پاکستان انڈیا کیساتھ اپنے کئی
اہم میچزاکثر ہار جاتا ہے مگر ہماری ٹیم کو ہارتے ہوئے شاید یہ احساس نہیں
ہوتا کہ اس ٹیم کے ساتھ پاکستانیوں اور پاکستان کی کتنی زیادہ وابستگی
ہے۔پاکستان اور انڈیا کے ہر میچ میں تما م پاکستانی ،چھوٹے ،بچے ،بوڑھے،جوان
اور عورتیں بہت ہی شوق سے میچ کو دیکھتے ہیںمگر سب کو مایوسی اس وقت ہوتی
ہے جب ہماری ٹیم انڈیا کے با لمقابل غیر جذباتی،غیر متناسب ،پریشرائزاور بے
تُکا ہو کر کھیلتی ہے۔
سری لنکا میں جاری ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ مقابلوں کے سپرایٹ مرحلے کے میچ میں
بھارت نے اچھا کھیلتے ہوئے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے دی ہے۔کولمبو
میں کھیلے جانے والے اس میچ میں ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان کی
ساری ٹیم 19.4 اوورز میں ایک سو اٹھائیس رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔جواب میں
بھارت نے مطلوبہ ہدف دو وکٹوں کے نقصان پر سترہ اوورز میں حاصل کر
لیا۔پاکستان اس سے پہلے بھی بھارت کو کبھی ایک روزہ عالمی مقابلوں میں یا
ٹی ٹوئنٹی کے عالمی ٹورنامنٹس میں شکست نہیں دے پایا۔ویرات کوہلی دو چھکوں
اور آٹھ چوکوں کی مدد سے 78 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے اور میچ کے بہترین
کھلاڑی ٹھہرے۔بھارت کی جانب سے سہواگ اورگمبھیر نے اننگز کا آغاز کیا تاہم
گمبھیر بغیر کوئی رنز بنائے رضا حسن کی گیند پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔جلدی نقصان
کے بعد سہواگ اور کوہلی نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے75 رنز کی شراکت
قائم کی۔75 کے مجموعی سکور پر سہواگ انتیس رنز بنا کر شاہد آفریدی کی گیند
پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔
اس سے پہلے پاکستان کی جانب سے شعیب ملک اٹھائیس رنز بنا کر سب سے نمایاں
بلے باز رہے۔عمر اکمل نے اکیس رنز بنائے اور اس کے علاوہ آفریدی 14، عمران
نذیر 8، ناصر جمشید4، کامران اکمل 5، اور کپتان محمد حفیظ نے28بالز کے بدلے
محض15 رنز بنائے اور ان کی گیم ٹی ٹونٹی کی بجائے کسی ٹیسٹ میچ کی گیم
دکھائی دی،میچ کا ہارنے کاسبب پروفیسر صاحب کی ٹُک ٹُک بھی تھی۔پاکستان کی
جانب سے محمد حفیظ اور عمران نذیر نے اننگز کا آغاز کیا ہے اور دوسری اوور
میں عمران نذیر ایل بی ڈبلیو ہو گئے،عمران نذیر بھی آج تک کسی بڑی ٹیم کے
خلاف کوئی بڑا سکور بنانے میں ناکام رہے۔عمران نذیر نے دو چوکوں کی مدد سے
پانچ گیندوں پر آٹھ رنز بنائے اور امپائر کے غلط فیصلے کا شکار ہو کے
پویلین لوٹ گئے۔پاکستان نے بیٹنگ آڈر میں تبدیلی کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو
تیسری پوزیشن پر بھیجا تھا، آفریدی روایتی مگر اچھا سٹارٹ لیا مگر بدقستمی
سے اس کا باﺅنڈری پر کیچ ہو گیا۔بھارت کی جانب سے عرفان پٹھان نے ایک،
بالاجی نے تین، ایشون اور یوراج سنگھ نے دو دو جبکہ کوہلی نے ایک وکٹ حاصل
کی۔
یاد رہے کہ پاکستان کی ٹیم بھارت کو اس ٹورنامنٹ سے پہلے ہونے والے ایک
وارم اپ میچ میں ہرا چکی ہے۔لیکن پاکستان ماضی میں بھارت کو کبھی ایک روزہ
عالمی مقابلوں میں یا ٹی ٹوئنٹی کے عالمی ٹورنامنٹوں میں شکست نہیں دے پایا
ہے۔پاکستان نے سپر ایٹ کے اپنے پہلے مقابلے میں دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں
میں سے ایک جنوبی افریقہ کو سنسنی خیر مقابلے کے بعد دو وکٹوں سے شکست دے
دی تھی۔بھارت کو آسٹریلیا کے ہاتھوں نو وکٹوں سے شکست اٹھانا پڑی
تھی۔پاکستان نے جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلنے والی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں
کی جبکہ بھارت نے ٹیم میں دو تبدیلیاں کی تھی۔بھارت نے ہربھجن سنگھ اور
چاولہ کی جگہ سہواگ اور بالاجی کو ٹیم میں شامل کیا۔پاکستان کی ٹیم: محمد
حفیظ، عمران نذیر، ناصر جمشید، کامران اکمل، شعیب ملک، عمر اکمل، شاہد
آفریدی، یاسر عرفات، رضا حسن، عمر گل اور سعید اجمل شامل ہیں۔ پاکستانی ٹیم
میں یاسر عرفات کی جگہ عبد الرزاق کا ہونا شاید زیادہ بہتر فیصلہ
ہوتا۔بھارت کی ٹیم: سہواگ، گمبھیر، رائنا، یوراج سنگھ، شرما، دھونی، عرفان
پٹھان، ایشون، ظہیر خان اور بالاجی شامل ہیں۔
انڈین ٹیم ہمارے خلاف منظم،جذباتی ہو کر، پورے ہوش و لولے کیساتھ اور
سپورٹس مین سپرٹ سے میدان میں اترتی ہے۔ان کے کھلاڑی ہمارے کھلاڑیوں کا
پریشر لینے کی بجائے ہوش کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔دو اہم کیچز چھوڑے
گئے ۔پہلا کیچ عمر اکمل نے چھوڑ دیا اور دوسرا عمران نذیر نے چھوڑ دیا۔ عمر
گل کی باﺅلنگ میں بھی پھرتی نظر نہیں آئی۔کیا کہا جائے دونوں ہی بہترین
فیلڈر ہیں ،نجانے اس وقت ان پر کیا گزری کہ انہیں اپنے ہاتھ میں گیند نظر
ہی نہ آئی۔اس وقت شاہد آفریدی کی بیٹنگ روبزوال ہے مگر پھر بھی اس میںکسی
بھی وقت کچھ کر جانے کی صلاحیت ہے۔کیونکہ آفریدی ایسا آل راﺅنڈر ہے جو اپنی
باﺅلنگ میں بھی مخالفین کا کام کر جاتا ہے۔اگر موجودہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا
موازنہ کیا جائے تو ہماری ٹیم زیادہ مضبوط اور منظم ہے۔دھیان سے کھیلا جاتا
تو ہماری ٹیم نہ صرف انڈیا سے میچ جیت جاتی بلکہ اس دفعہ ہماری ٹیم کے ٹی
ٹونٹی کا ورلڈ کپ تک جیت جانے کا امکان باقی ہے۔اس کے بعد ہماری اگلا راﺅنڈ
میچ آسٹریلیا سے ہے اگر ہماری ٹیم اس میچ میں اپنی خامیوں پر قابو پا
کرکھیلی تو یقینا سیمی فائنل تک رسائی ہو جائے گی ورنہ سری لنکا سے جلدی
واپسی ممکن ہے۔ |