ہم پھر ہار گئے!آج سے 41 سال قبل
ہم بھارت کے ہاتھوں ڈھاکہ ہار بیٹھے تھے اور آج ہم اسی سرزمین میں بھارت کے
ہاتھوں ایک بار پھر شکست کھابیٹھے،اس سے قبل بھی گزشتہ سال اسی مہینے میں
ورلڈ کپ 2011کے سیمی فائنل میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں دُوبدُو ہوئی
تھیں،میچ کے ذریعہ بھارت کو نیچا دکھانے کے خواب نے پوری ہی قوم کو یک جان
کردیا تھا،کیا بچے،کیا جوان اور کیا خواتین....سبھی سب کچھ بھول بھال کر
اسکرین کے سامنے آبیٹھے تھے،نجومیوں ،پنڈتوں اور کرکٹ کے آکٹوپسوں کی طرف
سے پیشین گوئیاں بھی ہوچکی تھیں،بھارتی نجومی کے بدقسمت طوطے نے یہ نوید دے
کراپنی جان بھی گنوادی کہ یہ ورلڈ کپ پاکستان ہی لے جائے گا ، بعض دیوانوں
نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ واشنگٹن میں یہ فیصلہ ہوچکا کہ یہ عالمی کپ
پاکستان کے خالی کشکول کے نام ہوگا، پوری ہی قوم ایک عجیب قسم کی خوشی و
سرور کی سی کیفیت میں مبتلا تھی،ایک دیوانگی اور جنون کی سی حالت تھی،دل و
دماغ میں جیت کا نشہ سوار تھا،”اقبال کے شاہینوں “نے بھارت ماتا کے بیٹوں
کے پرخچے اڑادینے کے بلند بانگ دعوے کیے ،پاکستانی کپتان کی طرف سے قوم سے
فتح کے عہد و پیمان کیے گئے، تخت ِ اسلام آباد میں براجمان سیدزادہ بھی
اپنی جہازی سائزکی کابینہ کو لیے آنکھوں میں جیت کے سہانے سپنے سجائے بھارت
چل دیے، لیکن پھر کیا ہوا....؟مسلمان ہار گئے اور بتوں کے پجاری کامراں
ٹھہرے!وہ ساری کی ساری کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں،جیت کا خواب چکنا چور
ہوگیا،موہالی میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کی خواہش ادھوری رہ گئی،میچ سے قبل
کھلاڑیوں نے اسی عبرت گاہ موہالی کے گراﺅنڈ میں نماز ادا کرکے خدا کے حضور
جیت کے لیے دعائیں بھی کیں،پاکستان کی مسجدوں میں بھی خصوصی دعائیں کرائی
گئیں،وہ بھی رائیگاں گئیں،پوری قوم کی جو مجموعی صورتحال تھی، اسے دیکھ کر
یہی لگ رہا تھا کہ بھارت کو ہرا کر جنوبی ایشیا میں بالادستی کاپرچم لہرانے
کایہ موقع اب نہیں تو پھر کبھی نہیں آئے گا ،کھیل سے ہی ہم ان ہندو بنیوں
کو چھٹی کا دودھ یاد دلاسکتے ہیں،لیکن بعدمیں اس شکست نے اس کرکٹ کی دیوانی
قوم کو اَدھ موا کرکے رکھ دیا ،بے شمار بچوں اور نوجوانوں کی نیند ان سے
رُوٹھ گئی ،بعض خواتین کی توصدمہ کی وجہ سے آنکھیں برستی رہیں اور پھر پورے
ایک سال بعد کل جب دوبار ہ دونوں ٹیمیں آپس میں گتھم گتھا ہوئیں تو کرکٹ پر
دل و جان وار دینے والی اس قوم نے ایک بار پھر جیت کے خواب بُننے شروع
کردیے ،ایشیا کپ سیریز میں پاک بھارت میچ سے قبل گزشتہ میچ میں بنگال کے
ٹائیگرز نے بھارتی میمنوں کو دھول چٹادی تھی،جس نے پاکستانیوں کی مزید ہمت
بندھائی،پاکستانی یہ سمجھ بیٹھے کہ اب بدلہ لینے کا سنہرا وقت آگیا،ایک دن
پہلے سے ہی اس حوالے سے عجیب و غریب مزاحیہ میسجز فارورڈہوتے رہے،کوئی اسے”
سالوں“ کے ساتھ میچ قرار دے رہا تھا تو کوئی پرانا بدلہ چکانے کی بات
کررہاتھا،کچھ نے تو اسے کفر و اسلام کا معرکہ بھی کہہ دیا....جب ان سے
پوچھاگیا کہ بھیا!یہ اسلام اور کفر کا معرکہ کیسے ہوگیا تو اپنی دانشمندی
جھاڑتے ہوئے کہہ اُٹھے کہ بھئی!بھارت بتوں کی پرستش کرتے ہیں جبکہ ہم ایک
خدا کے ماننے والے ہیں،اگر آپس میں ہمارا مقابلہ ہورہاہے تو کیا یہ حق و
باطل کی جنگ نہیں ؟اب ایسے بے وقوفوں سے کون اُلجھے ؟ایسے مواقع پر ہمیشہ
ہی ایسی ایسی تاویلات سامنے آتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے،وہ نوجوان جن کو
عملی زندگی میں مذہب سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے اورجن کے ذہن میں حق و
باطل کے معرکہ کا کوئی تصور اور خاکہ تک نہیں ہوتا،نہ جانے ایسے مواقع پر
یہ تاویل ان کے ذہن میں کیسے کود پڑتی ہے؟
اس میں ہرگزدورائے نہیں کہ کھیل امن،دوستی اور تفریح کا ذریعہ ہوتا ہے،دنیا
بھر میں لوگ کھیل صرف تفریح کے لیے کھیلتے ہیں،لیکن پاکستان اور بھارت کی
ٹیمیں جب بھی آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ایسا لگتا ہے یہ کوئی کھیل نہیں جنگ
ہے، پاکستانی اور بھارتی اس میچ کو جس جوش و خروش اور ولولہ کے ساتھ
انجوائے کرتے ہیں،ان کا شوق دیدنی ہوتا ہے،پاکستانی تو اس معاملہ میں کچھ
زیادہ ہی آگے بڑھ جاتے ہیں،برسوں سے دونوں ہمسایہ ممالک ہزار دوستی کے
نعروں،امن کی آشاﺅں اورمحبت و پیارکابھرم رکھنے کے باوجود دشمنی کے خول سے
نہیں نکل سکے،ہر ایک کی خوشی دوسرے کی شکست میں ہوتی ہے،آپ پاک بھارت میچز
کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں!جب ان دونوں ٹیموں کا میچ ہوتا ہے تو سرحد کے
دونوں اطراف ہی ایک عجیب قسم کا جوش ہوتا ہے،ایسالگتا ہے کہ جیسے برسوں سے
دل کی بھڑاس نکال لینے کا یہ موقع پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا،دونوں اطراف
کے مسلمان اپنی اپنی ٹیم کے لیے دعاﺅں کا سہارا لیتے ہیں،دونوں کا خدا ایک
ہی ہے، مگر یہ تو خدا پر ہے کہ وہ کس کو فتح یاب کرے اور کس کو نامراد....!
اب ایک سال بعد قوم کو پھر ایشیا کپ کے پاک بھار ت میچ میں الجھایا گیا،اس
دن ہم نے کیا نہیں کیا؟چھٹی تو پہلے سے ہی تھی، میچ شروع ہوتے ہی پورا
علاقہ ویران،سڑکیں سنسان،گلیوں میں سناٹاہوگیا،لوگ گھروں میں دبکے امید و
بیم کی سولی میں لٹکے زیر ِ لب دعاﺅں کا ورد کرتے اس ”جنگ“سے لطف اندوز
ہورہے تھے،پہلی اننگ پاکستان کی ہوئی،پاکستان نے گڈ پرفارمنس کے ساتھ330کا
ٹارگٹ دیکربیٹ بھارتی ٹیم کو تھمادیا،قوم مطمئن بھی تھی کہ اسکور بہت زیادہ
ہے، یہ بازی تو ہم ہی جیتیں گے،لیکن پھر کیا ہوا؟بھارت ماتا کے فرزند ہمیں
مات دے گئے،ایک بار پھرہماری قوم کی آنکھیں نم ہوئیں اور اب تواپنے دل کو
طفل تسلیاں دیکر شانت کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، ورنہ ان میچوں سے ہماری
جو توقعات اورامیدیں وابستہ تھیں ،وہ اگر خدا کے ساتھ اپنی ہی زندگی کے لیے
ہوتیں تو یقینا آج ہماری یہ دُرگت نہ بنی ہوتی....!
ذرا سوچئے!کل کا دن ہم نے جس طریقہ سے گزارا،کیا وہ فضول نہیں گزرا؟اتنا
کچھ کرنے کے بعد رات کو آپ نے سوچا کہ آپ کو ایسے لہوو لعب میں انوالو (involv)ہوکر
کیا ملا؟سچ تو یہ ہے بے شمار لوگ آخر میں کھلاڑیوں کی وساطت سے پاکستان کو
گالیاںبکتے نظر آئے،اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کھیلوں میں مصروف
ہوکراپنی وقعت بھلادی،ہم کیا تھے؟اور کیا ہوگئے؟یہ ہم نے کبھی سوچنے اور
سمجھنے کی کوشش نہیں کی،ہم نے اپنی زندگی کا مقصد،اپنا مر کزِ نگاہ اوراپنی
منزل کرکٹ کے گراﺅنڈ کی فتوحات کوبنالیا ہے،اب تو ہماری نگاہیں کرکٹ کی پِچ
پر سے ہٹتی ہی نہیں ہے،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے کھیل کو کھیل رہنے
نہیں دیا بلکہ اپنی دنیوی اور اُخروی نجات ،کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ
سمجھ لیاہے۔
میرے مخاطب پاکستان کے وہ نوجوان ہیں جو پاکستان کو ہر میدان،ہر فیلڈ اور
ہر شعبہ میں اونچا ، بلند اور عالی شان دیکھنا چاہتے ہیں،وہ میچ بھی اسی
لیے دیکھتے ہیں کہ جیت کا سہرا پاکستان کے سر ٹھہرا تو نام تو ہمارا ہی
ہونا ہے،آپ بالکل ٹھیک سمجھتے ہیں،یہ آپ کی حب الوطنی کاجذبہ بول رہا
ہے،لیکن بھئی!یہ تو محض ایک تفریح کا ذریعہ ہے،ہمارا اصل مقصد،منزل اور ہدف
تو کچھ اور ہے اورنہ ہی یہ ہماری میراث ہے،پھر کیوں ہم اس میں اپنا
وقت،پیسہ اور انرجی ضائع کررہے ہیں،اگر آپ جیتنا چاہتے ہیں تو آپ مطمئن
رہیے کہ آپ میں جیت کی اُمنگ ابھی باقی ہے، آپ ضرور جیت سکتے ہیں،لیکن اگر
آپ پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیںتو بھیا!کچھ کرنا ہے تو ان میدانوں
میں کریں ناں جن سے ہم اپنی حقیقی منزل پا سکتے ہیں،اگر ہم بھارت کو واقعی
نیچا دکھانا چاہتے ہیں تو ہم دیگر شعبوں میںاس کا تعاقب کیوں نہیں کرتے؟ہم
تعلیم،ٹیکنالوجی اور دفاع میں اُسے اپنا حریف کیوں نہیں مانتے؟اس کے علاوہ
بتائیے ذرا!کرکٹ کے ذریعہ ہم کتنے بھوکوں کو روٹی،کتنے ننگوں کو
کپڑااورکتنے بے سہاروں کو مکان دلاسکتے ہیں؟ہمارے اسلاف کا یہ رویہ تو نہیں
رہا،پھر ہم کدھر کو منہ اُٹھائے چلے جارہے ہیں؟
آج ہمارے فارن افیئرزاورہماری ڈیفنس پوزیشن اتنی مستحکم نہیں،ہمارے ہاں
تعلیمی نظا م کا درست جال ابھی تک نہیں بچھ سکا،گڈ گورننس کا ڈھانچہ آج تک
ہم ترتیب نہیں دے سکے،ہم اپنی سرحدوں کو ابھی تک محفوظ نہیں بناسکے،اندورنی
خلفشار اور خانہ جنگی کی وجہ سے پوری قوم دوچار ہے،لسانیت ،صوبائیت اور
مسلک کے نام پر ہم آپس میں دست و گریباں ہیں،ہمیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا
کہ ہماری منزل کہاں ہے؟ہم جا کہاں رہے ہیں؟ضرورت تو ان چیزوں کی طرف توجہ
دینے کی ہے،آپ اپنے دائرے میں جو کچھ کرسکتے ہیں ، وہ تو کریں،ہمارا ہمسایہ
بھارت ہم سے تقریبا ہر لحاظ سے آگے چل نکلا ہے،حالانکہ ہماری اور ان کی
آزادی میں ایک رات کا بھی فرق نہیں،پھر ترقی کے میدان میں اتنا تفاوت کیوں؟
خدارا ! سوچیے ذرا! ہم اس پہلے بھی ہار گئے تھے،اس دفعہ بھی ہم ہار گئے،آخر
ہم کب تک شکست کھاتے رہیں گے؟ہم 64سالوں سے اب تک صرف مات ہی کھاتے رہے
ہیں،ہر کوئی ہمیں روندتا چلاجارہا ہے،یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنی
منزل پر سے اپنی نگاہیں ہٹالی ہیں،ہم بھٹک گئے ہیں،اب بھی وقت ہے،آئیے !اپنا
قبلہ تبدیل کرلیتے ہیں،ورنہ ہم پھر ہار جائیں گے....! |