پرفارمنس

یو اے ای کی سرزمین ہمیشہ ہی پاکستان کےلئے خوش قسمتی کی علامت رہی ہے۔ یہاں پر پاکستان نے بڑی بڑی فتوحات حا صل کی ہیں اور بڑی بڑی ٹیموں کے چھکے چھڑوائے ہیں ۔ بہت سی ٹیمیں پاکستان کی فتح کے خوف سے میدان سے بھاگ نکلیں اور آج تک لوٹ کر میدان میں نہیں اتریں۔ اس سلسلے میں بھارتی ٹیم کی مثا ل ہر لحاظ سے موزوں ہے جو یو اے ای میں آکر کھیلنا پسند نہیں کرتی۔ بھارت خود کو کرکٹ کا چمپین سمجھتا ہے لیکن یو اے اے میں اس نے جو پے در پے شکستوں کے زخم سہے ہیں اس سے وہ یہاں پر کھیلنے سے اجتناب کئے ہو ئے ہے۔ 1985 میں جاوید میاں داد کے چھکے نے جس طر ح بھارتی ٹیم کے چھکے چھڑوائے تھے وہ ابھی تک اس خوف سے خود کو آزاد نہیں کرا سکی ۔ پاکستان کرکٹ بورڈکے چیرمین چوہدری ذکاءاشرف کا کہنا بالکل بجا ہے کہ بھارتی ٹیم خوف کا شکار ہے اور پاکستان کا مقابلہ کرنے سے کترا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ بھارت یو اے ای میں پاکستان کے بالمقابل کب آتا ہے کیونکہ یہاں کے رہنے والوں کی شدید خواہش ہے کہ وہ برِ صغیر کی ان دونوں بڑی ٹیموں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے دیکھیں تاکہ اعلٰی درجے کی کرکٹ دیکھنے کو ملے۔ پاکستان تو یہاں پر کھیلنے کےلئے تیار ہے لیکن بھارت نخرے دکھا رہا ہے اب بال بھارت کے کورٹ میں ہے اور اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ذاتی تحفظات کو ترجیح دیتا ہے یا وہ کرکٹ کے کھیل سے محبت کا اظہار کرتاہے اورا س کھیل کے یو اے ای میں فروغ کےلئے یہاں پر کھیلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ حالیہ سیریز میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کو تین صفر سے شکست دینے کے بعد پاکستانی کر کٹ ٹیم نے ہر سو اپنی دھاک بٹھائی ہو ئی ہے اور ساری دنیا کی نظریں اس پر جمی ہو ئی ہیں۔دنیا کی نمبر ون ٹیم کو شکست دینا کوئی معمولی کام نہیں تھا لیکن پاکستانی ٹیم نے یہ کارنامہ بھی سر انجام دے دیا ۔انگلینڈ کو پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں پہلی دفعہ وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پاکستان کی اس تاریخی فتح کا سہرا پوری ٹیم کے سر ہے۔ اس کے سپنرز نے جس اعلٰی معیار کا کھیل پیش کیا ہے اس نے بڑی بڑی ٹیموں کے دل ہلا کر رکھ دئے ہیں۔ اس جیت نے عالمی کرکٹ کی رینکنگ میں پاکستان کے نئے مقام کا تعین کیا ہے جو بڑی خوش آئند بات ہے۔کہتے ہیں کہ کرکٹ کا کھیل بڑا ہی بے اعتبارا اور غیر یقینی ہوتا ہے اور اسکے بارے میں کسی قسم کی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ماضی کی جیت پر مستقبل کی فتح کے خواب سجائے جا سکتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ایک ایسے مدو جزر کی مانند ہو تاہے جس کی لہریں کبھی کبھی انتہائی اتھری ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی بالکل د ھیمی ہو جاتی ہیں ایک غیر یقینی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں کھلاڑی کو اپنے آپ کو ڈھالناہو تا ہے تا کہ وہ ٹیم کی امیدوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتا رہے۔ کھلاڑی کی ذرا سی کوتاہی پورے میچ کی قسمت کو داﺅ پر لگا سکتی ہے اسی لئے ہر کھلاڑی کو اپنی بہترین صلا حیتوں کا اظہار کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی ذار سی چوک ہار کے شاخسانے میں بدل جاتی ہے۔ چند روز پہلے تک انگلینڈ کو ناکوں چنے چبوانے والی پاکستانی ٹیم ابو ظبی میں پہلے دو ایک روزہ میچوں میں انگلینڈ کے لئے بڑا تر نوالہ ثابت ہو ئی ہے۔ یہ بات کسی کے بھی حیطہ ادراک میں نہیں تھی کہ انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں بری طرح سے شکست سے ہمکنار کرنے والی اور وائٹ واش کرنے والی پاکستانی ٹیم یوں بری طرح سے شکست سے ہمکنار ہو گی کہ اس ذلت امیز ہار میں اس کی شاندار فتح بھی گہنا جائے گی ۔

پہلے ون ڈے میں تو پاکستانی ٹیم کا کھیل انتہائی ناقص تھا اور یہ وہ ٹیم لگ ہی نہیں رہی تھی جس نے ایک ہفتہ قبل انگلینڈ کی خوب درگت بنائی تھی۔ انگلینڈ کے 260 رنز کے جواب میں پوری پاکستانی ٹیم جسطرح سے 130 رنز پر ڈھیر ہو گئی اس نے کرکٹ کے شا ئقین کو کافی مایوس کیا۔ انگلینڈ کے ٹاپ آرڈر نے بڑا شاندار کھیل پیش کیا اور ان کے سلامی بلے باز اے این کک نے سنچری (137) سکور کر کے اپنی ٹیم کی پوزیشن کو انتہائی مستحکم کر دیا۔آر ایس بپارا (50) نے کک کا بھر پور ساتھ دیا اور یوں انگلینڈ ایک بڑا سکور کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کی اصل قوت اسکی سپین باﺅ لنگ ہے اور اسی طاقت پر پاکستانی ٹیم ساری منصوبہ بندی کرتی ہے۔بیٹنگ کا شعبہ کمزور ہے اور اس وقت بیٹنگ میں اس کے پاس بڑے نام نہیں ہیں۔ نئے آنے والے لڑکوں کو ابھی بڑی محنت کی ضرورت ہے لہذاان سے بڑی بڑی اننگز کی توقعات رکھنا جذباتی پن ہے۔نئے لڑکوں میںبے پناہ ٹیلنٹ ہے لیکن اس کےلئے وقت درکار ہے۔ اظہر علی ایک اچھا بلے باز ہے لیکن اسے تجربے کی کٹھالیوں سے گزرنا پڑے گا تا کہ وہ ون ڈے میچز میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیات میں اپنی بیٹنگ کے جوہر دکھا سکے۔ یو نس احمد خان اور مصبا ح ا لحق دو تجربہ کار کھلاڑ ی ہیں لیکن وہ دونوں بھی اپنا جادو نہ دکھا سکے۔ شاہد آفریدی سے بڑی توقعات وابستہ تھیں اور اس نے اپنی باﺅلنگ کا جادو بھی جگا یا لیکن جب بیٹنگ کے جوہر دکھانے کا وقت آیا تووہ بھی بڑی اننگز کھلنے میں ناکام رہا۔ سعید اجمل نے حسبِ معمول انگلینڈ کے پانچ بلے بازوں کو جس طرح آﺅٹ کیا اس نے انگلینڈ کو 260 کے سکور تک محدود کرنے میں بڑی مدد کی وگرنہ جس طرح وہ بلے بازی کر رہے تھے ان کا ہدف مزید بڑا ہو تا جسے پاکستانی ٹیم کے لئے جیتنا بالکل ناممکن ہو جاتا۔ شعیب ملک ایک بھولی بسری داستا ن ہے جسے فراموش کر دینا ہی بہتر ہے۔ اسکی ٹیم میں بالکل جگہ نہیں بنتی لیکن لگتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی دباﺅ کے باعث اسے زبردستی ٹییم میں گھسیڑا گیا ہے اور اسکا نتیجہ وہی ہونا تھا جو ہو ا اسکی کارکردگی اس قابل نہیں کہ اس پر بحث کر کے وقت ضا ئع کیا جائے۔ شعیب ملک ٹیم پر بوجھ ہے اور اس بوجھ سے جتنی جلدی ممکن ہو جان چھڑا لی جائے اور اسکی جگہ کسی نئے ابھرتے ہوئے ہونہار کھلاڑی کو مو قع فراہم کرکے ٹیم کو مضبوط کیا جائے۔۔

پہلے ون ڈے میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست نے پاکستانی ٹیم کو دن میں تارے دکھا دئے ہیں کیونکہ انگلینڈ نے جس بری طرح سے پاکستان کو شکست دی تھی اس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ دوسرے ون ڈے میں امیدوں کے دیپ روشن تھے اورپاکستانی ٹیم پہلے ون ڈے کی شکست کا بدلہ لینے کےلئے پوری طرح تیار تھی۔ پہلے ون ڈے کی طرح اس دفعہ بھی انگلینڈ نے ٹاس جیت کو بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اورا س کے سلامی بلے بازوں نے انگلینڈ کو اچھا آغاز دیا ۔انگلینڈ نے مقررہ پچاس اوورں میں چار وکٹوں کے نقصان پر 250 رنز بنائے جس میں اے این کک کے 102 رنز کی شاندار اننگز بھی شامل تھی۔ آر ایس بپارا نے 58 رنز کی عمدہ اننگز سے کک کا بھر پور ساتھ دیا اور یوں انگلینڈ ایک ایسا ھدف دینے میں کامیاب ہوا جو پاکستان کےلئے آسان نہیں تھا۔پاکستانی سپنرز نے ایک دفعہ پھر بڑی نپی تلی باﺅلنگ کی اور انگلینڈ کے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ پاکستان کے دونوں سلامی بلے بازو ں عمران فرحت اور محمد حفیظ نے 16 رنز کا اوپننگ سٹینڈ دے کر میچ کو انتہائی دلچسپ بنا دیا۔ایسے لگ رہا تھا کہ پاکستان یہ میچ آسانی سے جیت جائے گا۔ ا ظہر علی دھیرے دھیرے میچ کو آگے لے کر بڑھ رہے تھے اور پاکستانی جیت کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ان کے آﺅٹ ہونے سے پا کستانی ٹیم کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑا۔ عمر اکمل ایک انتہائی جار حا نہ انداز سے کھیلنے والے بلے باز ہیں لیکن ان سے وکٹ کیپر کی اضافی ذمہ داریاں اس کی پرفارمنس پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس پر پاکستانی کپتان کو سوچنا چائیے۔ وکٹ کیپنگ ایک فل ٹائم جاب ہے اور اسے ایک باقاعدہ وکٹ کیپر کے حوالے کیا جا نا ضروری ہے۔ پارٹ ٹا ئم وکٹ کیپر سے مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ تیس اووروں کے اختتام پر پاکستان کا سکور 130 رنز تھا اور اس کے صرف تین کھلاڑی آﺅٹ ہوئے تھے تو انگلینڈ کافی دباﺅ کا شکار تھا لیکن پھر یونس خان اور عمر اکمل کے یکے بعد دیگرے آﺅٹ ہو جانے کی وجہ سے میچ پر پاکستان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ مصباح ا لحق نے 47 رنز کی ایک شاندار اننگز کھیلی لیکن اس کے پولین لوٹ جانے کے بعد ساری ٹیم تاش کے پتوں کی مانند بکھر گئی اور صرف 230 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ شاہد آفر یدی بھی بیٹنگ میں کوئی کمال نہ دکھا سکے اور یوں پوری ٹیم 230 رنز بنا کر 20 رنز سے یہ میچ ہار گئی۔ پاکستانی بیٹنگ کے سامنے 250 رنز کا ہدف کوئی بڑا ھدف نہیں تھا لیکن غیر معیاری منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستان یہ میچ ہار گیا ۔ میرے ساتھ میڈیا با کس میں بیٹھے ہوئے اکثر تجزیہ کاروں کی یہ پختہ رائے تھی کہ یہ میچ پاکستان کی گرفت میں ہے اور پاکستان یہ میچ با آسانی جیت جائے گا لیکن کھیل کے اختتام پر ا نگلینڈ میچ کا فاتح قرار پایا تو سب حیران تھے کہ پاکستان اپنی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ میچ ہارا ہے ۔ انگلینڈ کی جانب سے ایس ٹی فین نے 34 رنز دے کر چار کھلاڑیوں کو آﺅٹ کیا جبکہ اینڈرسن اور پٹیل نے دو و دو کھلاڑیوں کو آﺅٹ کر کے انگلینڈ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ابھی اس سیرز کے دو ون ڈے میچز باقی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان یہ میچز نہ جیت سکے کیونکہ اس کے پاس ایسے اعلٰی درجے کے سپنرز ہیں جو مخالف ٹیم کے چھکے چھڑوا سکتے ہیں ۔ ۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 450528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.