سپورٹس ڈویلپمنٹ یا ”ٹھیکیدار لیگ“؟
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کسی بھی ادارے کے ترقیاتی منصوبے دراصل عوامی فلاح اور سہولت کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد روزگار پیدا کرنا، بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا، اور عوام کے ٹیکسوں سے واپس عوام ہی کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ مگر اگر یہ منصوبے کسی کھیل میں بدل جائیں، تو پھر نام ”ڈویلپمنٹ“ رہتا ہے مگر مقصد ”ڈیپازٹ“ بن جاتا ہے۔ یہی حال ہے خیبر پختونخواہ کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا، جہاں ترقیاتی منصوبے اب کھیل نہیں، بلکہ کمیشن کا میدان بن چکے ہیں۔
صوبے کے پینتیس اضلاع میں مختلف کھیلوں کے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ فائلوں میں تو یہ منصوبے پورے جوش و خروش سے ”چل رہے“ ہیں، مگر زمین پر ان کا حال وہی ہے جو کسی بغیر فٹنس والے کھلاڑی کا میدان میں ہوتا ہے — سانس پھول جاتی ہے، مگر گول نہیں ہوتا۔
کھیلوں کے ایک ہزار سہولیات منصوبہ اس وقت خیبر پختونخواہ کے سب سے بڑے پراجیکٹس میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا مقصد تھا ہر ضلع میں کھیلوں کے میدان، جم، اور اسپورٹس کمپلیکس قائم کرنا تاکہ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کے مواقع ملیں۔ کاغذوں پر تو سب کچھ بہترین ہے: پی ڈی، ڈی ڈی، ایس ڈی او، اور اہلکار۔ سب کے سب منصوبے کی ”تر اور قی“ میں مصروف۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل کھیل ترقی نہیں بلکہ تقسیم ہے — فنڈز کی تقسیم، کمیشن کی تقسیم، اور ذمہ داری کی تقسیم۔یہ منصوبے ایسے بن چکے ہیں جیسے کوئی فلم جس کا ہیرو ٹھیکیدار، ولن کمیشن خور افسر، اور ولن کا ساتھی اکاونٹس آفیسر ہو۔ اختتام ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے: منصوبہ آدھا، پیسہ پورا۔
ٹھیکیدار صاحبان بھی کمال کے کھلاڑی ہیں۔ کچھ نے منصوبے شروع کیے، آدھی دیوار اٹھائی، پھر غائب ہو گئے۔ کچھ کو ادائیگیاں نہیں ہوئیں، لہٰذا انہوں نے فائلیں بند کر کے چابی پھینک دی۔ اب ان منصوبوں کو پاورپوائنٹ کی سلائیڈز پر دکھا کر کارکردگی رپورٹیں بنائی جاتی ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کچھ افسران کے لیے ترقیاتی کام گویا ”سلائیڈ شو“ بن چکے ہیں۔ وہ ہر اجلاس میں خوبصورت پریزنٹیشن دیتے ہیں، مگر اگر آپ ان سے پوچھ لیں کہ "جناب وہ منصوبہ کہاں ہے؟" تو جواب آتا ہے: "جی، کام جاری ہے۔"یہ ”جاری“ لفظ شاید خیبر پختونخواہ کی سرکاری لغت میں ”کبھی مکمل نہ ہونے والے کام“ کے معنی رکھتا ہے۔
کرم، خیبر، پاڑہ چنار، مہمند، باجوڑ، جنوبی وزیرستان — ہر جگہ کھیلوں کے نام پر اربوں روپے کے منصوبے زیرِ تعمیر ہیں۔ ہاکی ٹرف، فٹبال گراونڈ، اسپورٹس کمپلیکس — سب کے سب کاغذوں میں فعال، حقیقت میں خالی میدان۔ کچھ جگہوں پر تو تعمیر کا آغاز ہی نہیں ہوا، صرف ٹھیکیدار کا نام بورڈ پر لکھ کر ”افتتاح“ کر دیا گیا۔یہی تو اصل کمال ہے: فیتہ کاٹنے کی رفتار تعمیر سے زیادہ تیز۔پشاور سپورٹس کمپلیکس میں اتھلیٹکس گراونڈ کا منصوبہ اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہے۔ تقریباً چار سال ہو گئے، منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ لاگت بڑھ رہی ہے، اور اسی تناسب سے کمیشن بھی۔اگر یہ منصوبہ دو سال میں مکمل ہونا تھا تو اب چھٹے سال میں کیوں ہے؟ کسی نے پوچھا نہیں۔ کیوں پوچھیں؟ پوچھنے سے کمیشن خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
کبھی کسی نے یہ جاننے کی زحمت کی کہ ڈویلپمنٹ ونگ کے افسران اور انجینئرز کے اثاثے کب اور کیسے بڑھ گئے؟ جب وہ ڈپارٹمنٹ میں آئے تھے، تب ایک موٹر سائیکل اور کرایے کا گھر ہوتا تھا۔ آج وہی افسر تین گاڑیوں، دو پلاٹس، اور ایک بنگلے کے مالک ہیں۔کیا واقعی کھیلوں کی ترقی نے اتنی خوشحالی دی؟ یا ترقی صرف بینک اکاونٹ تک محدود رہی؟ سچ تو یہ ہے کہ کھیلوں کے ترقیاتی منصوبے اب ”کھیل“ نہیں بلکہ ”کاروبار“ بن چکے ہیں۔ٹھیکیدار بھی خوش، افسر بھی خوش، انجنئیر بھی خوش — بس عوام بدقسمت۔یہ منصوبے اسی وقت ختم ہوتے ہیں جب فنڈ ختم ہو جاتا ہے۔نہ منصوبے کی مدت بڑھنے پر کوئی سوال اٹھتا ہے، نہ معیار پر کوئی اعتراض۔کیونکہ سوال وہی اٹھاتا ہے جس نے کمیشن نہ لیا ہو۔
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ان منصوبوں پر ”مانیٹرنگ“ کے نام پر الگ بجٹ رکھا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ عوام کے پیسے سے عوامی پیسے کی نگرانی بھی عوام کے پیسے سے۔مانیٹرنگ ٹیمیں فیلڈ میں نہیں جاتیں، بلکہ کنڈیشن رپورٹ ای میل سے تیار ہو جاتی ہے۔ رپورٹ میں سب کچھ ”تسلی بخش“ لکھا جاتا ہے، کیونکہ "نا تسلی بخش" لکھنے والا خود بھی فائل کا حصہ بن سکتا ہے۔ضم اضلاع کے منصوبے تو خاص طور پر اس ”ٹھیکیدار لیگ“ کے فیورٹ میدان ہیں۔ وہاں کوئی میڈیا کوریج نہیں، عوامی دباو کم، اور کاغذی کام زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے کھیلوں کے منصوبے زمین پر نہیں، فائلوں میں کھیلتے ہیں۔
اب ذرا سوال کریں کہ یہ سب کب رکے گا؟تو جواب سیدھا ہے: جب کوئی پوچھنے والا پیدا ہوگا۔جب کسی کمیٹی کو یہ ہمت ہوگی کہ وہ پوچھ سکے کہ چار سال پہلے جو منصوبہ دو سال میں مکمل ہونا تھا، وہ آج تک کیوں لٹکا ہوا ہے؟جب کسی تحقیقاتی ادارے کو یہ خیال آئے کہ ان افسران کے اثاثے بھی کبھی عوام کے سامنے آئیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی ”گیم“ میں لگا ہے۔ٹھیکیدار کمیشن دیتا ہے، افسر آنکھ بند کر لیتا ہے، اور بالا افسر رپورٹ میں ”کام تسلی بخش“ لکھ دیتا ہے۔آخر میں جب میڈیا کوئی سوال اٹھاتا ہے تو جواب ملتا ہے: "جی، منصوبہ قلیل مدت میں مکمل ہو جائے گا۔"یہ قلیل مدت شاید اگلی دہائی کے آخر تک ہوگی۔ اصل نقصان کس کا؟ عوام کا۔** وہ عوام جن کے بچوں کے لیے یہ گراونڈز بننے تھے، وہ آج بھی سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے پر مجبور ہیں۔ وہ نوجوان جو فٹبال کھیلنا چاہتے ہیں، وہ اب چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر یہی منصوبے گنتے ہیں جو کبھی مکمل نہیں ہوتے۔
ڈویلپمنٹ ونگ کا اصل کھیل یہی ہے: پروجیکٹ شروع کرو، اخراجات بڑھاو، کمیشن لو، اور رپورٹ میں لکھو ”کام جاری ہے“۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ ”کام مکمل ہوا ہے“ کیونکہ مکمل منصوبہ کمیشن ختم ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کسی افسر نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ وہ منصوبے کیوں تاخیر کا شکار ہیں۔ کیا مواد نہیں ملا؟ کیا فنڈ نہیں آئے؟ یا ضمیر جاگنے کا خطرہ تھا؟
جب ایک منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو نیا منصوبہ شروع کر دیا جاتا ہے تاکہ پرانے کی فائل دب جائے۔ یوں ایک منصوبے کے نام پر کئی فائلیں بنتی ہیں، کئی بل پاس ہوتے ہیں، اور کئی جیبیں بھر جاتی ہیں۔ کھیلوں کی ترقی کے نام پر یہ دراصل مالی ”ورزش“ ہے — پیسے کی ورزش، منصوبوں کی نہیں۔ یہ سب جاننے کے باوجود کوئی پوچھتا نہیں، کیونکہ سب کھلاڑی کسی نہ کسی ٹیم کے ہیں۔یہ ”ٹھیکیدار لیگ“ کا ایسا میدان ہے جہاں جیت ہمیشہ کمیشن کی ہوتی ہے، اور ہار ہمیشہ عوام کی۔
آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے:اگر خیبر پختونخواہ کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ترقیاتی منصوبوں کا آڈٹ واقعی ایمانداری سے ہو جائے تو بہت سے ”چیمپئن“ اپنے عہدے سے زیادہ اپنے اکاونٹس کے دفاع میں مصروف نظر آئیں گے۔ ڈویلپمنٹ صرف تب ترقی بنے گی جب عوام کا پیسہ عوام پر لگے، نہ کہ فائلوں، کمیشنوں اور وعدوں کے قبرستان میں دفن ہو۔ یہ ڈویلپمنٹ نہیں، ٹھیکیدار لیگ ہے۔جہاں ہر گراونڈ ادھورا، ہر وعدہ ادھورا، اور ہر کمیشن پورا۔
#SportsCorruption #PublicFunds #TaxMoneyGone #DevelopmentDrama #KPKSports #ContractorLeague #CorruptionChronicles #PublicRightToKnow #AuditKaroBhai #SportsCorruption #KPKSports #TaxMoneyGone #DevelopmentDrama #ContractorLeague #KPKScandal
|