عوامی شرعی مسائل, عدلیہ اور ان کا تصفیہ قانون کی روشنی میں کیا ہے؟

پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلاق کا رجحان بہت خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے اس کے تدارک کے لیے تمام مسلمانوں کو یکجا ہونا پڑے گا
ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاق کا رجحان اور خاندانی مسائل کے علاوہ چائلڈ میرج ایک بہت بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے. بلوغت کا صحیح اندازہ متعلقہ عورت خود لگا سکتی ہے یا پھر میڈیکل بورڈ اس پہ اپنی رائے دے سکتا ہے۔ اگر کوئی جج صاحبان اس پر اپنی رائے دیتے ہیں وہ سراسر غلط ہوتی ہے۔ اب چائلڈ میرج کے قانون کا میں ذرا مختصر حوالہ اپ کو بتاتا چلوں۔ کہ پنجاب چائلڈ میرج ایکٹ میں 16 سال تک لڑکی کی شادی اپنی مرضی یا گھر والوں کی مرضی سے ہو سکتی ہے۔ جبکہ اسلام اباد چائلڈ میرج ایکٹ 2025 کے مطابق 18 سال سے پہلے شادی نہیں ہو سکتی۔ اس بابت میں جسٹس اعظم خان کے فیصلے کو اجاگر کرتا ہوں جس میں انہوں نے مختلف پہلوؤں کا باخوبی تذکرہ کیا ہے اور مختلف سزاؤں کی بھی نوید سنائی ہے جہاں عمر کی بابت نادرہ افس سے رائے لینا اور کمشنر کے ذمے نکاح خوان کی سرزنش کرنا کے احکامات شامل ہیں۔

2۔ شریعت میں بلوغت کافی ہوتی ہے نکاح کے لیے۔ شریعت کو چھوڑ کر اس پر اپنی رائے دینا یہ سرا سرا زیادتی ہے۔ "لا اکرادین" دین میں کوئی جبر نہیں۔ میرا مقصد چائلڈ میرج کی حوصلہ افزائی کرنا ہرگز نہیں ہے۔ مگر شریعت کو روندتے ہوئے بھی فیصلے کرنا یہ اقدام کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ اس طرح کے احکامات لوگوں کی سماجی قوانین اور اہلی زندگی کے بنائے ہوئے اصول یا ثقافتوں پر چھوڑ دینی چاہیے۔ عدالتوں کو ان معاملات میں غیر ضروری طور پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

3۔ اب چلتے ہیں عورتوں کے نجی مسائل کی جانب جہاں ضرورت سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر عورتوں کا حیض 45 یا 50 سال کے بعد انا بند ہو جاتا ہے۔ اور جو عورتیں اس عمر میں شادی کرتی ہیں ان کے لیے عدت کا شمار کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ لہذا اس طرح کے معاملات میں بھی جج صاحبان کو متعلقہ عورت کی رائے کو درست شمار کرنا چاہیے یا میڈیکل بورڈ سے اپنی رائے لینی چاہیے۔ دیکھنے میں ایا ہے کہ جج صاحبان خود سے اجتہاد کر کے فیصلہ دے دیا کرتے ہیں جیسے کہ بشر بی بی کی کیس میں سامنے ایا ہے. جہاں ان کی رائے کو غلط قرار دیا گیا ہے مگر اپنی دلیل کو بھی ثابت نہیں کیا گیا. اور ان کی عدت میں نکاح کو فاسق قرار دیا گیا جو قانون پر ایک دھبے کی مانند ہے اور بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے.

4۔ اس بابت میں یہ تذکرہ کرنا ضروری خیال کروں گا کہ پاکستان میں چاروں صوبائی حکومتوں نے مختلف چائلڈ میرج ایکٹ بنا رکھے ہیں. اور وہ مختلف طریقوں سے ان پر عمل درامد کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں. اپ کے یہ مشاہدے میں اکثر یہ بات ائی ہوگی کہ جب کوئی مسئلہ عدالت میں جاتا ہے میاں بیوی کے مابین ناچاکی یا طلاق یا بچوں کی کسٹڈی کے بارے میں تو فیملی عدالت اس طرح کے مسائل کو دیکھتی ہے اور اس پہ اپنا فیصلہ دیتی ہے. اس فورم کے بعد اگلا فارم ہائی کورٹ کی سطح کا ہوتا ہے اور یہاں اکثر و بیشتر وکلا بڑی غلطی کرتے ہیں وہ فیڈرل شریعت کورٹ کو چھوڑ کر ہائی کورٹ میں کیس دائر کرتے ہیں. بنیادی نقطے سمجھنے کی ضرورت ہے تمام ہائی کورٹ پاکستان میں ائینی عدالتیں قرار پا چکی ہیں یہاں چاہے اسلامی مسئلہ جائے فیملی مسئلہ جائے انہوں نے مذکورہ قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ائینی طور پر فیصلہ کرنے ہوتے ہیں۔ اس میں شریعت کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس لیے اس طرح کے فیصلے عوام میں زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر پاتے۔

5۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام اسلامی مسائل چاہے وہ فیملی سے ہوں طلاق سے ہوں بچوں کے سٹڈی کے متعلق ہوں اگر ہائی فورم یعنی عدالت کے ہائی کورٹ کی سطح پر اگر وہ کیس جاتا ہے تو وہ کیس فیڈر شریعت کوٹ میں جانا چاہیے نہ کہ ائینی عدالتوں میں جہاں ان مسائل کی کوئی وقت نہیں۔ اس طرح بہت سے سوالات مبہم اور غیر حل طلب رہ جاتے ہیں اور وقت کا ضیاع ثابت ہوتے ہیں۔ میں نے بہت سے فیملی مقدمات کے فیصلہ جات جو ہائی کورٹ نے جاری کیے ہیں پڑھے ہیں جس سے میں نے عملی طور پر نتیجہ اخذ کیا ہے غلط فورم کا استعمال فیملی مقدمات اور بچوں کی کسٹڈی کے متعلق مزید مہبم اور غلط فیصلے ہو جایا کرتے ہیں۔ کیونکہ ہائی کورٹس کی جج صاحبان شرعی قانون اور فقہ کے مسائل سے عدم واقفیت کی بنیاد پر یہ فیصلے اجتہاد کی روشنی میں کرتے ہیں۔

6. اس بابت پاکستان کے آئین 1973 کے آرٹیکل 203 (بی) میں ترمیم کی اشد ضرورت ہے. وفاقی شرعی عدالت میں کیس دائر نہیں کیے جا سکتے. کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کے منافی قانون کوئی بھی بنایا گیا وہ کیس وہاں سماعت کے لیے جا سکتے ہیں یعنی اس کی سماعت کا اختیار بہت محدود کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی کیس کو وہاں چیلنج کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اس قانون میں اگر وقت کا تعین دیا گیا ہے تو اسی وقت یا سال اگر کوئی دیا گیا ہے تو اس کے مطابق دائر کیا جا سکتے ۔ فیملی کیس وہاں دائر نہیں کیا جا سکتا چاہے نکاح کا ہو یا طلاق کا ہو۔ یہ ایک ایسا نقطہ ہے جو آئین اور شریعہ کے مابین اختلاف کا باعث ہے لہذا اس آرٹیکل میں ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے

تحریر: شاہ نواز بخاری
راولپنڈی

 

shah Nawaz Bokhari
About the Author: shah Nawaz Bokhari Read More Articles by shah Nawaz Bokhari: 155 Articles with 156967 views You will have to work hard to achieve success as there is no gain no pain. Subscribe my channel: @Bokhari786 on youtube (The Apex Court)
My hobbies
.. View More