سب سے پہلے تو میں ایشیاء کرکٹ
کپ جیتنے پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان ، پوری ٹیم اور پوری قوم کو مبارک
باد پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کو شاندار کھیل پیش
کرنے پر نہ صرف مبارک باد دیتا ہوں بلکہ خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
اب میں کرکٹ کی تاریخ اور دنیائے کرکٹ کے حیرت انگیز اور انوکھے ترین واقعہ
کی طرف آؤں گا۔ وہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی قوم یعنی عوام ہمیشہ اپنے ملک
کو سپورٹ کرتی ہے چاہے سیاست کا میدان ہو یا معیشت کا۔ چاہے کھیل کا میدان
ہو یا جنگ کا۔ کھیل میں چاہے جو بھی کھیل ہو۔ مگر اس ایشیاء کپ میں دنیا
میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ کوئی قوم اور عوام کسی کھیل میں اپنے مخالف ٹیم
کی حمایت کر رہی ہو۔ ایشیاء کپ ٢٠١٢ میں بنگلہ دیش نے جس طرح کا کھیل پیش
کیا وہ تعریف کے قابل ہے۔ وہ اس کپ میں بالکل الگ ، مختلف اور اہم کرکٹ ٹیم
کے روپ میں سامنے آئی۔ اسنے پہلے میچ میں پاکستان کو بہت مشکل سے جیتنے دیا
اور اس کے بعد انڈیا کے خلاف جس طریقے سے کامیابی حاصل کی اس کے لئے جتنی
داد دی جائے کم ہے اور پھر سری لنکا جیسی ٹیم کو شکست دے کر فائنل میں
پہنچنا کمال بلکہ بہت بڑا کمال اور کارنامہ ہے۔ حیرت ترین اور انوکھا ترین
واقعہ اس طرح ہے کہ پاکستانی قوم پاکستانی ٹیم کی بجائے بنگلہ دیش کی
حمایتی تھی لوگوں میں سے نوے ٩٠ فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ بنگلہ دیش فائنل
جیت جائے گی اور ٥٠ سے ٦٠ فیصد لوگوں کی خواہش بھی یہی تھی کہ بنگلہ دیش ہی
ایشیاء کپ جیتے۔ کیونکہ جس طرح اس نے تمام میچ جیتے اور خاص کر انڈیا کو نہ
صرف خود شکست دی بلکہ اس کو ٹورنمنٹ سے پاہر کرنے کے لئے سری لنکا کو بھی
شکست دی۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بنگلہ دیش سے بڑی مشکل سے میچ جیتا اور پھر
انڈیا سے جس طرح ہارا تو بنگلہ دیش ہی فیورٹ سمجھی جانے لگی تھی۔
بہر حال پاکستانی کرکٹ ٹیم دنیا کی سب سے غیر یقینی اور نا قابل بھروسہ ٹیم
سمجھی جاتی ہےجو کبھی ناقابل یقین اچھی کارکردگی دکھا دیتی ہے اور کبھی بری
ترین شکست کو گلے لگاتی ہے۔
ایک بار پھر پاکستانی ٹیم کو مبارک باد دیتا ہوں اور بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کو
مبارک کے ساتھ ساتھ خراج تحسین بھی پیش کرتا ہوں جنھوں نے اس کپ میں اچھی
کارکردگی سے کرکٹ کے شائقین کے دل جیت لئے اور ایشیاء کپ بے شک نہ جیتا ہو
مگر ہر کسی کے دل خاص کر پاکستانیوں اور مسلمانوں کے دل جیت لئے۔
اپنے کالم کا اختتام اس شعر پر کروں گا۔
اپنی جیت کی خوشی بھی پھیکی پڑ گئی
ایک مسلمان بھائی کو روتا دیکھ کر۔
اور یہ حقیقت ہے کہ میچ کے بعد بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں کو روتا دیکھ کر
تقریبا ٩٩ فیصد پاکستانی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یار وہی جیت جاتے
کیونکہ انھوں نے کافی محنت کی تھی اور انھیں بہت زیادہ دکھ ہو رہا ہے۔ اس
لئے میں ان سے کہوں گا کہ رونا بے شک آتا ہے مگر ہمت اور حوصلے سے کام بھی
لینا پڑتا ہے۔ ویل ڈن پاکستان۔۔۔۔۔۔ گڈ لک بنگلہ دیش |