کراچی سے پشاور تک... ایک آفریدی کا مالی فلائنگ کک!


پشاور کے نومبر والے موسم میں ایک بار پھر کھیلوں کی سیاست نے وہی پرانی کک مار دی ہے — بس اس بار یہ کک تھوڑی “موئے تھائی” اسٹائل کی ہے۔ خیبر پختونخوا کابینہ کی 40ویں میٹنگ میں 14 نومبر کو ایک دلچسپ ایجنڈا رکھا گیا ہے: “خان سعید آفریدی، موئے تھائی کک باکسر، کے لیے 20 لاکھ روپے مالی معاونت”۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فنڈز کک باکسنگ کے فروغ کے لیے ہیں یا کک باکسر کے فروغ کے لیے؟ کیونکہ خیبر پختونخوا میں کھیل کا مطلب عموماً میدان نہیں، سمری، نوٹ شیٹ، اور فائل کی تیز رفتاری ہوتا ہے۔

خان سعید آفریدی کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ “خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں”۔ اچھا جی، تعلق!یہ وہی “تعلق” ہے جو عام شہری کو کبھی ووٹ کے دن یاد آتا ہے اور کھلاڑی کو تب، جب کسی فائل پر “Approval of Grant-in-Aid” لکھا جاتا ہے۔اصل کہانی کچھ یوں ہے کہ خان سعید بچپن سے کراچی میں پلے بڑھے، وہیں ٹریننگ لی، وہیں لڑائیاں لڑیں، اور وہیں کامیاب ہوئے۔ مگر اچانک ہمیں یاد آ گیا کہ نہیں، بھائی، وہ تو آفریدی ہیں، قبیلے کے لحاظ سے کے پی کے ہمارے بیٹے ہوئے نا! اب چاہے وہ “کک” کراچی میں ماریں، مگر داد پشاور سے ملنی چاہیے۔

ویسے یہ خیبر پختونخوا کا عجیب رواج ہے۔ یہاں اکثر کسی کی کامیابی دیکھ کر لوگ فوراً سوال نہیں کرتے کہ “کیا اس نے محنت کی؟” بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ “کونسے قبیلے سے ہے؟” گویا میرٹ کی فہرست میں پہلا خانہ ہی یہ ہوتا ہے: 1. تعلق؟ (آفریدی، وزیر، خٹک؟) 2. کارکردگی؟ (پھر کبھی دیکھ لیں گے)14 نومبر کی کابینہ میٹنگ کا ایجنڈا پڑھ کر ایک لمحے کو لگا کہ شاید وزیرِ اعلیٰ خود بھی “فائٹرز موڈ” میں آ جائیں گے۔سیکرٹری اسپورٹس سمری پیش کریں گے “سر، 20 لاکھ روپے کی مالی معاونت موئے تھائی کک باکسر خان سعید آفریدی کے لیے تجویز ہے۔” اور پھر کوئی وزیر فوراً پوچھے گا: “کک باکسر؟ مطلب یہ بندہ لوگوں کو مارتا ہے؟ اچھا پھر جلدی منظوری دے دو، کل کو کہیں ناراض نہ ہو جائے!”

اب ذرا سوچیں، خیبر پختونخوا کے کھلاڑی جو گورنمنٹ کی نظرِ کرم کے منتظر ہیں، وہ اپنے کھیل کے گراونڈز میں پسینہ بہا رہے ہیں۔ مگر وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ اصل مقابلہ میدان میں نہیں، کابینہ کے ایجنڈے میں جگہ پانے کا ہے۔خان سعید آفریدی یقینا ایک قابل کھلاڑی ہیں، انکار نہیں۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ وہ اچھے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ کہ کیا وہ “خیبر پختونخوا کے کھلاڑی” کے معیار پر پورا اترتے ہیں؟ اگر وہ کراچی میں ٹریننگ کرتے ہیں، وہاں رہتے ہیں، وہاں اسپانسر لیتے ہیں، تو پھر خیبر پختونخوا کے فنڈ سے مالی مدد کیوں؟

یہ ویسا ہی ہے جیسے پشاور کے کسی استاد کو لاہور کے تعلیمی بورڈ سے انعام مل جائے کیونکہ “اصل میں وہ پنجابی بول لیتا ہے”۔ کھیل کی دنیا میں مقام جغرافیہ سے نہیں بنتا، مگر گرانٹ ہمیشہ پتہ (Address) سے ملتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں کھیل کے ہر میدان میں قبیلہ، تعلق، یا برادری کی کوئی نہ کوئی “سب کمیٹی” ضرور بیٹھی ہوتی ہے۔ کرکٹ میں فلاں قبیلہ آگے، ہاکی میں دوسرا، باڈی بلڈنگ میں تیسرا۔ اب موئے تھائی کی باری آئی تو آفریدی قبیلہ میدان میں۔

کسی نے مذاق میں کہا:“کھیلوں کے ڈائریکٹریٹ کو اب Department of Tribal Sports Affairs کہہ دینا چاہیے۔” ایسا لگتا ہے جیسے ہر کھیل کا ایک قبیلائی اسپانسر ہے — اگر کوئی پہلوان ہے تو وہ خٹک ہوگا، اگر باڈی بلڈر ہے تو وزیر، اگر کک باکسر ہے تو آفریدی۔ بس ابھی کوئی “دورانی اسکواش اکیڈمی” شروع کرے، تو تصویر مکمل ہو جائے گی۔

اب ذرا حساب لگائیں۔خیبر پختونخوا میں اس وقت درجنوں کھلاڑی ایسے ہیں جنہیں قومی یا بین الاقوامی سطح پر جانے کے لیے 50 ہزار روپے کی ضرورت ہے۔کسی کے پاس شو ڈاون کے لیے گلوز نہیں، کسی کے پاس ٹریک سوٹ۔ لیکن سرکاری گرانٹس کی عینک سے دیکھا جائے تو 20 لاکھ صرف ایک “منتخب” کے لیے محفوظ ہے۔یہ ویسے ہی ہے جیسے امتحان میں پوری کلاس پاس ہو جائے مگر انعام صرف اس طالبِ علم کو ملے جس کا “کزن” امتحان بورڈ میں بیٹھا ہو۔ اگر حکومت واقعی کھلاڑیوں کی مدد چاہتی ہے تو فنڈز کو اداروں یا کھیلوں کی اکیڈمیوں کے ذریعے تقسیم کرے — نہ کہ قبیلائی سفارشی فہرست کے ذریعے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے 2023 میں بڑی شان سے نئی “سپورٹس پالیسی” کا اعلان کیا تھا۔ اس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر کھلاڑی کو کارکردگی کی بنیاد پر انعام ملے گا۔ لیکن اب تک اس پالیسی کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ اس کے صفحے ابھی تک فائلوں سے باہر نہیں آئے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اس پالیسی میں یہ لکھا تھا کہ “جو کھلاڑی کابینہ کے ایجنڈے میں جگہ بنالے، وہ خود بخود میرٹ پر سمجھا جائے گا؟”

خان سعید کی کہانی ایک شخص کی نہیں، بلکہ اس نظام کی عکاسی ہے جہاں فائل کا سفر کھلاڑی کی محنت سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔ جہاں فیصلے میدان میں نہیں، میٹنگ روم میں ہوتے ہیں۔ جہاں پرفارمنس رپورٹ سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ سمری کس میز پر پہنچی۔ کھیل کے میدان میں محنت پسینہ مانگتی ہے، مگر سرکاری امداد کے میدان میں “منظوری”۔ یہی وجہ ہے کہ کئی باصلاحیت نوجوان آج بھی میدان میں لڑ رہے ہیں، مگر کوئی “کک” انہیں اوپر نہیں لے جا سکتی — جب تک کسی افسر کی فائل ان کے حق میں نہ “کک” کرے۔

خان سعید کو گرانٹ ملے یا نہ ملے، یہ تو 14 نومبر کی کابینہ میٹنگ طے کرے گی۔ مگر اگر واقعی یہ گرانٹ قبیلائی یا شخصی بنیاد پر دی گئی تو یہ کھیل نہیں، سیاسی جمپ کک ہوگی۔ اور اگر کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ ہوا، تو یہ پہلا موقع ہوگا جب خیبر پختونخوا نے کھیل کو خالصتاً میرٹ پر پرکھا۔فی الحال بس یہی کہا جا سکتا ہے: “یہ صوبہ کھیلوں کا نہیں، فیصلوں کا چیمپئن ہے۔” کیونکہ یہاں ہر کھیل سے پہلے ایک “ایجنڈا آئٹم” ہوتا ہے،اور ہر ایجنڈا آئٹم کے بعد ایک “قبیلائی سلامی”۔
#kikxnow #digitalcreator #sports #fund #grantandaid #kpsports

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 848 Articles with 692365 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More