خالی یونیورسٹیاں، خالی مستقبل
(Khurram Shahzad, Fateh Jang)
|
خالی یونیورسٹیاں، خالی مستقبل خرم شہزاد اکنامک سروے آف پاکستان 2024-25 کے مطابق، پاکستان کی 269 یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی مجموعی تعداد 19.4 لاکھ رہی، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 13 فیصد کم تھی۔ اس میں سب سے بڑی کمی جنوبی پنجاب میں تھی جہاں یہ شرح 29 فیصد تک کم تھی۔ لیکن اس سال 2025 میں تو حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ کئی یونیورسٹیاں کو تین تین بار اشتہار داخلہ دینے کے باوجود حدف پورا کرنے میں مشکل کا سامنا ہے۔ یہ موجودہ تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان اور مستقبل کے تعلیمی بحران کی دستک ہے۔ وجوہات میں ایک وجہ طلبہ و طالبات کی نظر میں غیر معیاری طریقہ تعلیم ہے جس کو حاصل کرنے کے بعد ان کے ہاتھ ایک ڈگری یا کاغذ کا ٹکڑا تو ضرور آتا ہے لیکنعملی طور پر انہیں کچھ نہیں آتا۔ کیونکہ طلبہ و طالبات کا یہ خیال ہے کہ سلیبس آؤٹ ڈیٹڈ ہے جس کی وجہ سے انہیں علم تو ہوتا ہے مگریہ علم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ آج بھی بغیر تحقیق کے رٹا اپنے عروج پر ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص خود ہمت کر کے مختلف جرنلز سے حوالہ جات کے ساتھ کسی سوال کا جواب لکھ بھی دے تو غلط قرار دے کر کہا جاتا ہے وہی لکھیں جو کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم کی پسماندگی اور بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے بچوں کو اس زبان میں تعلیم دی جارہی ہے جو اس کی زبان ہی نہیں ہے جس کا رسم الخط یہاں کی کسی زبان سے نہیں ملتا۔ بچے کو سکول داخل ہوتے ہی بغیر سوچے سمجھے بابا بلیک شیپ ' ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کے رٹے پر لگا دیا جاتا جس کا نہ بچے کو فہم ہوتا ہے نہ زبان و محاورات اس کے لئے مانوس ہوتے ہیں وہ رٹا جو نرسری سے شروع ہوتا ہے وہ جامعات تک جاری رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جامعات کے مقالہ جات سرقے بازی و نقالی میں اس وقت صف اول میں ہے۔ داخلوں میں کمی کی وجہ تعلیمی امتحان کے نقائص بھی ہیں، امتحان صرف یاداشت کا ہوتا ہے ذہانت کا نہیں۔ اب تو یہ صورتحال ہو گئی ہے کہ نقل کے علاوہ تعلقات بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ بات کئی جگہوں پر سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ لڑکیوں کو اچھے گریڈ حاصل کرنے کے لیے اساتذہ کرام کے ساتھ خصوصی تعلقات رکھنے پڑتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی خود انحصاری پالیسی نے سرکاری جامعات کو خودکفالت کے دباؤ میں دھکیل دیا ہے، حالانکہ ان اداروں کا بنیادی مقصد سستی اور معیاری تعلیم کی فراہمی تھا۔ 2018ء کے بعد سے سرکاری سطح پر یونیورسٹیوں کی مالی معاونت میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں کیا گیا، جس کے باعث متعدد ادارے شدید مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ مالی بحران کی شدت کئی اداروں کو اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنے اور لیبارٹریز میں تحقیقاتی مواد اور کیمیکلز کی خریداری کے لیے بھی فنڈز کی دستیابی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تحقیقی شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے سے ملکی معیشت اور پالیسی سازی کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی لیبارٹریوں اور تحقیقی انفراسٹرکچر کو نظر انداز کیا، تو اس کے اثرات معیشت کے ہر شعبے پر مرتب ہوں گے۔ کم فنڈنگ کے باعث سرکاری جامعات کا تعلیمی معیار گرتا جا رہا ہے، اور یونیورسٹیوں کو اپنی آمدن بڑھانے کے لیے فیسوں میں مسلسل اضافہ کرنا پڑا ہے، جس کا براہِ راست بوجھ طلبہ اور ان کے خاندانوں پر پڑا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف داخلے کی شرح کو متاثر کیا ہے بلکہ ذہین مگر معاشی طور پر کمزور طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک دور کا خواب بن چکی ہے۔ طلبا مختصر دورانیے کے کورسز اور ہنر سیکھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کے مد مقابل یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ فیسیں باہر کے ممالک کی نسبت بہت کم ہے جب پوچھا جاتا ہے کہ باہر ممالک میں فی کس امدن کتنی ہے اور اس کا پاکستان سے شرح تقابل کیا ہے تو ایک گہری گمبھیر خاموشی کے سوا کوئی جواب نہیں ملتا۔ داخلوں میں کمی کی وجہ بڑھتے ہوئے ہراسمنٹ کے واقعات بھی ہیں خصوصا سوشل میڈیا جس پر ریاستی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے یونیورسٹیز میں طالبات کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی ہراسانی کے کیسز اور ان کی تشہیر میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے جس سے شریف خاندانوں میں تشویش کی لہرپائی جاتی ہے۔ پاکستانی جاب مارکیٹ میں موجودہ ڈگریز کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔اور آئے روز سرکار نوکریاں ختم کر رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اپنا احتساب خود کرنے والا ہے وہ ایک بندہ بھی ایکسٹرا رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بنیادی طلب یہ ہے کہ آپ کو کام آنا چاہیے چونکہ ان کو کام نہیں آتا صرف معلومات ہوتی ہیں اور ڈیمانڈز بہت زیادہ، لہذا بے روزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تنخواہیں شرمناک حد تک کم ہیں۔ چند ہزار پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ ایک ریڑھی یا رکشے والا بھی روزانہ ان سے زائد کما لیتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ارٹیفیشل انٹیلیجنس نے جہاں چار بندوں کا کام ہوتا تھا وہاں ایک بندہ ہی کافی ہے نتیجتا مارکیٹ میں کام کرنے والے ہاتھوں کی تعداد کی ڈیمانڈ کم ہو گئی ہے۔ دوسرا اس کے لیے کسی ڈگری کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی استعمال پر کوئی موئثر چیک نہیں ہے۔ نوجوان فضول اور بے حیائی پرمبنی مواد کی تشہیر کر کے پیسہ بنانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں جو تحقیق، علم، اخلاقیات، معاشرتی روایات، خاندانی نظام اوراجتماعی سوچ کے خلاف ایک سرد جنگ کے طور پر جاری ہے۔ سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال بھی تعلم اور اساتذہ سے دور ہونے کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سنجیدگی سے اپنے تعلیمی نظام کا ازسرنو جائزہ لیں، وگرنہ یہ خالی کلاس رومز کل کے خالی مستقبل کا اشارہ ہیں۔ اس کے لیے نرسری سے گریجویشن تک ایک نصاب کی ضرورت ہے۔ تمام یونیورسٹیوں، بورڈز، صعنتی اور مذہبی نمائندوں پر مشتمل ایک کیمشن تشکیل دیا جائے جو پاکستان کے مقامی مسائل و وسائل کو مدنظر رکھ کر ایک جامع نظام تعلیم تشکیل دے جو لوگوں کے عملی زندگی میں ان کو مدد دے تاکہ لوگ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہنرمند اور ماہر بن کر معاشی طور پر اپنی اور پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ Email: [email protected]
|
|