از قلم:حافظ وقاری مولانا محمد
شاکر علی نوری صاحب(امیر سنی دعوت اسلامی)ممبئی
میرے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے پیارے دیوانو! ماہِ رمضان
المبارک میں ہم روزہ رکھتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں، تراویح کا اہتمام کرتے
ہیں، قرآن مقدس کی تلاوت کرتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے ہیں، روزہ داروں کو
افطاری کراتے ہیں، اپنے اہل و عیال پر خوب دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ یقینا
ان اعمال میں بے حد ثواب اور بے شمار فوائد ہیں لیکن جیسے ہی ہم عید کا
چاند دیکھتے ہیں یہ تصور کرتے ہیں کہ سارے اعمال خیر سے ہمیں چھٹکارا ملا،
عید کا چاند دیکھتے ہی ہم بازار میں نکل جاتے ہیں اور قسم قسم کی
اشیاءخریدنے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اکثر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ
ماہِ رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہی گویا وہ اللہ عزوجل کو بھول گئے ہوں،
پورا مہینہ عبادت اور نیکی میں گزارنے کے بعد عید کا چاند دیکھتے ہی نمازوں
کو ترک کر کے دیگر اعمال میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
ہمیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ کیا ہم نے ماہِ رمضان المبارک کی اس طرح قدر
کی ہے جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق بنتا ہے، کیا ہم نے اس میں اس طرح عبادت
کی ہے جس طرح عبادت کرنی چاہئے۔ شبِ عید ماہِ رمضان المبارک میں کی جانے
والی نیکیوں کا بدلہ لینے کی شب ہے اگر ہم اسی شب میں اللہ سے غافل ہو
جائیں گے تو یہ کتنی کم نصیبی کی بات ہوگی۔ لہٰذا اس حدیث کو پڑھو اور شبِ
عید میں ماہِ رمضان المبارک میں اپنے سارے اعمال کا تجزیہ اور احتساب کرو۔
اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب عید
الفطر کی رات آتی ہے ملائکہ خوشی مناتے ہیں اور اللہ عزوجل اپنے نور کی خاص
تجلی فرماتا ہے، فرشتوں سے فرماتا ہے اے گروہِ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ
ہے جس نے اپنا کام پورا کر لیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اس کو پورا اجر دیا
جائے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اس کو بخش
دیا۔ میرے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے پیارے دیوانو! اس حدیث
کو پڑھنے کے بعد رمضان کی آخری شب ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ ہم نے
پورے ماہ میں کتنی نیکی کی ہے اور آج جو نیکیوں کا صلہ ملنے کی شب ہے اس
میں ہمیں کتنے اجر کے حقدار ہیں۔ اگر ہم نے ماہِ رمضان المبارک میں بھر پور
عبادت کی ہے تو ٹھیک ہے اور اگر ہم سے عبادت میں کوتاہی ہو گئی ہے تو پھر
اب کون سی خوشی ہمیں ہے جس کی اتنی دھوم دھام سے تیاری کرنے جا رہے ہیں،
ہمیں تو اپنی کوتاہیوں پر افسوس و ندامت کرنا چاہئے تھا کہ افسوس صد افسوس
ہم سے ماہِ محترم رمضان کا حق ادا نہیں ہو سکا۔
صحابہ کرام اور بزرگانِ دین کی حیاتِ طیبہ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو ہم پر
یہ بات واضح ہو جائے گی کہ وہ حضرات رمضان المبارک کے مہینے میں بے شمار
نیکیاں کرنے کے باوجود عید کے دن کتنا افسوس کیا کرتے تھے اور ان کو یہ فکر
ستایا کرتی تھی کہ کیا ہم نے رمضان المبارک کا حق ادا کر دیا ہے جیسا کہ
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے منقول ہے کہ آپ عید کے دن گوشہ
تنہائی میں بیٹھ کر اتنا روئے کہ ریشِ مبارک تر ہو گئی، لوگوں نے دریافت
کیا تو فرمایا جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے روزے قبول ہوئے یا نہیں وہ
عید کیسے منائے۔(مواعظِ حسنہ)اسی طرح حضرت صالح رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے
منقول ہے کہ وہ عید کے دن اپنے اہل و عیال کو اکٹھا کرتے اور سب مل کر
روتے، لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کیوں ایسا کرتے ہیں؟ فرمانے لگے میں غلام
ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم فرمایا ہے
ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ہم سے پورا ہوا یا نہیں، عید کی خوشی منانا اسے
مناسب ہے جو عذابِ الٰہی سے امن میں ہو۔
میرے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے پیارے دیوانو! وہ حضرت عمر
(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جن کے حوالے سے سید کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و
سلم نے ارشاد فرمایا کہ ان کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں اور
حضرت صالح رحمة اللہ علیہ جو اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں ان حضرات کا یہ حال
ہے کہ اس تصور سے رو رہے ہیں کہ کیا خبر ماہِ رمضان المبارک کے روزے قبول
ہوئے ہیں یا نہیں، اللہ کے حکم کی تکمیل ہوئی یا نہیں، اللہ ہم سے راضی ہوا
یا نہیں۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے دل میں کبھی یہ خیال بھی پیدا نہیں
ہوتا اور ہم رمضان کے رخصت ہوتے ہی رقص و سرور میں مدہوش ہو کر اللہ عزوجل
کو بھول جاتے ہیں۔
میرے عرض کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عید نہ منائی جائے۔ یقینا عید منانی
چاہئے مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں ہونا
چاہئے۔ چاہے خوشی کا موقع ہو یا غم کا۔ جیسا کہ حضور تاجدارِ کائنات صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:جنہیں قیامت کے دن سب سے پہلے جنت
کی طرف بلایا جائے گا وہ ہوںگے جو خوشی وغم میں اللہ عزوجل کی حمد کرتے
ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس شب میں یاد کرنے کی فضیلت حدیثِ پاک میں اس
طرح مروی ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاجدار کائنات صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے روایت کی ہے کہ جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے
اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مریں گے۔ دوسری روایت میں اس
طرح منقول ہے کہ اصبہانی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے
ہیں کہ جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لئے جنت واجب ہے۔ ذی الحجہ
کی آٹھویں، نویں اور دسویں شب، عید الفطر کی رات اور شعبان کی پندرہویں رات
یعنی شبِ برات۔ |