فائل کا نام ہے — نہ جذبہ، نہ ذمہ داری۔ جبکہ کھلاڑیوں کے لیے یہ خواب ہوتا ہے، وہ لمحہ جس کے لیے وہ سالوں پسینہ بہاتے ہیں۔
اگر یہی رویہ برقرار رہا تو خیبرپختونخوا کا نام کھیلوں میں محض خانہ پ±ری تک محدود رہے گا۔ وہ صوبے جو سنجیدگی سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہ نہ صرف تمغے جیتیں گے بلکہ اپنی ساکھ بھی بہتر بنائیں گے۔ جبکہ ہمارے ہاں کھیلوں کا نظام افسر شاہی کی نیند کا قیدی بن کر رہ جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ کھیلوں کی قیادت جاگے۔ خاموشی اب شرمندگی بن رہی ہے۔ کھلاڑی انتظار نہیں کر سکتے — ان کا کیریئر وقت سے جڑا ہے، اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
نیشنل گیمز ہمارے لیے ایک موقع ہے — نہ صرف کھیلوں کو فروغ دینے کا بلکہ یہ دکھانے کا کہ خیبرپختونخوا بھی قومی سطح پر سنجیدہ ہے۔ مگر جس انداز میں معاملات چل رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ نیشنل گیمز ایک اور “تماشا” بننے جا رہے ہیں۔آخر کب ہمارے ادارے کھلاڑیوں کی طرح محنت کریں گے؟کب وہ بھی پریکٹس کریں گے — فیصلوں کی پریکٹس، شفافیت کی پریکٹس، ذمہ داری کی پریکٹس؟ورنہ اگلی بار نیشنل گیمز نہیں، “نیشنل میمز” ہوں گے — اور ہم سب بس تماشائی۔
#NationalGames2025 #KPKSports #SportsCrisis #SportsComedy #Kikxnow #PakistanSports #SportsReform #AthletesVoice #NationalGames2025 #KPKSports #OlympicAssociation #SportsComedy #Kikxnow
|