ایشیا پیسیفک خطے کے تعاون کا نیا باب

ایشیا پیسیفک خطے کے تعاون کا نیا باب
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

تحفظ پسندی کے بڑھتے رجحانات اور عالمی معیشت کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں ، جنوبی کوریا میں اپیک رہنماؤں کا اجلاس نہایت اہم موقع پر منعقد ہو رہا ہے۔دنیا کی نظریں اس بات پر جمی ہوئی ہیں کہ کیا ایشیا پیسیفک خطہ ،جو دنیا کا سب سے متحرک اور باہم مربوط علاقہ ہے ، ایک بار پھر ڈی کپلنگ اور تقسیم کے بجائے کشادگی اور تعاون کو ترجیح دینے کا عزم ظاہر کرے گا۔

گزشتہ چند دہائیوں سے، ایشیا پیسیفک عالمی ترقی کا ایک اہم محرک رہا ہے۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی اور تقریباً نصف عالمی تجارت اسی خطے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ خطہ اقتصادی تنوع اور مشترکہ ترقی کے خواب سے عبارت ہے۔

تاہم، جب دنیا مختلف غیر یقینی حالات اور تحفظ پسند رویّوں سے نبرد آزما ہے، تو اس کے اثرات ایشیا پیسیفک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ تجارتی رکاوٹیں بڑھ رہی ہیں، جغرافیائی کشیدگیاں گہری ہو رہی ہیں، اور کثیر الجہتی تجارتی نظام دباؤ کا شکار ہے۔

ان چیلنجز کے باوجود، اس خطے کا کھلے پن، شراکت داری اور مکالمے سے وابستگی ایک استحکامی قوت کے طور پر ابھرتی ہے۔ یہ دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ تعاون ہی ترقی کی جانب سب سے مؤثر راستہ ہے، نہ کہ محاذ آرائی۔

علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ جو دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ ہے اور ایشیا پیسیفک کی 15 معیشتوں پر مشتمل ہے ، کثیرالجہتی تعاون کی ایک اہم کامیابی ہے۔ حال ہی میں چین اور آسیان نے "فری ٹریڈ ایریا 3.0 اپ گریڈ پروٹوکول" پر دستخط کیے، جس سے اس خطے کے عالمی سطح پر مربوط تجارتی نظام کو مزید تقویت ملی ہے۔

ایشیا پیسیفک کی کامیابی صرف معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ علاقائی انضمام اور باہمی فائدے پر یقین کی بنیاد پر ممکن ہوئی ہے۔مشرقِ ایشیا کے صنعتی مراکز سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا کی ابھرتی ڈیجیٹل معیشتوں تک، علاقائی یکجہتی نے بے مثال خوشحالی کو جنم دیا ہے۔ یہ کامیابی کشادگی پر مبنی تھی جی کی کلید کھلی منڈیاں، کھلا مکالمہ، اور اشیاء، سرمائے اور خیالات کا آزادانہ تبادلہ ہے۔

یہ دوطرفہ کامیابی کا ماڈل کروڑوں افراد کو غربت سے نکال چکا ہے، ترقی پذیر معیشتوں کو عالمی جدت طرازوں میں بدل چکا ہے، اور اس نے اشتراک عمل کے ذریعے باہمی اعتماد کو فروغ دیا ہے۔ ماہرین کے نزدیک اب اس بنیاد سے پیچھے ہٹنا نہ صرف علاقائی استحکام بلکہ عالمی بحالی کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔اسی طرح تجارت، ٹیکنالوجی یا مالیات میں "ڈی کپلنگ" کی کوششیں بھی خطے بلکہ عالمی نظام کے لیے بھی سودمند نہیں ہیں۔

ایسی کڑیوں کو ختم کرنا نہ صرف غلط ہے بلکہ نقصان دہ بھی۔ اس طرح کی تحفظ پسند کوششیں کارکردگی کو کمزور، لاگت کو بلند اور جدت کو سست کر دیتی ہیں۔ مزید برآں، "ڈی کپلنگ" کا تصور اس شراکت داری کے جذبے کے خلاف ہے جس پر ایشیا پیسیفک کی ترقی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
یہ خطہ بارہا ثابت کر چکا ہے کہ تعاون اور کشادگی ہی مشترکہ خوشحالی کی ضمانت ہیں۔ اپیک کو ایک جامع پلیٹ فارم کے طور پر کام جاری رکھنا چاہیے، تاکہ آزاد و منصفانہ تجارت، ڈیجیٹل تعاون اور پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔

ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ چین، حقیقی کثیر الجہتی اور کھلے علاقائی تعاون کے لیے اپنی وابستگی کے ساتھ، ایک جامع ایشیا پیسیفک کی جانب پیش قدمی کی قیادت کرتا رہے گا۔ چین کے عالمی انیشی ایٹوز ، جیسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، نے پورے ایشیا میں روابط کو مضبوط کیا ہے، انفراسٹرکچر تعمیر کیا ہے، لاجسٹکس کو سہل بنایا ہے، اور عوامی روابط کو فروغ دیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کی بندرگاہوں سے لے کر وسطی ایشیا کی ریلویز تک، یہ منصوبے علاقائی ترقی کو نئی جہت دے رہے ہیں۔

تاریخ کا سبق واضح ہے کہ جب معیشتیں دیواریں کھڑی کرتی ہیں، تو وہ جمود اور بداعتمادی کو دعوت دیتی ہیں؛ لیکن جب وہ پل بناتی ہیں، تو مشترکہ مواقع جنم لیتے ہیں۔ایشیا پیسیفک کی طاقت اس کی اقتصادی تنوع اور باہم جڑی ہوئی ساخت میں ہے۔ اگر یہ خطہ تحفظ پسندی کو مسترد کرے اور "ڈی کپلنگ" کی مخالفت کرے، تو یہ نہ صرف آزاد تجارت، جدت اور مشترکہ ترقی کو فروغ دے سکتا ہے، بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام دے سکتا ہے کہ تعاون ہی آئیسولیشن اور تصادم پر غالب آ سکتا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1676 Articles with 963418 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More