"دنیا کی فیکٹری" سے ٹیکنالوجی کے مرکز کی جانب سفر
(SHAHID AFRAZ KHAN, Beijing)
|
"دنیا کی فیکٹری" سے ٹیکنالوجی کے مرکز کی جانب سفر تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ چین، جو ایک عرصے تک دنیا بھر میں "فیکٹری آف دی ورلڈ" کے طور پر جانا جاتا رہا، اب ایک نئی سمت کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ وہ سمت ہے سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی جدید پیداواری صلاحیتوں کی ترقی، جو نہ صرف قومی سطح پر ترقی کی راہیں ہموار کرے گی بلکہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کے منظرنامے کو بھی بدل کر رکھ دے گی۔ حالیہ دنوں ، چین نے اپنے پندرہویں پانچ سالہ منصوبے (2026–2030) کا ابتدائی خاکہ جاری کیا ہے، جس میں ملک کے مستقبل کے ترقیاتی اہداف کو واضح کیا گیا ہے۔ ان میں سرفہرست سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری اور اعلیٰ معیار کی پیداواری قوتوں کو فروغ دینا شامل ہے۔ یہ قوتیں بنیادی طور پر جدید ٹیکنالوجیز، جیسے کہ مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، ڈیجیٹل ٹوائنز اور انٹرنیٹ آف تھنگز کے امتزاج سے جنم لے رہی ہیں، جو روایتی صنعتوں کو نئی جہتوں سے ہمکنار کر رہی ہیں۔ چین کی صنعتی بنیاد اب محض کم لاگت پیداوار تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب وہ جدت طرازی، خودکاری، اور ذہین مینوفیکچرنگ کے نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ چائنا انٹرنیٹ ڈویلپمنٹ رپورٹ 2024 کے مطابق، ملک بھر میں اب تک تقریباً دس ہزار ڈیجیٹل ورکشاپس اور ذہین کارخانے قائم ہو چکے ہیں، جن میں سے 400 سے زائد کو قومی سطح پر اسمارٹ مینوفیکچرنگ کے ماڈل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ کارخانے مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ٹوائنز جیسی ٹیکنالوجیز کو اختیار کرتے ہوئے صنعتی پیداوار کو نہایت مؤثر اور جدید بنا رہے ہیں۔ چین کی مرکزی قیادت نے اپنی ترقیاتی حکمتِ عملی میں "جدت" کو کلیدی ستون کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک میں پانچ لاکھ سے زائد ہائی ٹیک ادارے قائم کیے گئے، اور چین نے عالمی سطح پر سائنسی اختراعات کے سب سے بڑے کلسٹرز میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ چائنا انوویشن انڈیکس کے مطابق، 2023 کے مقابلے میں ملک کی جدت طرازی کی صلاحیت میں 5.3 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اختراعی ماحول، سرمایہ کاری، اور سائنسی ترقی میں تیزی آ رہی ہے۔ چین کی ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی نے اسے دنیا کی کل اقتصادی نمو میں تقریباً 30 فیصد حصہ دار بنا دیا ہے۔ نئی صنعتیں، نئی ٹیکنالوجیز اور نت نئے کاروباری ماڈلز چین کی جی ڈی پی میں مسلسل بڑا حصہ ڈال رہے ہیں، جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں کی نظریں بھی چین پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ آنے والے برسوں میں چین نہ صرف اپنی تحقیقاتی بنیادوں کو مضبوط کرے گا بلکہ صنعت، اکیڈمی اور تحقیق کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔ اس سے نہ صرف سائنسی ٹیلنٹ کی افزائش ممکن ہو سکے گی بلکہ اختراعی کامیابیوں کو عملی شکل دے کر ملکی ترقی میں شامل کیا جا سکے گا۔ وسیع تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ چین کی معیشت اب سستے مینوفیکچرنگ ہب سے نکل کر ایک جدید، خودمختار اور اختراعی ماڈل کی طرف گامزن ہے۔ اگر یہ سفر اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہا، تو مستقبل قریب میں چین عالمی ٹیکنالوجی کی قیادت کرنے والے چند اہم ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ |
|