"ہریانہ بالا کے چیتے… اور محکمہ کھیل کے سست تیتر!"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور کے ایک عام سے سرکاری سکول — گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول ہریانہ بالا — نے وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے اکیڈمیز اور کوچنگ سینٹر صرف سپنوں میں سوچتے ہیں۔ ضلع پشاور کے سپورٹس گالا 2025 میں ان بچوں نے میدان مار لیا۔ رسہ کشی سے لے کر جمناسٹک، دوڑ سے لے کر جمپ تک، ہر کھیل میں "ہریانہ بالا" کے بچے ایسے چھائے کہ باقی سکولوں کے کھلاڑیوں کو لگا جیسے وہ "پری ایکٹیویٹی" میں آئے ہوں۔
لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کہانی تو تب شروع ہوتی ہے جب ہم ان بچوں کی کارکردگی کے پیچھے جھانک کر دیکھتے ہیں کہ آخر ان کے پاس تھا کیا؟ نہ جوتے، نہ کِٹ، نہ گراو¿نڈ، نہ سپورٹس بورڈ کی عنایت — بس ایک استاد، بادشاہ خان، جن کے پاس نہ بجٹ ہے نہ انعام، مگر جذبہ ایسا کہ پورا محکمہ کھیل ان پر تحقیق کرے تو شاید شرمندگی کے نئے باب لکھے۔
یہ بچے روز صبح اسکول آتے ہیں، پڑھائی کے بعد گرمی میں پریکٹس کرتے ہیں۔ دوسری طرف محکمہ کھیل کے افسران ان کے لیے “پالیسی” بناتے ہیں — وہ بھی ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں، فائلوں پر مہر لگاتے ہوئے۔ ان کے لیے کھیل کا مطلب صرف اجلاس، ورکشاپ، یا کسی بین الاقوامی ایونٹ کی “ڈیلی الاونس رپورٹ” ہوتا ہے۔اگر کسی افسر سے پوچھو کہ “ہریانہ بالا کہاں ہے؟” تو شاید وہ گوگل سے پہلے اپنے اسٹینو سے پوچھے۔ لیکن اگر کسی افسر کے بھتیجے کو "انٹرنیشنل شوٹنگ کمپٹیشن" کے لیے ٹکٹ چاہیے، تو منظوری اگلے دن مل جاتی ہے۔
ہریانہ بالا کے بچے میدان میں خون پسینہ بہاتے ہیں۔ وہ ننگے پاو¿ں دوڑتے ہیں، لیکن پھر بھی 100 میٹر، 800 میٹر، 1500 میٹر میں جیت جاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ “نیشنل لیول ایتھلیٹ” ہیں جن کے لیے لاکھوں کی گرانٹس منظور ہوتی ہیں — کبھی ٹریننگ کے نام پر، کبھی “میڈیکل فسیلیٹی” کے بہانے۔ ان کے کیمپ ہوٹل میں لگتے ہیں، ان بچوں کے کیمپ مٹی میں۔ان بچوں کی تصویر اگر کسی افسر کو دکھاو¿، تو وہ پوچھتا ہے، “یہ کون سا پرائیویٹ سکول ہے؟” جب بتایا جائے کہ یہ سرکاری سکول ہے، تو جواب ملتا ہے، “اوہ، تب تو کمال ہے جی!”کمال؟ جی نہیں صاحب، یہ نظام کی ناکامی ہے۔
اس کہانی کا اصل ہیرو کوئی چمکدار ٹرافی نہیں، بلکہ ایک استاد ہے — بادشاہ خان۔وہ وہ آدمی ہیں جو صبح اسکول میں استاد، شام کو کوچ، اور رات کو اپنے شاگردوں کے لیے سپانسر ڈھونڈنے والے “فنڈ ریزر” ہوتے ہیں۔ وہ بچوں کو خود پانی پلاتے ہیں، خود ان کے لیے پرانے جوتے مرمت کرواتے ہیں۔ ان کے شاگرد جب جیت کر آتے ہیں تو وہ انعام نہیں، بلکہ سکول کی بوسیدہ دیواروں پر ایک اور خواب ٹانک دیتے ہیں۔لیکن محکمہ کھیل کے دفتر میں شاید بادشاہ خان جیسے استادوں کے لیے کوئی خانہ نہیں۔ وہاں "ریسورس پرسن"، "کنسلٹنٹ"، "ایڈوائزر" اور "پالیسی اینالسٹ" تو بہت ہیں، مگر اصل کوچ کے لیے فائل اب تک کسی میز کے نیچے دبی ہوئی ہے۔
یہ بچے اگر لاہور یا کراچی کے کسی پرائیویٹ اسکول میں ہوتے تو اب تک نیوز چینلز کے صبح شو میں “ننھے ہیرو” کے عنوان سے پیش کیے جا چکے ہوتے۔مگر افسوس، یہ پشاور کے غریب علاقے کے بچے ہیں۔ ان کے پاس نہ میڈیا کانٹیکٹ ہے، نہ اسپانسر، نہ سفارش۔محکمہ کھیل کے بڑے بابو شاید اگلے سال ان ہی بچوں کی کارکردگی کو اپنی "سالانہ رپورٹ" میں فخر سے لکھیں گے — جیسے ان کی تربیت انہوں نے خود کی ہو۔
کیا کبھی سیکرٹری کھیل نے یہ سوچا کہ سرکاری سکولوں کے یہ بچے اصل سرمایہ ہیں؟کیا کسی ڈی جی سپورٹس نے کبھی ان کے لیے ایک دن نکالا؟یا پھر یہ سب تب یاد آئیں گے جب ان میں سے کوئی بچہ اپنی قسمت آزمائی کے لیے بیرون ملک بھاگنے کی کوشش کرے گا، اور پھر ان پر "غلط ویزا کیس" کی ہیڈ لائن بن جائے گی؟
ہریانہ بالا کے یہ بچے کسی گرانٹ یا انعام کے محتاج نہیں، انہیں صرف ایک موقع چاہیے۔وہ موقع جو اکثر “کمیٹیوں” اور “ایجنڈا آئٹمز” کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔محکمہ کھیل چاہے تو انہی بچوں میں سے اگلا ارشد ندیم، اگلا اقبال حسین یا اگلی مہرالنسائ سامنے آسکتی ہے۔لیکن اگر سسٹم نے وہی پرانی "پالیسی والی نیند" جاری رکھی، تو یہ ٹیلنٹ بھی کسی دیوار کے سائے میں مرجھا جائے گا۔ہریانہ بالا کے بچے آج بھی پشاور کے میدانوں میں پریکٹس کر رہے ہیں — بغیر کِٹ، بغیر کوچنگ سینٹر، بغیر فنڈ۔اور محکمہ کھیل؟ وہ اگلی “کمیٹی میٹنگ” کی تیاری میں مصروف ہے۔
#HaryanabalaChampions #KPKSportsReality #TalentIgnored #SportsInKP #Kikxnow |